کیا ہماری فرصت کا کوئی اور مشغلہ نہیں ہو سکتا؟


گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی رپورٹ نظروں سے گزری جس میں درج تھا کہ کرونا کی وجہ سے تنہائی اور فراغت میسر آنے کی وجہ سے اس سال دنیا میں گیارہ کروڑ ساٹھ لاکھ بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔ اس کار خیر میں چین، بھارت اور انڈونیشیا کے بعد چوتھا نمبر پاکستان کا ہے۔ مجھے اس رپورٹ سے حیرت ہوئی کہ کیا ہم تنہائی اور فرصت میں صرف بچے ہی پیدا کر سکتے ہیں؟ حالانکہ دیکھا جائے تو دنیا کے نامور مصنفین نے قید اور تنہائی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر دنیا کا بہترین ادب تخلیق کیا۔

”ورڈز ورتھ“ نے کہا تھا کہ ”شاعری تنہائی میں بیٹھ کر گزشتہ یادوں کو اکٹھا کرنے کا نام ہے“ انسان اگر لکھنے لکھانے سے شغف رکھتا ہو، صاحب اسلوب ہو تو وہ اس تنہائی سے فائدہ اٹھا کر کوئی شاہکار تخلیق کر سکتا ہے۔ مارکو پولو نے جیل میں ہی اپنا شاہکار سفر نامہ لکھا لکھا تھا۔ آسکر وائلڈ کا مشہور ناول ”ڈی پروفنڈی“ قید کے دوران لکھا گیا۔ 1847 ء میں غالب پر جوئے کا اڈا چلانے کے الزام کے ضمن میں چھ ماہ جیل جانا پڑا اس دوران انھوں نے فارسی کے 84 یادگار اشعار تخلیق کیے۔

مولانا محمد علی جوہر نے اپنی سوانح عمری ”مائی لائف، اے فریگمنٹ“ جیل میں ہی لکھی تھی۔ چودھری افضل کی تصنیف ”زندگی“ بھی جیل کی یادگار ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا مجموعہ کلام ”حبسیات“ بھی جیل میں تخلیق ہوا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی ”غبار خاطر“ بھی ہمیں جیل کی یاد دلاتی ہے۔ حسرت موہانی کی بہت سی غزلوں میں بھر پور تغزل کے ساتھ چکی کی مشقت کی جھلک نمایاں ہے۔ فیض صاحب کے شعری مجموعے ”دشت صبا“ اور ”زنداں نامہ“ بھی اسیری کی یادیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ جالب کا بہت سے کلام اپنی جھولی میں جیل کی سختیوں کی یادیں سمیٹے ہوئے ہے۔

انتہائی نا مساعد حالات اور ذہنی اذیت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بے مثال حافظے کی بنیاد پر موت کی کال کوٹھری میں اپنی زندگی کی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ لکھ کر ضیاء الحق کے بے بنیاد پروپیگنڈے کا مدلل جواب دیا تھا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ کاغذ کی عدم دستیابی کے باعث بھٹو صاحب ٹائلٹ رول کا پیپر اپنی ٹانگ پر رکھ کر لکھتے تھے اور مسودہ اپنے وکیل یحییٰ بختیار کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔

شہید کشمیر مقبول بٹ نے ”شعور فردا“ بھی جیل میں تصنیف کی تھی۔ جن دنوں مولانا مودودی صاحب تفہیم القرآن لکھ رہے تھے، اس دوران وہ زیادہ تر جیل میں ہی ر ہے، جب گھر آتے بچے شور شرابا کرتے تو انہیں کہتے ”دیکھو تم مجھے تفہیم القرآن نہیں لکھنے دے رہے ہو اب لگتا ہے میں جیل جانے والا ہوں کیونکہ جب بھی میں شور اور مصروفیات کی وجہ سے تفہیم نہیں لکھ پاتا تو اللہ تعالیٰ مجھے کسی بہانے جیل میں بیٹھا دیتا ہے اور میں وہاں اطمینان سے لکھتا رہتا ہوں“ اسی وجہ سے جب ہم سورہ یوسف کی تفہیم پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا یہ اس لیے ہے کہ انہیں جیل میں مکمل یکسوئی میسر تھی۔

امریکی ناول نگار ہاورڈ فاسٹ نے اپنا عظیم ناول ”سپارٹاکس“ بھی قید خانے میں لکھا تھا ہاورڈ فاسٹ 1944 میں کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بنا تو اس وقت امریکہ میں کمیونزم کی سخت مخالفت ہو رہی تھی کمیونسٹوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ہارورڈ اس ضمن میں گرفتار ہوا، اس نے قید کے دوران 1951 ءمیں یہ ناول مکمل کیا لیکن کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے کوئی پبلشر اسے چھاپنے کے لیے تیار نہیں تھا ہارورڈ نے یہ ناول خود چھپوایا جب یہ ناول منظر عام پر آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کی پچاس ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔

اس ناول کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس میں ہارورڈ نے 71 قبل مسیح روم کی کہانی بیان کی ہے یہ کہانی ایک پیدائشی غلام کے گرد گھومتی ہے جس کو صرف قتل کرنے اور لوگوں کو مارنے کی تربیت دی گئی تھی جب اس کے اندر کا انسان بیدار ہوا تو اس نے اپنے آقاؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ ایک منظم حکمت عملی کے تحت تمام غلام ”گلیڈئیٹرز“ کو پیغام پہنچایا اور انھوں نے ایک وقت میں بغاوت کر کے سلطنت روم کو ہلا کر رکھ دیا مصنف نے ہمیں بتایا ہے کہ دنیا میں زندہ انسان ان اقدار کو پیش کرتا ہے جن کا وہ ازل سے خواب دیکھ رہا ہے اور یہ اقدار آزادی، محبت، امید اور اچھی مسرت بخش زندگی ہے لیکن غلامی ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم فرصت کے دنوں کا مثبت استعمال کر کے دنیا میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تنہائی ہمیں غور و فکر اور خود احتسابی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments