پاکستان کے مسائل اور الشیخ ارشاد بھٹی صاحب کا سعودی ماڈل


27 مئی 2020 کو ایکسپریس نیوز چینل پر ایک پروگرام نشر کیا گیا۔ اس پروگرام کے میزبان جاوید چوہدری صاحب تھے اور دوسرے مہمانوں کے علاوہ ارشاد بھٹی صاحب کو بھی اس پروگرام میں اظہار خیال کے لئے بلایا گیا تھا۔ حسب دستور اور حسب توقع اس پروگرام میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی بد عنوانی پر اظہار خیال شروع ہوا۔ ملک کے تمام سیاست دانوں کو برا بھلا کہا گیا۔ اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں ملتی۔

لیکن اس کے بعد لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہونا تھا کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزر گیا حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں تو اب کیا نسخہ استعمال کیا جائے کہ حالات بہتر ہوں؟ وہاں پر موجود صحافیوں میں ارشاد بھٹی صاحب وہ مرد دانا تھے جن کے پاس ایسا مجرب نسخہ تھا جس کے استعمال سے پاکستان کو تمام بیماریوں سے شفا ہو سکتی تھی۔ ارشاد بھٹی صاحب نے ایک خاص جوش سے کہا :

” رحمدل معاشرہ ہے رحمدل عدالتیں ہیں۔ اس ملک میں کورونا زدہ جمہوریت ہے۔ جمہوریت تو ہے ہی کوئی نہیں۔ پتہ نہیں کیا چیز ہمارے سر پر مسلط ہے۔ جو کورونا زدہ آئین۔ ۔ ۔ یہ سعودی ماڈل چلنا چاہیے۔ ان کو الٹا لٹکائیں۔“

اس پر میزبان نے یاد دلانے کی کوشش کی کہ سعودی ماڈل کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں بادشاہت ہو۔ اس پر ارشاد بھٹی صاحب کا جلال اور بھڑک اٹھا اور انہوں نے فرمایا :

” نہیں چلتی۔ پھر چلا لیں ریاست۔ چل رہی ہے ریاست؟“

جاوید چوہدری صاحب ابھی بھی اس کشتے کو ہضم نہیں کر پارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیا ہوگا بادشاہ ہوگا، خلیفہ ہوگا۔ ارشاد بھٹی صاحب بھی تیاری کر کے آئے تھے انہوں نے کہا

”چھ مہینے کے لئے ریسٹ دیں۔ تھک گئی ہے یہ جمہوریت۔ یہ آئین تھک گیا ہے۔ یہ قانون تھک گیا ہے۔ یہ عدالتیں تھک گئی ہیں۔ یہ معاشرہ تھک گیا ہے۔“

اس پر جاوید چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ ایک شرعی مارشل لاء لگا دیا جائے۔ آخر میں بلی ارشاد بھٹی صاحب کے تھیلے سے باہر آ گئی۔ انہوں نے کہا:

” میں کہہ رہا ہوں کچھ بھی لگا دیں۔ اگر نکالنا ہے ورنہ۔ ۔ ۔“

اس پر حامد میر صاحب کو یاد کرانا پڑا کہ پوری قوم سعودی نظام حکومت کا تجربہ جنرل ضیاء صاحب کے جامع البرکات قسم کے دور میں گیارہ سال تک بھگت چکی ہے۔

پہلے ہم یہ جائزہ لے لیں کہ سعودی ماڈل کیا چیز ہے؟ ظاہر ہے کہ سعودی عرب کے ماڈل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ایک خاندان کی مطلق العنان حکومت ہے۔ اب تک حکومت شاہ عبد العزیز کے ایک بیٹے سے دوسرے بیٹے کو منتقل ہوتی آئی ہے۔ اور اگر محمد بن سلیمان السعود سریر آرائے سلطنت ہو گئے تو سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ سے حکومت ان کے بیٹے کو منتقل ہوگی۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان پر سعودی ماڈل نافذ کرنے کی کیا صورت ہو گی۔ ظاہر ہے ارشاد بھٹی صاحب کی تجویز کو اگر قبول کیا جائے تو پاکستان میں ایک خاندان کی حکومت قائم ہونی چاہیے تا کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات کرانے کا جھگڑا بھی ختم ہو۔ ارشاد بھٹی صاحب نے یہ رہنمائی تو فرمائی ہی نہیں کہ وہ کون سا خاندان ہوگا جو پاکستان کے تخت پر بیٹھ کر ہم جیسی رعایا پر حکومت کرے گا۔

کیا شریف خاندان؟ کیا بھٹو خاندان؟ کیا عمران خان صاحب اپنے بیٹوں کو پاکستان لا کر اپنی موروثی بادشاہت کا اعلان کریں گے۔ ذرا ٹھہریں! شاید یہ ان کے ذہن میں کسی اور خاندان کا نام تھا لیکن بتاتے بتاتے شرما گئے۔ اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا پہلا بادشاہ کسی عرب ملک سے درآمد کیا جائے۔ اب تک تو یہ صحافی حضرات اس بات کا واویلا کرتے رہے ہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست چل رہی ہے اور اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے یہ تجویز پیش کی جا رہی ہے کہ ملک میں سعودی طرز پر بادشاہت قائم کردی جائے۔

شاید ارشاد بھٹی صاحب کو علم نہ ہو وہ پہلے پاکستانی نہیں ہیں جنہوں نے یہ خوبصورت تجویز دی ہے۔ بھٹو صاحب نے لکھا ہے کہ ایسی ہی سنجیدہ تجویز پیر علی محمد راشدی نے بھی ایوب خان صاحب کو دی تھی کہ وہ از راہ شفقت پاکستان میں اپنی موروثی بادشاہت کا اعلان کر کے پاکستان کے پہلے بادشاہ بن جائیں۔ اور ”ظل سبحانی“ تجویز کو پڑھ کر سنجیدہ بھی ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے اس تجویز پر نواب آف کا لاباغ اور بھٹو صاحب پر مشتمل کمیٹی قائم کردی تھی۔ دونوں نے ایک ہفتہ کے بعد یہ رپورٹ دی کہ ایوب خان صاحب اس تجویز کو بھول جائیں۔ ایوب خان صاحب نے یہ رائے مان تو لی لیکن اس کے ساتھ یہ تبصرہ بھی کیا کہ یہ تجویز مکمل طور پر خلاف عقل نہیں تھی۔

لیکن مجھے علم ہے کہ اس تجویز کی تائید میں ارشاد بھٹی صاحب کے پاس دلائل کا ایک خزانہ ہو گا۔ اور وہ آسانی سے اپنی رائے تبدیل نہیں کریں گے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ وہ پاکستان میں سعودی ماڈل نافذ کرنے سے قبل ایک تجربہ کریں۔ جس طرح وہ پاکستان میں بیٹھ کر کسی شیر کی طرح پاکستان کی حکومت پر دہاڑ رہے تھے۔ وہ ٹکٹ کٹا کر سعودی عرب جائیں اور وہاں ٹی وی پر نہ سہی، کسی چوک میں کھڑے ہو کر وہاں کی حکومت کے خلاف کچھ دیر بول کر دکھا دیں۔

مناسب ہو گا کہ اس تجربے سے قبل وہ اپنے بیوی بچوں سے آخری بار مل جائیں۔ ارشاد بھٹی صاحب کو جمال خاشقجی صاحب کا واقعہ تو یاد ہو گا۔ سنا ہے بعد از قتل ان کی باقیات کو بڑے احترام سے چند تھیلوں میں جنگل میں تدفین کے لئے منتقل کیا گیا تھا۔ لیکن اب ایسا بھی اندھیر نہیں کہ سب کچھ غلط ہی ہو۔ مثال کے طور پر چند روز قبل ہی ہم نے یہ خبر سنی کہ رحم کے جذبات کے تحت جمال خاشقجی صاحب کے قاتلوں کو معاف کر دیا گیا ہے۔ ہمیں نام نہاد مہذب ممالک میں اس قسم کے عفو اور درگزر کی مثالیں نہیں ملتیں۔

لیکن میں ارشاد بھٹی کی صاف گوئی کی داد دیتا ہوں۔ جب کئی دہائیاں قبل پاکستان پر یہ ”ماڈل“ نافذ کیا گیا تھا تو میں کم عمر لڑکا تھا۔ لیکن مجھے جنرل ضیاء صاحب کا پہلا روح پرور خطاب یاد ہے۔ انہوں نے نوے دن کے ”فیئر پلے“ کا وعدہ کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے منصفانہ انتخابات کراکے رخصت ہوجانا تھا۔ ان کے الفاظ واضح تھے لیکن کم عقل پاکستانیوں کو یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ انہوں نے یہ ہر گز نہیں فرمایا تھا کہ ”نوے دن“ کا آغاز آج سے ہوگا۔ خیر نوے دن پپلک جھپکتے گیارہ سال میں گزر گئے۔ اس مرتبہ ارشاد بھٹی صاحب نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ یہ ”نوے دن“ یعنی تین ماہ کی بات نہیں ہے۔ ایسی ڈھیٹ قوم کی اصلاح ”نوے دن“ میں نہیں ہو سکتی۔ اس بار چھ ماہ کا علاج تجویز کیا جا رہا ہے۔

چند روز قبل وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب نے بیان دیا تھا کہ پاکستان کی فرقہ وارانہ جماعتوں میں سے کوئی بھارت سے مدد لے رہا ہے، کوئی سعودی عرب سے اور کوئی ایران سے۔ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو کوئی تیار نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہیں انہوں نے کسی صحافی کا ذکر نہیں کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments