بینظیر بھٹو کے بارے میں’توہین آمیز‘ ٹویٹس، سنتھیا رچی کے خلاف ایف آئی اے میں درخواست جمع


بینظیر

حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستانی سوشل میڈیا پر فعال غیر ملکی خاتون سنتھیا رچی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں درخواست جمع کروا دی ہے۔

یہ درخواست سنتھیا رچی کی جانب سے ملک کی سابق وزیر اعظم اور پاکستانی پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بینظیر بھٹو کے خلاف ’توہین آمیز اور بہتان پر مبنی‘ ٹویٹس کرنے پر دائر کی گئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر اور ایڈوکیٹ ہائی کورٹ شکیل عباسی کی طرف سے درج کرائی اس شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’ایک خاتون جو ٹوئٹر ہر سنتھیا ڈی رچی کے نام سے جانی جاتی ہیں، انھوں نے اپنے اکاؤنٹ سے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کی صدر محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی توہین آمیز اور بیہودہ تبصرے پوسٹ کیے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے نئے ’سفید فام مداح‘

’پاکستان سفر کرنے کے لیے آسان ملک نہیں‘

پاکستانی ٹوئٹر پر ’سنتھیا‘ کا نام کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟

ایف آئی اے کو دی گئی درخواست میں شکیل عباسی کا موقف ہے کہ ’اُن (سینتھیا) کے جھوٹے، بے بنیاد، بدنامی اور بہتان پر مبنی ٹویٹس سے پاکستان میں بینظیر بھٹو کے چاہنے والوں کو بہت دکھ اور تکلیف پہنچی ہے۔‘

انھوں نے ایف آئی اے سے سنتھیا رچی کے خلاف فوراً قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سنتھیا رچی نے کیا کہا تھا؟

اس معاملے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب سنتھیا نے گذشتہ 48 گھنٹوں سے پاکستان میں اداکارہ عظمیٰ خان پر تشدد کی وائرل ویڈیوز پر اپنا تبصرہ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا۔

انھوں نے لکھا کہ اس سے انھیں وہ کہانیاں یاد آ رہی ہیں کہ ’بی بی (بینظیر) اس وقت کیا کرتی تھیں جب ان کے شوہر انھیں دھوکہ دیتے تھے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بینظیر اپنے گارڈز کے ذریعے ایسی خواتین (جن کے زرداری صاحب سے مبینہ تعلقات ہوتے) کی عصمت دری کرواتی تھیں۔‘

اپنی ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خواتین عصمت دری کے ایسے کلچر کی مخالفت کیوں نہیں کرتیں؟ کیوں کبھی مردوں کو جوابدہ نہیں کیا جاتا؟ انصاف کا نظام کہاں ہے؟‘

https://twitter.com/CynthiaDRitchie/status/1265819204755873792?s=20

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، کارکنان اور حامیوں کے علاوہ دیگر سیاسی شخصیات اور صارفین نے اس سنتھیا کے اس دعوے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

صارفین کی جانب سے سنتھیا کو اپنے دعوے کے ثبوت میں شواہد پیش کرنے کو کہا گیا جو کہ تاحال انھوں نے پیش نہیں کیے ہیں۔

تاہم اپنے خلاف ایف آئی اے کو دی گئی درخواست پر ردِعمل دیتے ہوئے انھوں نے ٹویٹ کیا ’برائے مہربانی پی پی پی کے نام نہاد جمہوریت پسند لوگوں کی طرف سے مجھے دی جانی والی موت کی دھمکیوں پر بھی کارروائی کی جائے۔‘

ساتھ ہی انھوں نے لکھا کہ ’جو لوگ انھیں جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ سابقہ وزیرِاعظم کو اپنے شوہر کے ہاتھوں کس قسم کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بے نظیر کے شوہر ان کی اور ان کے بھائی کی موت کے ذمہ دار تھے اور اس سب کے بارے میں کچھ بھی نیا نہیں یہ پہلے سے رپورٹ اور دستاویزی شکل میں موجود ہے۔‘

پاکستانی پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمان نے کہا کہ وہ عموماً اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتی مگر ‘یہ بدنیتی پر مبنی بہتان ہے جس کی بنیاد سراسر جھوٹ پر ہے۔ اس طرح کی گند کو شہید وزیر اعظم سے منسلک کرنا جو خواتین کی حقوق کی علمبردار تھیں درحقیقت اس ‘بوٹ ہینڈل’ کی مصنفہ کے کردار کی وقعت کم کرنے جیسا ہے۔’

https://twitter.com/sherryrehman/status/1265881465931382785?s=20

شیری رحمان نے ٹوئٹر سے سنتھیا کی ٹویٹس پر ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ سنتھیا ڈی رچی کو خزانے میں ادائیگی کی جاتی ہے یا نہیں اور اگر کی جاتی ہے تو کس لیے اور کتنی رقم ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کس ویزے پر پاکستان میں رہ رہی ہیں، یہ ویزہ کس نے اور کس مقصد سے جاری کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خاموشی کوئی آپشن نہیں ہے۔انھوں نے ممبرانِ پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ سنتھیا رچی سے متلعق پارلیمنٹ میں ان سوالات کے جواب طلب کریں۔

مصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ ’آپ چاہے نظیر بھٹو کی سیاست سے اتفاق کرتے ہوں یا نہیں، لیکن کوئی بھی بے نظیر کے کردار پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ وہ ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے مردوں کی دنیا میں اپنی عزت و احترام قائم رکھتے ہوئے زندگی گزاری۔‘

https://twitter.com/iamthedrifter/status/1266046174886350848?s=21

نہ صرف پی پی پی بلکہ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھے والے کارکنان اور کئی سرکردہ شخصیات نے بھی سابقہ وزیر اعظم کے بارے میں سنتھیا رچی کے الزامات کی مذمت کی ہے۔

سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی سابق کارکن بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ کو پوچھنا چاہیے کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم، پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق اور سیاسی کارکن کو بدنام کرنے کے لیے کس نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے غیر ملکی ٹرولز کو بھرتی کر رکھا ہے اور کون انھیں پاکستانی شہریوں کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے کا کنٹریکٹ دیتا ہے۔‘

https://twitter.com/BushraGohar/status/1265891036557180928?s=20

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے تعلق رکھنے والے پروفیسر تیمور رحمان نے بھی سنتھیا رچی کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹویٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں تیمور کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ میں نہ تو پی پی پی کا ممبر ہوں اور نہ ہی ان کا حمایتی لیکن سنتھیا کے الزامات سن میرا خون کھول رہا ہے۔ ایسا جھوٹ ہم نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں سنا۔ کسی اخبار میں آج تک ایسی خبر نہیں دیکھی، کوئی عورت ایسا الزام لے کر سامنے نہیں آئی، کوئی گارڈ کا نام ہی بتا دیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’بینظیر ہماری عوامی طور پر منتخب لیڈر تھیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ باہر سے آ کر کوئی بھی بندہ ان کے بارے میں ایسی افواہیں اور غلط باتیں کر جائے۔‘

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم علی یوسفزئی ان کے خلاف کیلیفورنیا کی عدالت میں مقدمہ درج کروائیں گے۔

https://twitter.com/Aliyusufzai5/status/1265884737912164352?s=20

یاد رہے کہ سنتھیا نے بینظیر کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کے حوالے سے ایک ٹویٹ کی تھی جو کہ انھوں نے بعدازاں ڈیلیٹ کر دی۔

اسی طرح چند روز قبل انھوں نے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل پر بھی ’سیکس رِنگ‘ چلانے اور لڑکیوں کے اسقاط حمل کروانے کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp