لداخ اور کشمیر میں بڑھتی کشیدگی پر عالمی توجہ


عالمی توجہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے ایک اہم حصے لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان فوجی کشیدگی کی جانب مبذول ہو رہی ہے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی فوجی جھڑپوں اور جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ خطے میں جنگی خطرات پر مبنی خطرناک صورتحال اس وقت سامنے آئی کہ جب گزشتہ سال 5 اگست کو انڈیا نے اپنے آئین میں تبدیلیاں کرتے ہوئے جموں و کشمیر اور لداخ پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے لئے ایک بڑا جارحانہ اقدام کیا۔ چین نے اپنے ردعمل میں بھارت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ چین لداخ کے معاملے میں ایسا ہونے نہیں دے گا جو بھارت کرنا چاہتا ہے۔

عالمی میڈیا میں چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں ہونے والی جنگی کشیدگی اور فوجی تیاریوں سے متعلق آراء پیش کی جار ہی ہیں۔ تاہم عالمی سطح پہ چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں کشیدگی میں کشمیر کی بھارت کی جنگی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی صورتحال کا ذکر اس انداز میں نہیں کیا جا رہا جو اقوام متحدہ کی طر ف سے متنازعہ ( جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ابھی باقی ہے ) ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کے بجائے مسئلے کا حل فوجی اور اقتصادی طاقت کی بنیاد پر کرنے کی کوششیں خطے میں جنگ اور تباہی کے خطرات کا مکمل سامان لئے ہوئے ہے۔

انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات اور مسئلہ کشمیر اپنی بڑی فوجی قوت کے جارحانہ اقدامات سے اپنے حق میں حل کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے تذکرے میں کشمیر کی صورتحال کیوں نظر انداز کی جا رہی ہے۔ لداخ کشیدگی میں کشمیر کانام عالمی سطح پر کیوں شامل نہیں؟ بھارت کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں چین نے سخت روئیے کا ردعمل ظاہر کیا جبکہ پاکستان کا ردعمل کمزور رہا۔

پاکستان دنیا کے سامنے یہ ظاہر کرتے نظر نہیں آیا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لئے پاکستان کس حد تک جا سکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے جارحانہ ردعمل کے بجائے الٹا پاکستانی انتظامیہ کی طرف سے یہ تکرار شروع کر دی گئی کہ بھارت کشمیر میں ہونے والے کسی مسلح حملے کے واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس جنگی خطرے کا اظہار بے جا نہیں کیونکہ خود بھارتی عہدیداروں کی طرف سے تواتر سے یہ بات کی گئی ہے کہ بھارت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کر کے وہاں قبضہ کر لے گا۔

پاکستان انتظامیہ کے لئے امریکہ کی طرف سے سونپی گئی خفیہ ذمہ داریوں اور کئی اندرونی سنگین مسائل کے باجود پاکستان کشمیر کے محاذ پہ کمزوری دکھانے کے ہولناک نتائج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان انتظامیہ ملک کے دیرینہ اندرونی مسائل کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی راہ اختیار کرے۔ اگر حاکمیت کا توازن آئین کی روشنی میں طے کر لیا جائے تو پاکستان اپنے سیاسی اورعلاقائی مسائل کو طاقت کے بجائے سیاسی بنیادوں پہ حل کرنے میں پیش رفت کر سکتا ہے اور ایسی صورتحال ملک کی ابتر اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے معروف عالمی جریدے ”نیوز ویک“ میں ٹام اوکونرنے چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ نئی دہلی نے اگست میں بھارتی آئین میں کی جانے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں لداخ سمیت نیم خودمختار کشمیر پر مستحکم کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت نے حریف پاکستان اور چین کو مشتعل کر دیا۔ اسلام آباد اور بیجنگ نے اپنے اپنے معاشی، سیاسی اور دفاعی تعلقات میں اضافہ کیا ہے، جس سے نئی دہلی پر نیا دباؤ پڑا ہے، خاص طور پر جب گزشتہ فروری میں سرحد پار سے ہونے والے تشدد میں ایک بہت بڑا اضافہ ہونے پر ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات مزید خراب ہوگئے تھے۔ بیجنگ نے بحیرہ جنوبی چین کے بارے میں ا پنی پالیسی کے مطابق طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ رپورٹ میں کشمیر کے دیرینہ اور سنگین مسئلے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، مسئلہ کشمیر جو سلگ رہا ہے اور کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔

” نیوز ویک“ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے علاقائی حکومتوں کو جیسے کہ کھٹمنڈو اور اسلام آباد کو بیجنگ کے بہت قریب جانے کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ وائٹ ہاس بین الاقوامی تعلقات میں چینی طرز عمل کو شکست خوردہ سمجھتا ہے، چینی حکام کی جانب سے امریکہ کے ان جذبات کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے قریبی تعلقات استوار کیے ہیں کیونکہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کے تعلقات مختلف جغرافیائی سیاسی اہداف پر سخت امتحان کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین کے صدرنے اپنی فوج سے پیپلز لبریشن آرمی اور پیپلز آرمڈ پولیس فورس کے وفد کے ہمراہ منگل کے ایک مکمل اجلاس میں اپنی جنگی تیاریوں کو تیز کرنے کو کہا ہے۔ میڈیا پہ مودی کی چین کے ساتھ سرحد پر صورتحال پر اعلی فوجی اور سیکیورٹی حکام سے ملاقات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments