شہر معجزات (ایکسٹینشن)۔


یوں تو وطن عزیز کے بارے میں جس کا جو جی چاہتا ہے کہہ اور لکھ دیتا ہے، ہم کسی کی ذمہ داری لے سکتے ہیں نہ زبان روک سکتے ہیں جو یہ کر سکتے ہیں بہرحال سوچ کو پھر بھی نہیں روک سکتے ہاں کسی وقت کے لیے سوچ کو کوئی اور زاویہ دے کر توجہ ادھر ادھر کی جا سکتی ہے۔ جب میں وطن عزیز میں کوئی خلاف عقل واقعہ رونما ہوتا دیکھتا ہوں تو بے دھڑک اسے ”شہر معجزات“ کہہ دیتا ہوں۔ اب چونکہ مملکت پاکستان میں روز روز ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ہم اسے معجزے والا نہیں معجزوں والا شہر گردانتے ہیں۔

اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں شور ہوا، پاکستانی بری فوج کے سپہ سالار کو ایکسٹینشن ملے گی یا نہیں ملے گی۔ حالانکہ ہمارے وزیر اعظم کئی ماہ قبل یہ کہہ چکے تھے کہ انہوں نے جنرل قمر باجوہ کو ٹینشن معاف کیجیے گا ایکسٹینشن دے دی ہے، اس کا فیصلہ انہوں نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی کر لیا تھا کہ آئندہ بھی کمان انہی کے پاس رہے گی۔

گومگو کی کیفیت اس وقت بنی جب جنرل صاحب کی مدت ملازمت (سابقہ) ختم ہونے میں دو چار دن تھے اور عدالت عظمیٰ میں اس حوالے سے ایک درخواست کی سماعت ہوئی، درخواست گزار جسے وسعت اللہ خان اینڈ کمپنی نے سیریل پٹیشنر کا نام دیا تھا، عین سماعت کے روز غائب ہو گئے اور ہاتھ سے لکھی ایک درخواست دی کہ میں یہ آئینی درخواست واپس لینا چاہتا ہوں، شہر معجزات میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں خیر، اس وقت کے چیف جسٹس نے کہا درخواست گزار موجود نہیں، نئی درخواست کا پتا نہیں کس نے دی، ہم سماعت کریں گے اور آرٹیکل 184 / 3 (جو از خود نوٹس سے متعلق ہے ) کا اشارہ بھی دے دیا۔

خبر بن گئی کہ چیف جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے اپنے دور منصفی کے آخری ماہ میں اپنے دور کا پہلا ازخود نوٹس لے لیا، اگلے روز انہوں نے وضاحت کی کہ از خود نوٹس نہیں لیا، اسی روز غائب شدہ درخواست گزار بھی واپس آ گئے ان کے اور چیف جسٹس کے مابین ایک دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ ویسے تو شہر معجزات کی عدالتیں اس قدر آزاد ہیں کہ درخواست گزار کی عدالت میں موجودگی اور دوران سماعت ہی درخواست کو از خود نوٹس میں تبدیل کر لیتی ہیں، یہاں درخواست گزار کی عدم موجودگی اور ایک نامعلوم درخواست واپسی کے باوجود از خود نوٹس نہ لیا تو ضرور کوئی مصلحت ہوگی واللہ العالم۔

عدالت نے سماعت کے پہلے ہی روز ایکسٹینشن سے متعلق نوٹیفیکیشن معطل کر دیا، دوران سماعت کئی پیچیدگیاں سامنے آئیں جیسا کہ آرمی چیف کا تقرر صدر کرتا ہے وزیر اعظم کے مشورہ پر، توسیع کا ذکر نہ ہونا، ٹھوس وجوہات نہ ہونا وغیرہ۔ مگر چونکہ نیا پاکستان ہے تو انداز بھی نیا ہونا چاہیے تھا۔

وزیر اعظم نے دو تین سطروں کا ایک توسیعی نوٹیفیکیشن مدت مکمل ہونے سے قریباً تین ماہ قبل ہی جاری کر دیا، بعد میں معلوم ہوا کہ اس نوٹیفیکیشن کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ تقرر صدر مملکت کو کرنا ہے، لہٰذا صدر کو سمری بھیجی گئی اور انہوں نے منظوری دے دی، پھر معلوم ہوا کہ کابینہ سے تو منظوری لی ہی نہیں، آئندہ کابینہ اجلاس میں اس وقت کے 25 وفاقی وزراء میں سے 11 نے منظوری دے دی، کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو کب وہ سمری بھیجی گئی اور اس کا کیا ہوا یہ معلوم نہ ہوسکا۔

مثبت رپورٹنگ والے میڈیا پر صدر مملکت کے مختلف میڈیا چینلز پر دیے گئے اختلافی بیانات بھی چل گئے جس میں ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ جب توسیع والی سمری آئے گی دستخط کر دوں گا، دوسرے بیان میں کہنے لگے میں بھول گیا تھا وہ سمری تو میں بہت پہلے ہی منظور کرچکا ہوں۔ بھول چوک بھی انسان سے ہی ہوتی ہے خواہ وہ صدر مملکت جیسا مصروف ترین اور اہم ترین شخص ہی کیوں نا ہو۔

نوٹیفیکیشن معطلی کے بعد وفاقی کابینہ کی طرف سے قوانین میں چند ترامیم کر کے نئی سمری تیار و منظور کی گئی، وزیر تعلیم، وزیر ریلوے اور احتساب کمیشن کے سربراہ کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی، جس میں قانونی خلا اور اس کوپر کرنے سے متعلق اقدامات، وضاحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر قانون مستعفیٰ ہوچکے اور بطور وکیل جنرل قمر باجوہ عدالت کے روبرو پیش ہوں گے۔ یہ بھی دلچسپ بات تھی کہ ”آئین شکن“ ، ”غدار وطن“ ، ”محب جمہوریت و وطن“ ان سب کا وکیل ایک ہی نکلا۔ عدالت نے یہ نوٹیفیکیشن بھی رد کر دیا اب کی بار ایسی قانونی پیچیدگیاں سامنے آئیں جو ”موضوع سخن“ کی براہ راست دلالت کرتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کا ذکر ہے، مدت و توسیع کا نہیں، آرمی ایکٹ کے رولز بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔

1947 ء سے 73 ءتک 26 برس میں 6 کمانڈر ان چیف، بعد کے 46 برس میں 10 چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہوئے، مدت کا تعین حکومتیں کرتی رہیں اور توسیع کا تعین عموماً یہ خود کرتے رہے۔ پہلے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکا خان 4 برس کی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے بعد ازاں 3 برس کی مدت کا طریقہ رائج رہا اور فقط تین آرمی چیف ہی اس مدت کے بعد ریٹائر ہوئے جن کے نام جنرل اسلم بیگ مرزا، جنرل عبدالوحید کاکڑ اور جنرل راحیل شریف ہیں۔ 72 سالہ ملکی تاریخ میں 16 جرنیلوں کے پاس آرمی کی کمان رہی اور ہمیں یہ پتا ہی نہ چلا کہ مدت اور توسیع سے متعلق کوئی واضح قانون ہی نہیں، ایسا معجزہ شہر معجزات میں ہی ہو سکتا ہے۔

نئے پاکستان میں پہلے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے جاری ہونے والے دوسرے حکم میں یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے صدر کو مشورہ ”نئی تقرری“ کا دیا گیا اور صدر مملکت نے منظوری ”توسیع“ کی دے دی۔ حکومت کی جانب سے اس کے بعد ایک اور حکم جاری ہوا جو پھر عدالت نے رد کر دیا اور اسی روز عدالت نے ملک کو گومگو کی کیفیت سے یوں نکالا کہ آرمی چیف کو 6 ماہ کی توسیع اس قانون کے تحت دے دی جو ان ہی 6 ماہ میں بنایا جائے گا۔

اس طرح تین دن میں تین نوٹیفیکیشن جاری و مسترد ہونے کا منفرد ریکارڈ بھی تبدیلی سرکار نے اپنے نام کر لیا اور دیگر معاملات کی طرح آرمی چیف کی تقرری بھی یادگار بنا دی۔ وہی عدالتی فیصلہ جس پر وزیر اعظم نے چیف جسٹس کا شکریہ اور ملک دشمنوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اس کے خلاف اپیل بھی دائر کردی ساتھ ساتھ حکومت نے ملکی تاریخ کی تیز ترین قانون سازی کر کے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بلا تاخیر و بحث پارلیمان سے منظور بھی کروا لیا۔

یہ بھی دلچسپ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے 3 ماہ میں قانون سازی بارے رائے مانگی تو انہوں نے مدت 6 ماہ کرنے کی استدعا کی اب 2 ماہ میں ہی قانون سازی ہوچکی بلکہ حزب اقتدار و اختلاف کی بیشتر جماعتوں میں معجزانہ اتفاق رائے بھی ہوگیا۔ اس حمایت پر جماعتوں کو اندرونی و بیرونی جس لعن طعن کا سامنا ہے فی الحال موضوع نہیں۔

کچھ باتیں اب تک سمجھ نہیں آئیں عدالتی چھ ماہ کی توسیع (تفصیلی فیصلے کے مطابق ) 28 مئی 2020 ء تک ہے، نیا نوٹیفیکیشن کب جاری ہوا؟ جھوٹے میڈیا پر اب تک کوئی خبر نہیں آئی، خان حکومت میں تقرری اور نوٹیفیکیشن کی تاریخ کوئی حوصلہ افزا نہیں یہاں تک کہ میڈیا پر نوٹیفیکیشن باقاعدہ طور پر جاری کر دیا جائے۔ کیا ہمارے ہینڈسم خان صاحب کی ”نگاہ انتخاب“ اب بھی ویسی ہی ہے جیسی چھ ماہ قبل تھی، وہ اس معاملے پر نومبر 2016 ء والی نواز شریف کی ”نگاہ انتخاب“ سے ہی کیوں کام لے رہے ہیں اور اس انتخاب کو اپنے قول و فعل سے بہترین بھی قرار دے رہے ہیں۔ دیکھنا ہے ایٹم بم کی بائیسویں سالگرہ یادگار بنتی ہے یا نہیں۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments