اپنے مرد کا گناہ دوسری عورت کے سر پر کب تک؟


ہم میں سے کئی لوگ بالخصوص ٹویٹر صارفین عظمیٰ خان تشدد کیس کے بارے میں بخوبی جان گئے ہوں گے۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے ایک رشتے دار کا ماڈل و اداکارہ عظمیٰ خان سے معاشقہ ویب میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ پرنٹ میڈیا پر بھی شاید خبریں آئی ہوں لیکن نظر سے نہیں گزریں۔ عظمیٰ خان نے اس واقعے کے بعد لاہور پریس کلب میں میڈیا کانفرنس کی لیکن یہ کسی ٹی وی چینل پر نہ دکھائی گئی۔ البتہ یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹویٹر وغیرہ پر اس کی موبائل سے بنی ہوئی وڈیوز ضرور موجود ہیں۔ ظاہر ہے ایسے سکینڈلز میں کوئی معروف شخصیت یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار ملوث ہو تو بھلا میڈیا کی جرات کہ وہ خبر دکھائے یا چلائے۔ البتہ ٹویٹر پر یہ ٹرینڈز بنتے رہے :

#UzmaKhan, #JusticeForUzmaKhan, #Uzman, #AmnaUsman

خیر، عظمیٰ خان کا ملک ریاض کے رشتے دار عثمان سے کیا معاملہ یا رشتہ ہے، اس سے قطع نظر میرا موضوع معاشرے کی عمومی نفسیات اور منافقانہ معیار ہے۔

یہاں مرد کے زنا کی ذمہ داری بھی عورت پر عائد کر دی جاتی ہے کہ اسی نے مرد کو ورغلایا ورنہ ہمارے مرد تو متقی حاجی نمازی ہیں۔ وہ تو کچھ برا کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے تو میں خلیل الرحمٰن قمر کو پسند نہیں کرتی لیکن یہاں ان ہی کے ایک ڈرامے کا مکالمہ یاد آتا ہے، ”عورتوں میں ایک بڑی خرابی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھٹیا مردوں کے گناہ دوسری عورتوں کے سر تھوپ دیتی ہیں“ ۔ عظمیٰ خان کے معاملے میں صد فیصد ایسا ہی ہوا ہے۔ کوئی بھی عورت ہو، اپنے گھر میں دوسری عورت کی نقب زنی دیکھ کر جلاد بن کر اسے مارنے چل پڑتی ہے۔ اپنے مرد کو پٹہ ڈالا نہیں جاتا اور چلی ہے دوسری عورت کو تیل یا شراب چھڑک کر مارنے۔ ایسی ہی اگر آپ تیس مار خان ہیں تو شوہر کو نتھ ڈال کر رکھتیں۔

اس واقعے کو ڈرامہ میرے پاس تم ہو سے ملایا جا رہا ہے۔ ”ماہم نے جو طمانچہ مہوش کو مارا، وہی اپنے بدکار شوہر شہوار کے چہرے پر مارتی۔“ لیکن جناب، ہمارے ہاں غیرت شرم کی تربیت، اور بے حیائی کرنے والے مرد کو مزہ چکھانے کی جراؑت عورت کو دی ہی کب جاتی ہے۔ جس طرح مرد بدکاری کے شبہے میں بیٹی، بہن، ماں، بیوی، یا کسی رشتہ دار خاتون کو فخر سے قتل کر دیتے ہیں، ایسی غیرت کا نصف حصہ بھی عورت کو نہیں سکھایا جاتا۔ بلکہ الٹا مرد کی بدکاری کی پردہ پوشی اور اسے معاف کر دینے کو کہا جاتا ہے۔

”تم ہی میں کمزوری اور خامی ہو گی تبھی تو تمہارا شوہر غیر عورت کے پاس گیا“ ۔ گویا گھر برباد کرنے کی پوری ذمہ داری بیوی یا غیر عورت پر، مرد تو دودھ کے دھلے ہیں ناں؟ اور اگر وہی عورت آبروریزی، زیادتی، تشدد، طلاق جیسے مسائل کا شکار ہو جائے تو بھی اسی کی ذمہ داری۔ گویا مرد ہر طرح سے بری الذمہ اور پاک و صاف ہے۔

اپنے جیسی دوسری عورت کو تیل یا شراب چھڑک کر ڈرانے اور مسلح گماشتوں کے ساتھ گھر میں گھس کر زد و کوب کرنے کی بجائے بدکار شوہر کا دماغ ٹھکانے پر لگانے کا حوصلہ ہماری عورت میں کب آئے گا؟

جب دین میں بدکاری کی سزا مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے تو پھر صرف عورت کو کیوں رسوا و سنگسار کیا جائے؟ لوگوں کی لعن طعن اور گالیاں سنگسار ہونے کی اذیت سے کم تو نہیں۔ یہ صرف عورت کیوں برداشت کرے؟ مرد کو بھی کٹہرے میں لائیے جو یقیناً عورت سے بڑھ کر مجرم ہے اگر وہ شرعی اور قانونی رشتے کے ہوتے ہوئے کسی گناہ کا ارتکاب کرے۔

دو مرد، عورت کی وجہ سے لڑیں تو قصوروار عورت، دو عورتیں ایک دوسرے سے لڑیں تو بھی قصوروار عورت۔ البتہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کئی ٹویٹر صارفین نے یہ مطالبہ کیا کہ جب عثمان برابر کا شریک جرم ہے تو سزا صرف عظمیٰ خان کو کیوں ملے۔ یہی سوال میرا بھی ہے آپ سب سے کہ اگر گناہ مرد و عورت دونوں نے کیا ہے تو پھر مرد کو بھی برابر کی سزا ملے؟ جس بیوی نے شوہر کی سہیلی پر تیل یا شراب چھڑکے، وہی چھڑکنے کے لیے اسے اپنا شوہر کیوں دکھائی نا دیا؟ خس کم جہاں پاک! دوسری عورت کے لئے جلاد بن جانے والی اپنے شوہر کی لگامیں کھینچ کر رکھتی تو نہ عظمیٰ سے دوستی جیسا معاملہ عمل میں آتا، نہ ہی اسے گھر ٹوٹنے کا خوف ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments