جنرل فیض علی چشتی نے طارق صدیقی کو کیسے بحال کیا؟


ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب تا دم مرگ ڈاکٹر طارق صدیقی کے مداح رہے۔ کہا کرتے تھے کہ کمال کا ڈکشن اور لاجک ہوتی تھی۔ انگیریزی مضمون کے پیپر میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون اتنا اچھا تھا کہ انہیں پورے ایک سو پچاس نمبر ملے۔

 ڈاکٹر طارق کے والد بھی کانپور میں انکم ٹیکس کمشنر تھے۔ USAID  افسروں کو پی ایچ ڈی کی دو عدد اسکالرشپ دیا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اسکالر شپ تین کرنی پڑیں۔ دوران تربیت جب وہ آکسفورڈ میں تھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی مرتبہ اسرائیل بھی گئے۔ برطانیہ میں زیر تعلیم ایک یوگوسلاوین جنرل کی بیٹی ان پر مرمٹی تھی، شادی بھی ہوئی مگر جمائما خان کی طرح اس بے چاری کو پاکستان کا موسم پسند نہ آیا۔

ہم نے پوچھا اصل قصہ وہی تھا جو اسکپر نے ان کے نوکری سے فارغ ہونے کا بیان کیا تھا۔ وہ کہنے لگے دو باتوں پر دھیان رکھو۔ یہ اردو اسپیکنگ سی ایس پی افسر قابل تو یقینا بہت تھے مگر ایمانداری اور اصول پرستی کی وجہ سے ان میں ایک تکبر کا اظہار (Haughtiness) بھی بہت ہوتا تھا۔ Isolationist  بھی بہت تھے۔ بھٹو اول آخر سندھی تھا۔ مہاجروں سے نفرت کوٹ کوٹ کر دل میں سمائی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کی قابلیت اور سندھ میں ان کی معاشی خوش حالی اس کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتی تھی۔ ممکن ہے اس کا رویہ مسرور حسن خان، ہاشم رضا، اکبر عادل، عباس خلیلی، جعفری برداران کی وجہ سے بھی ہو جو اسے برملا فیک، مکار اور بے اصولا سمجھتے تھے۔ سندھ میں بھٹو کا واسطہ ان ظالموں سے پڑتا ہوگا تو اسے اپنے وڈیرے پن میں تحقیر محسوس ہوتی ہو گی۔

zafar altaf

شعیب سلطان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طارق صدیقی کو اصل نقصان سی ایس پی دشمن اور مسعود محمود کے رشتہ دار اکاﺅنٹس گروپ کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد نے پہنچایا۔ وہ بہت کڑوا انسان تھا۔ ہوا یوں تھا کہ پنجاب میں ڈائریکٹرز تعلیمات کی ایک میٹنگ میں ایک ڈائریکٹر صاحب نے ضد پکڑ لی کہ وزیراعظم کے احکامات کچھ اور ہیں اور سیکرٹری صاحب کی ہدایات کچھ مختلف۔ جس پر ڈاکٹر طارق صدیقی نے کہا ”صاحب کو گولی مارو“۔ کچھ کیس انسانی ہمدردری کی بنیاد پر دیکھنے ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور محکمے میں ملازم میاں بیوی کی ایک ہی شہر میں پوسٹنگ ہونی چاہیے۔ یہ بات نمک مرچ لگا کر بیان کی گئی اور وقار احمد نے انہیں نوکری سے فارغ کردیا۔

کچھ دنوں بعد دونوں ساتھیوں شیعب سلطان اور ظفر اقبال کی بھی چھٹی ہوگئی۔ شعیب سلطان رورل اکیڈیمی پشاور اور ظفر اقبال روٹی پلانٹ کے افسر تھے۔ ان دنوں ایسٹبلشمنٹ ڈویژن کا لال کارپیٹ والا سیکرٹریٹ پنڈی میں ہوتا تھا۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے ماتحت تھے۔ اعجاز نائیک سیکرٹری کیبنیٹ کمال کے افسر تھے۔ دوسرے بھائی نیاز اے نائیک پاکستان کے سیکرٹری خارجہ تھے۔ دونوں غیر شادی شدہ اور پکے ایماندار کلاسیکل آئی سی ایس افسر۔

اعجاز نائیک صاحب نے ظفر اقبال اور شعیب سلطان کو تو نوکری میں بحال کردیا کہ آئی ایس آئی نے بھی جنرل فیض علی چشتی کو ان کے بارے میں اچھی رپورٹ دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس جنرل جیلانی جو بعد میں پنجاب کے گورنر بنے اور دنیا میں سب سے برا کام نواز شریف کو سیاست میں لانے کا کیا۔ ان کے دل میں ان تینوں افسروں کا بہت احترام تھا۔ ظفر اقبال اور شیعب سلطان تو بحال ہوگئے مگر چونکہ ڈاکٹر طارق صدیقی نے بحالی کی کوئی درخواست نہ دی تھی، لہذا یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا۔ وہ کہتے تھے سرکاری طور پر میرا جواب موجود ہے۔ جب ایک پوری حکومت ہی اپنے ہر عمل میں غلط تھی تو میرے معاملے میں بھی اسے غلط مانا جائے۔ میں کوئی درخواست نہیں دوں گا۔ درخواست کی ضد نور الحسن جعفری کی تھی جنہیں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن لگایا گیا تھا۔ اکاﺅنٹس گروپ کے بزدل ترین اور بہت ہی فضول افسر تھے۔ اپنا نام N.H. Jaffery لکھتے تھے مگر ان کی تنگ دلی اور فائلوں کو خوار کرنے کی وجہ سے افسروں کا ٹولہ انہیں Never Helpful  Never Happy Never Healthy جعفری پکارتا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے معاملات اب براہ راست جنرل چشتی دیکھا کرتے تھے اور اعجاز نائیک سے بنتی نہ تھی۔ مشکل آن پڑی کہ معاملہ کیسے حل ہو بالآخر شعیب سلطان، بریگیڈئر فضل الرحیم، بریگیڈئر ریاض، طارق سعید ہارون سب کے سب ڈاکٹر ظفر الطاف کی رفاقت میں جنرل چشتی سے ملے۔ انہیں سمجھایا کہ جنرل تو پاکستان میں نائب اللہ فی الارض ہیں۔ اتنا ایماندار، بے باک، قابل خاندانی افسر وہ بھی گریڈ بیس کا۔ اس کیس میں سو موٹو کا پاور استعمال کریں۔ جس طرح چینی کھانوں کی جان اجینو موٹو ہے ایسی ہی جنرلوں کی شان ان کی کاندھے پر ستاروں تلواروں کی صورت میں آویزاں طاقت ہے۔ اسی وقت فائل منگا کر جنرل صاحب نے انہیں بحال کردیا جس پر ڈاکٹر ظفر الطاف نے کہا ہیرے کی قدر جوہری اور سویلین افسر کی قدر حاضر سروس جنرل جانتا  ہے۔ طارق صدیقی صاحب مختلف عہدوں پر دیانت اور قابلیت کے جوہر بکھیرتے ہوئے بالآخر قائد اعظم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments