جذبات کی آخری صدی


آج کل بہت سے دانشور اور قلمکار کرونا کے بعد ابھرنے والی دنیا کے بارے میں مختلف پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ خار زار سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک نئے ورلڈ آرڈر کے بارے بات چیت کر رہے ہیں جس میں طاقت کا منبع تبدیل ہونے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ ماہرین معیشت معاشی زبوں حالی کی بری خبریں سنا رہے ہیں جبکہ انسانی ثقافت اور معاشرے پر نظر رکھنے والے لوگ بدلتے ہوئے انسانی تعلقات اور معاشرتی برتاؤ کی بات کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر کرونا کی وبا کے بعد معاشرتی زندگی یکسر بدل گئی۔ عوامی اجتماعات کی جگہیں مثلاً پا رک، مساجد، کمیونٹی سنٹرز، بازار، مارکیٹیں، کلب، جوئے خانے، ہوٹل، کھیل کے میدان پبلک ٹرانسپورٹ، دفاتر وغیرہ سب مکمل یا جزوی طور پر بند ہو گئے۔ لوگوں کے ہاتھ ملانے سے گریز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ خاندانی میل ملاپ کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے اور سماجی فاصلہ قربت کا نیا معیار قرار پایا ہے۔ وبا سے بچنے کو اس طریقے نے معاشرتی برتاؤ کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ یہ سارا منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔

اب انسان مستقبل میں ایسی دنیا کی تخلیق کے بارے میں ضرور سوچ رہا ہو گا جس میں انسانوں کا میل ملاپ بہت کم ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے انسان کی بجائے مشین سے کام لیا جائے۔ چند دن پہلے ٹویٹر نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ مستقل طور پر اپنے ملازمین سے گھر پر بیٹھ کے کام لیں گے۔ لیکن کیا خبر کہ مستقبل میں انسان کو ایسا چیلنج درپیش آ جائے کہ اس کا حل ہی انسانی میل ملاپ قرار پائے۔ یووال نوح حراری کہتا ہے کہ مستقبل میں رونما ہونے والے تاریخی حوادث کے بارے ہم محض قیاس آرائی کر سکتے ہیں لیکن کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے۔

انسانی تہذیب نئے آ نے وا لے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے نت نئے تجربات اور علوم کو بروئے کار لاتی رہی ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے کا ارتقائی سفر جاری ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ نئے آنے والے مسائل دراصل انسان کو جھنجھوڑتے ہیں کہ ابھی اس کے علم و ہنر، جستجو اور لگن میں ابھی کسر باقی رہ گئی ہے۔ انسان اپنے ہنر میں اس مقام پر نہیں پہنچا کہ آنے والے مسائل کا پیشگی ادراک کر سکے لیکن چونکہ اقبال امید کا شاعر ہے اس لیے اس نے قنوطیت کو اپنے قریب بھٹکنے نہیں دیا۔ وہ انسان کی صلاحیتوں کا بھی معترف رہا ہے۔ اسی لیے برگساں کا۔ ”نظریۂ تخلیقی ارتقاء“ اقبال کے فلسفی افکار کا اہم جزو رہا ہے۔

انیسویں صدی میں یورپ میں پے در پے معاشرتی انقلاب آئے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کا آغاز ہوا۔ صنعت و حرفت میں ترقی ہوئی۔ اس کے ساتھ یورپی معاشرہ بھی تیزی کے ساتھ بدلنے لگا۔ نو آبادیاتی نظام اور ذرائع آمد و رفت میں ترقی کی بدولت اس کے اثرات دنیا کے دو سرے حصوں پر بھی پڑنے لگے۔ بعد ازاں انٹرنیٹ اور دوسرے ذراع ابلاغ میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ سائنسی علم کی بدولت انسان نے زندگی کے مادی اور غیر مادی پہلوؤں کو کھنگالنا شروع کیا۔

انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ٹیکنالوجی نے جگہ بنانا شروع کی۔ گزرتے وقت کے ساتھ مشینیں ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن گئیں۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رکی۔ ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو بیچنے کے لیے انسانی رویوں پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے۔ شروع میں اشتہار بازی سے کام لیا گیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انٹرنیٹ اور دوسری نگران ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف لوگوں کے ذہنی میلانات اور جذبات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کی گئی بلکہ انسانی سوچ کو قابو میں رکھنے کے لیے اور اس کی حرکات و سکنات کو مانیٹر کرنے کے لیے مختلف جاسوس ٹیکنالوجی میدان عمل میں لائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف آج کے ا نسان کی نجی زندگی داؤ پر لگی بلکہ وہ ایک ایسے چکر میں پھنس چکا ہے جس میں اس کے ذاتی سوچنے کی صلاحیت بھی کسی حد تک سلب ہو گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر غیر ضروری معلومات کی بھرمار نے انسانی ذہن کی خجالت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں برپا ہونے والے انقلاب کی بدولت ہمیں زند گی کے ہر میدان میں جذبات اور احساسات سے عاری روبوٹ نظر آئیں گے۔ بیسویں صدی کی مادیت پرستی پہلے سے انسان کو اس کے لطیف جذبات سے محروم کر چکی ہے۔

انسانی معاشرے کے تار و پو میں نمودار ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے اہل علم نے بہت عرصہ پہلے آنے والے معاشرتی حالات کے بارے مختلف نظریات پیش کیے جو آج کے حالات کی کسی حد تک عکاسی کرتے ہیں۔ جرمن فلاسفر میکس ویبر نے تقریباً سو سال قبل معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو عقلی عمل کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کے نزدیک اب انسانی معاشرے میں احساسات و جذبات کا عمل دخل کم ہوتا جا رہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہوگا۔ انسانی معاشرے پر مادیت پرستی اور ٹیکنالوجی کے کنٹرول نے انسانی شعور اور زندگی کے موضوعی مفہوم کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔

اسی طرح جرمنی ہی کے ماہر عمرانیات جارج سمل نے انسانی معاشرے پر کلی اور فرد واحد پر انفرادی طور پر مادی ثقافت خاص طور پر ٹیکنالوجی، سرمایہ اور مشینوں کے غلبے کو ”عالمی ثقافتی سانحہ“ قرار دیا جس کے نتیجے میں لطیف انسانی جذبات و احساسات، انسانی اقدار، مذہب، فنون لطیفہ۔ اور معاشرتی روایات بے معنی ہوتی جا رہی ہیں۔ سمل کہتا ہے کہ اس معاشرتی جدیدیت کے نتیجے میں اکتائے ہوئے اور بیزار انسانی رویوں کو جنم دیا ہے۔

میکس ویبر کے نزدیک بدلتے ہوئے معاشرے میں انسان عقلیت کے ایسے ”آہنی پنجرے“ میں قید ہو چکا ہے جس سے چھٹکارا پانا نا ممکن ہے اور بیسویں صدی انسانی جذبات کی آخری صدی ہے۔ آنے والے دور میں انسان کے احساسات کو جگانے کے لیے سائنس کو کچھ نیا کرنا پڑے گا۔ اس لیے سماجی اور انسانی علوم آج کل انسانی ذہانت جانچنے کے ساتھ ساتھ جذباتی ذہانت کو بھی انسانی صلاحیت کا اہم پیمانہ قرار دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments