جب ٹیگور اور دیگر کے نوبل پرائز چوری ہوئے۔۔۔


اس دنیا میں شاید ہی کوئی شریف شخص چوروں کے ہاتھوں کی کارستانی سے محفوظ رہا ہو! ہر کسی کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی چھوٹے یا بڑے چوروں کی مصیبت سے نبرد آزما ہونا ہی پڑتا ہے، مگر یہاں ذکر ایک بعد از وفات چوری کی ہو رہی ہے، جو بھی کسی عام شخص کی نہیں، بلکہ مشہورعالم بنگالی و انگریزی شاعر، اسکالر، مصور، ڈرامہ نویس، تھیئٹر اداکار و ہدایتکار، شانتی نکیتن میں ”وسوا بھارتی“ جیسی عظیم درسگاہ کی روح بنیاد و روح رواں اور ”گیتانجلی“ کے خالق، رابندر ناتھ ٹیگور ( 1861 ء۔ 1941 ء) کی ہونے والی چوری ہے، وہ بھی ان کی کسی عام چیز کی نہیں، بلکہ ان کی زندگی کی سب سے قیمتی پونجی اور ان کو ملے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ، ”نوبل پرائز“ کی چوری! ایک ایسی چوری، جس کا صرف تذکرہ سنتے ہی انسان انگشت بہ دنداں ہو جائے! 1913 ء میں ٹیگور کو ملنے والے ادب کے اس نوبل انعام کا طلائی میڈل، ملنے کے 91 برس بعد (یعنی کم و بیش ایک صدی بعد) 25 مارچ 2004 ء کو مغربی بنگال (بھارت) کے شہر ”شانتی نکیتن“ میں، ٹیگور کی اسی قائم شدہ وشوا بھارتی یونیورسٹی سے چوری ہو گیا، جو اسی یونیورسٹی میں ٹیگور کے میوزیم نما کارنر میں ڈسپلے کے لیے رکھا تھا، جہاں ٹیگور کے استعمال کی اور بھی چیزیں رکھی ہیں۔

یہ کارنر ہر خاص و عام کے دیکھنے کے لیے ان کی اپنی قائم شدہ مادر علمی میں موجود ہے۔ یہ ”نوبل پرائز“ کا تمغہ کس نے چرایا؟ یہ پتا آج تک نہیں چل سکا، مگر اتنا پتا البتہ لگایا گیا تھا کہ یہ ”نوبل پرائز“ چوری کرنے والا کوئی مقامی بنگالی ہی تھا، جس نے اپنے دو عدد یورپی اچکے ساتھیوں کی مدد سے یہ سونے کا تمغہ چوری کیا تھا۔ یقیناً وہ نہ صرف بڑا بہادر چور تھا، جس نے تاریخ کے اتنے بڑے آدمی کی اتنی بڑے پیمانے کی چوری کی، بلکہ بڑا حرفتی بھی تھا، جو آج تک پکڑا بھی نہیں جا سکا، یعنی اس نے اپنی اس ”کارستانی“ کے بعد پیچھے اپنے کوئی نشانات بھی نہیں چھوڑے، البتہ اس چور اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دینے کے الزام میں، اس چوری کے 12 برس بعد 2016 ء میں ”پرادیپ بؤری“ نامی ایک مقامی صوفی گلوکار کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جس تک تفتیشی افسران کے بقول اس چوری کا سراغ پہنچا تھا، مگر اس کے باوجود اس قدر قیمتی انعام کی چوری پکڑی نہیں جا سکی۔

کچھ ذرائع کے مطابق پرادیپ کے پکڑے جانے کے بعد یہ چوری واپس ہوئی تھی مگر اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ نتیجتاً سویڈش سرکار اور نوبل پرائز انتظامیہ کی جانب سے وشوا بھارتی یونیورسٹی کو اس چوری شدہ نوبل پرائز کے طلائی اور تانبے کے اسی جیسے ہی دو عدد اور نمونے (ریپلیکاز) تحفتا دیے گئے تھے، جن کو پھر ٹیگور سے منسوب اسی کارنر میں ڈسپلے کیا گیا ہے، اور انہیں وہاں سے ابھی تک کسی اور چور نے نہیں چرایا۔

einstein & tagore

اس حیرت انگیز اور دلچسپ چوری پر بھارت میں 2012 ء میں بنگالی زبان میں اشوانی شرما نے ”نوبل چور“ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی ہے، جس کی ہدایات سمن گھوش نے دیں اور مرکزی کردار، متھن چکرورتی، سومیتراچترجی اور روپا گنگولی نے ادا کیے۔

آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ نوبل پرائز اس خطے کے چوروں کا چوری کرنے کے حوالے سے شاید مرغوب خزانہ ہے، کیونکہ بھارت سے فقط یہ ایک ہی نوبل انعام نہیں چرایا گیا، بلکہ حال ہی میں 7 فروری 2017 ء کو حقوق اطفال کے لیے جدوجہد کرنے والے، ”کیلاش ستیارتھی“ کے 2014 ء میں حاصل کیے ہوئے امن کے نوبل انعام (جو انہوں نے ملالہ یوسفزئی کے ساتھ شراکت داری میں حاصل کیا تھا) کا طلائی تمغہ بھی دہلی میں ان کے گھر سے دیوار کاٹ کر چوری کر لیا گیا، جس کے چور بھی پکڑے نہیں جا سکے۔

دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ نوبل پرائز کی چوری کے یہ دونوں اکیلے واقعات نہیں ہو گزرے، بلکہ برطانوی لیبر پارٹی کے بانی آباء میں سے اہم شخصیت ”آرتھر ہینڈرسن“ ( 1863 ء۔ 1935 ء) کو جنگ عظیم دوم سے قبل ہتھیاروں کی کمی کے لیے بین الاقوامی سطح پر جدوجہد کے اعتراف کے طور پر ملنے والا امن کا نوبل انعام، اپریل 2013 ء میں جنوبی ویلز (آسٹریلیا) کے شہر نیوکیسل میں واقع لارڈ میئر کے دفتر سے چوری ہو گیا، جو بھی آج تک نہیں مل سکا۔

اس کے علاوہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی جانب سے جیتا ہوا اولین نوبل پرائز، جو 1939 ء میں فزکس کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے اور ”سائیکلوٹرون“ کی ایجاد پر، پروفیسر ارنیسٹ او۔ لارنس (1901 ء۔ 1958 ء) کو ملا تھا، یونیورسٹی میں ان کی وفات کے بعد ان ہی کے نام سے منسوب قائم شدہ ”لارنس ہال آف سائنس“ کے ڈسپلے سے 2007 ء میں چوری ہوا، جو چوری کرنے کی ہمت اسی یونیورسٹی کے ”لان سانچیز“ نامی 22 سالہ طالب علم نے کی تھی، جس کو نہ صرف پکڑا گیا، بلکہ اسے سزا دے کر، اس سے یہ چوری واپس بھی کرائی گئی تھی اور وہ تمغہ واپس اسی جگہ نمائش کے لیے رکھا گیا، جو آج بھی وہیں موجود ہے۔

نوبل انعامات کی ان چار یادگار چوریوں کے علاوہ نوبل انعام پر ایک عدد ڈاکا بھی پڑ چکا ہے اور وہ ڈکیتی آپ کی اور ہم سب کی جانی پہچانی شخصیت، فلسطینی تحریک آزادی کے اہم رہنما اور ”فلسطینی لبریشن اتھارٹی“ (پی۔ ایل۔ اے ) کے سابق چیئرمین، یاسر عرفات ( 1929 ء۔ 2004 ء) کو ملنے والے نوبل پرائز کی ہوئی تھی، جو انعام انہوں نے 1994 ء میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم، ”آئزک ریبن“ اور وزیر خارجہ ”شیمون پیریز“ کے ساتھ مشترکہ طور پر حاصل کیا تھا۔

2004ء میں یاسر کے انتقال کے بعد، سے ان کے اس نوبل انعام کا میڈل، غزہ کے ہیڈ کوارٹر میں رکھا تھا، جس پر جب 2007 ء میں صدر محمود عباس کے حامیوں اور ”پی ایل او“ کی دشمن جماعت ”حماس“ (حرکت المقاویتہ الاسلامیہ) کے کارکنان نے قبضہ کیا، تو عمارت میں موجود یاسر عرفات کو ملنے والے نوبل انعام کے اس سونے کے میڈل سمیت سارا سامان، مال غنیمت سمجھ کر اپنے قبضے میں کر لیا گیا، جو بعد میں ان کے قبضے سے واپس بھی لیا جا چکا ہے اور اس نوبل پرائز کو باقی سامان سمیت اب یاسر عرفات کے نام سے منسوب میوزیم میں مستقل نمائش کے لیے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

نوبل انعام کا میڈل چوری ہونے کے بعد اس کے چور کے لیے اس کی حیثیت فقط اس میں لگے سونے کی قیمت کے برابر جتنی ہی رہتی ہے، جو بازار میں یقیناً (لاکھوں نہیں تو بھی) ہزاروں ڈالرز کی قیمت میں تو ضرور بکتا ہوگا، جس کے لیے قوی گمان ہے کہ، کسی بھی گرفتاری کے امکان سے بچنے کے لیے، اس کی فروخت کے بعد پہلی فرصت میں اس سونے کو پگھلا کر، اس کو اس کی اصل صورت میں رہنے نہیں دیا جاتا ہوگا۔ یاد رہے کہ 1980 ء سے پہلے ہر نوبل انعام کا طلائی تمغہ، 23 قیراط ( 4.6 گرام) سونے کا بنا ہوا ہوتا تھا، جو (شاید) انہی بڑھتی ہوئی چوریوں کی وجہ سے، اب کم کر کے فقط 18 قیراط ( 3.6 گرام) ”سبز سونے“ (گرین گولڈ) کا بنایا جاتا ہے، جس پر 24 قیراط ( 4.8 گرام) سونے کا پانی چڑھایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments