یوم تکبیر منانے یا جنگ کرنے سے کامیابی نہیں ملے گی


22 برس قبل ایٹمی دھماکے کرنے کی یادگار کے طور پاکستان میں آج ’یوم تکبیر‘ منایا گیا۔ اس موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مدد دینے والے ماہرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس دن کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان پر امن ملک ہے لیکن اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ کا ضامن بتایا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کو بنی نوع انسان کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں اٹیمی اسلحہ کی دوڑ نے ماحولیاتی تباہی کو دوچند کیا ۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سے دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں نے ایٹمی ہتھیار کم کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ دنیا بھر کے امن پسند اور انسان دوست عناصر جوہری صلاحیت یا اسلحہ پر وسائل صرف کرنے کی بجائے انسانوں کی بہبود، معیار زندگی بہتر بنانے، دنیا بھر کے لوگوں کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور تعلیم عام کرنے پر سرمایہ کاری کرنے پر زور دیتے ہیں۔ سائینسی ترقی کے ساتھ اسلحہ اور ہتھیار اس قدر مہلک ہوچکے ہیں کہ ان کی تباہ کاری سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں صرف یوم تکبیر کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ عام طور سے یہ مزاج راسخ کیا جاتا ہے کہ طاقت اور اسلحہ کی دوڑ سے ہی پاکستان کی بقا ممکن ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس بیانیہ کے متبادل پر بھی غور کرنے اور اسے اختیار کرنے کے امکانات پر غور کیا جائے۔

پاکستان میں منائے جانے والے یوم تکبیر اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے صرف قومی سطح پر ہی خوشی و افتخار کا اظہار دیکھنے میں نہیں آتا بلکہ سوشل میڈیا پر بنے ہوئے مختلف گروپس میں بھی اس موضوع پر مباحث سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے اکثر مباحث میں اسی مؤقف کو دہرایا جاتا ہے جس کا اظہار سرکاری طور آئی ایس پی آر یا وزیر اطلاعات و وزیر خارجہ نے اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔ کہ یوں تو پاکستانی پر امن قوم ہیں اور علاقے میں مفاہمت و مصالحت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن بھارت کے مقابلے پر ڈٹا رہنے کے لئے پاکستان کو ایٹمی ہتھیار بنانا پڑے اور 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے واضح کرنا پڑا کہ پاکستان اس علاقے میں بھارتی ’غنڈہ گردی ‘ کو قبول نہیں کرے گا۔ اس طرح پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا کر محفوظ بنا دیا گیا ہے۔

یہ دلچسپ مؤقف ہے جس کی زمینی حقائق سے نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں مئی 1998 میں میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر بھی حکمران ہوتا تو شاید اسے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا ہی فیصلہ کرنا پڑتا۔ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ یہ فیصلہ پاکستانی سیاسی قیادت کی اولاالعزمی کی وجہ سے ممکن ہوسکا تھا جسے اس وقت نواز شریف نے متشکل کیا تھا۔ اسی طرح نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا یہ بیان بھی قابل قبول نہیں کہ نواز شریف نے قومی مفاد کے سامنے امریکہ سمیت کسی بھی طاقت کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور جوہری دھماکے کرکے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے مضبوط اور ناقابل شکست بنادیا گیا۔

یہ درست ہے کہ 22 برس قبل ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ اس وقت امریکی قیادت کی مرضی کے بغیر کیا گیا تھا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی سیاسی قیادت کو عوامی جذبات اور عسکری قیادت کے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ اس وقت جو بھی شخص وزیر اعظم ہوتا ، اسے یہی فیصلہ کرنا تھا کیوں کہ ایٹم بم کو پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ عوام کو ذہنی و جذباتی طور سے یوں تیار کرلیا گیا تھا کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کا ترکی بہ ترکی جواب نہ دینے کا فیصلہ کرنے والا کوئی بھی لیڈر اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے یوم تکبیر منانے اور ایٹمی دھماکے کرنے کے حوالے سے درست بیان یہ ہوگا کہ: پاکستانی حکومت کو اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنسنا پڑا اور زبردست عوامی دباؤ کی وجہ سے ان دھماکوں کا فیصلہ کیا گیا ۔ حالانکہ اس وقت کئے گئے اس ایک فیصلہ کی وجہ سے پاکستان میں معاشی و سماجی بحران و تباہ کاری کی بنیاد رکھ دی گئی۔

ایک لمحہ کے لئے اگر 1998 میں موجود حالات و واقعات میں کئے گئے اس فیصلہ کو درست مان بھی لیا جائے اور تسلیم کرلیا جائے کہ یہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں اس وقت پاکستان کی سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا تھا تو بھی اس وقوعہ کو دو دہائی سے زیادہ گزرنے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پاکستانی قوم ایٹمی ہتھیاروں، جنگی ساز و سامان اور مسلسل جنگ کی کیفیت برقرار رکھنے کے بارے میں متبادل دلائل پر غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جنگ اور امن کے بارے میں ملک میں صرف ایک بیانیہ ہی کیوں پتھر پر لکیر بنادیا گیا ہے۔ بدلے ہوئے حالات، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاک بھارت تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، اس خطے میں بڑی طاقتوں کی ترجیحات اور پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں کیا ضروری نہیں ہے کہ پاکستان بھی اس بات پر غور کرے کہ خوشحالی کا سفر شروع کرنے کےلئے ایٹمی ہتھیاروں پر فخر و انبساط کے علاوہ کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟

پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ اگرچہ ایٹمی دھماکوں کے واقعہ سے 27 برس پہلے رونما ہوچکا تھا لیکن کیا سقوط ڈھاکہ کی نصف صدی مکمل ہونے سے ذرا پہلے اور ایٹمی طاقت بننے کی ربع صدی مکمل کرتے ہوئے اس بات پر غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر پاکستان دسمبر 1971 میں بھی ایٹمی طاقت ہوتا تو بھی پاکستانی فوج کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار پھینکنے کی ذلت برداشت کرنا ہی پڑتی اور کسی ذوالفقار علی بھٹو کو شملہ معاہدہ کے تحت بھارتی قید سے 90 ہزار سے زیادہ جنگی قیدیوں کو واپس لانا پڑتا۔ اگر ان عوامل اور کوتاہیوں پر نگاہ ڈال لی جائے جو قوموں میں تفریق وانتشار کا سبب بنتی ہیں اور جن کی وجہ ایک ہی ملک میں آباد لوگوں کو ایک دوسرے کا ساتھ بوجھ لگنے لگتا ہے تو شاید یہ جانا جاسکے کہ کسی ملک کی حفاظت کے لئے ایٹمی ہتھیاروں سمیت کسی بھی قسم کے اسلحہ سے زیادہ اس خطے میں آباد لوگوں میں اتحاد و اشتراک، اطمینان، معاشی خوشحالی و بہبود، اور بلا تخصیص بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے اس سمت پاکستان کا سفر مسلسل زوال کا شکار ہے لیکن جنگ جیتنے اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے بارے میں وہی سوچ غالب ہے جس کے دباؤ میں مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے۔ سوچا جائے اگر حالات تبدیل نہ کئے جائیں اور غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکار کیا جائے تو پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟ بھارت کے ساتھ مقابلہ کی کیفیت میں ایٹمی دھماکے ضروری تھے تو کیا برصغیر کے دونوں ملکوں نے ایٹمی طاقت بننے کے بعد روس ، چین اور امریکہ کی طرح مفاہمت و بقائے باہمی کے کسی ٹھوس منصوبہ کی ضرورت محسوس کی یا دونوں دارالحکومتوں میں ایک ہی سوچ کا راج ہے کہ : اگر دشمن ایٹمی حملہ کرتا ہے تو جوابی حملہ میں اس کے کون سے علاقوں کو ٹارگٹ کیا جائے۔

ایٹمی ہتھیار نسل کشی کا طریقہ ہیں۔ ان ہتھیاروں کو امن کا راستہ سمجھنے کا طریقہ اب فرسود ہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کو بھی اب اس فکر کہن سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقا ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنے یا یہ حساب لگانے میں مضمر نہیں ہے کہ اگر دشمن نے حملہ کیا تو جوابی حملہ میں پاکستان، بھارت کے کتنے لوگوں کو ہلاک کرسکتا ہے بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پاکستانی قوم زندہ رہنے اور عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کتنی سرمایہ کاری کرتی ہے۔ ان مسائل سے کیسے نمٹا جاتا ہے جو اسے اندر ہی اندر گھن کی طرح کمزور کررہے ہیں۔ وسائل کی کمی پر کیسے قابو پایا جائے اور گولہ بارود یا تباہ کرنے والے ہتھیاروں کو طاقت سمجھنے کی بجائے ، ملک میں آباد لوگوں کو اصل طاقت سمجھا جائے اور ان کی ترقی و سربلندی کے لئے کام کا آغاز کیاجائے۔

یہ درست ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ یہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ بھارتی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان کو ہمہ وقت کسی بھی انہونی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ لیکن اس خوف میں زندگی گزارنے کو اکلوتی سچائی مان لینے سے قومی تعمیر کے کسی منصوبہ کا آغاز نہیں ہوسکے گا۔ یوم تکبیر کو پاکستانی قوم کی کامرانی کا اعلان نامہ سمجھنا یوں ہی ہوگا جیسے ترک ڈرامہ غازی ارطغرل کے ہیرو کی تلوار بازی کو پاکستان کی سربلندی کا نقطہ آغاز قرار دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments