پاکستان سے انڈیا پہنچنے والی ٹڈیاں وہاں کیا غضب ڈھا رہی ہیں؟


ٹڈی دل

پاکستان سے آنے والی ریگستانی ٹڈیوں کےبڑے بڑے غول مغربی اور وسطی انڈیا میں فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں یہ ٹڈیوں کا سب سے بڑا حملہ ہے۔

ڈرون، ٹریکٹروں اور گاڑیوں کی مدد سے ان ٹڈیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور کیڑے مار دواؤں کے چھڑکاؤ سے انھیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ان ٹڈیوں نے اب تک 50 ہزار ہیکٹر زرعی اراضی کو تباہ کر دیا ہے۔

ٹڈی دل

سرکاری تنظیم ’لوکسٹ وارننگ انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے ایل گجر نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’ریاست راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں آٹھ سے دس ٹڈی جھنڈ سرگرم ہیں۔‘

اور دونوں ریاستوں میں موسمی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے کسان تباہ ہو گئے ہیں۔

ٹڈیوں کا یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک پہلے ہی کورونا وائرس کے وبا کی لپیٹ میں ہے۔

ٹڈیوں کا حملہ

راجستھان میں داخل ہونے سے پہلے یہ ٹڈی دل ہمسایہ ملک پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا چکا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر گجر کے مطابق ’انڈیا کی کچھ دوسری ریاستوں میں بھی چھوٹے چھوٹے ٹڈی دل کے جھنڈ پھیلے ہوئے ہیں۔‘

ٹڈی دل

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک اور زراعت کے مطابق 40 لاکھ ٹڈیوں کا ایک جھنڈ 35 ہزار افراد کی خوراک تباہ کر سکتا ہے۔

ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کے رہائشی علاقوں میں بھی ٹڈی دل دیکھے گئے ہیں۔ ٹڈیوں کو بھگانے کے لیے لوگوں نے مختلف طریقے استعمال کیے۔ کچھ نے سپرٹ، کیڑے مار ادویات اور کچھ نے برتن بجا کر ٹڈیوں کو بھگانے کی کوشش کی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جون میں یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ سال کے اوائل میں ہونے والی بارشوں اور طوفانوں نے ٹڈیوں کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کیا تھا۔

سنہ 1993 سے اب تک انڈیا میں کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر ٹڈیوں کا حملہ نہیں دیکھا گیا۔

پاکستان کی سرحد سے ملحقہ ریاست راجستھان میں ہر سال ٹڈیوں سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن اس بار یہ ٹڈی دل راجستھان کی سرحد عبور کر کے اتر پردیش اور مدھیہ پردیش تک جا پہنچے ہیں، جو غیر معمولی بات ہے۔

لوکسٹ وارننگ سینٹر کا کہنا ہے کہ ہوا کی رفتار اور سمت کی وجہ سے ٹڈی دل جنوب مغرب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ٹڈی دل

ریگستانی ٹڈیاں وبا کیسے بنتی ہیں ؟

ریگستانی ٹڈی کی ایک قسم عام طور پر ویران علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ انڈے سے پیدا ہوتی ہے اور انڈے سے نکلنے پریہ ٹڈیوں میں بدل جاتی ہے۔

لیکن بعض اوقات ریگستانی ٹڈی ایک خطرناک شکل اختیار کرلیتی ہے۔

جب بہت ساری ریگستانی ٹڈیاں سبز گھاس پر جمع ہو جاتی ہیں تو ان کا رویہ غیر آباد مقامات پر رہنے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ مل کر ایک خوفناک شکل اختیار کر لیتے ہیں اور رنگ بدل کر بڑے گروپ بنا لیتے ہیں۔

ہوا میں اڑنے والی ان ٹڈیوں کے جھنڈ میں دس ارب تک ٹڈیاں تک ہو سکتی ہےجو سینکڑوں کلومیٹر کے رقبے میں پھیل سکتی ہیں۔

یہ ٹڈی دل ایک دن میں 200 کلومیٹر سفر کر سکتے ہیں۔ ایک ہی دن میں ٹڈیوں کا یہ جھنڈ اپنے کھانے اور افزائش کے لیے اتنے بڑے علاقے کی فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے کے مطابق اوسطً ایک ٹڈی دل ڈھائی ہزار افراد کے لیے مختص اناج کو تباہ کر سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ٹڈیوں کی تعداد میں اس طرح کا اضافہ سنہ 2003 اور سنہ 2005 کے درمیان بھی دیکھا گیا جس سے مغربی افریقہ کی فصلوں کو ڈھائی ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

لیکن 1930، 1940 اور 1950 کی دہائی میں بھی ٹڈیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

کچھ ٹڈی دل بہت خطرناک تھے اور بہت سے علاقوں میں پھیل گئے تھے اور ان کی تعداد کی وجہ سے ان کے حملے کو طاعون کہا جاتا تھا۔

ٹڈی دل

دس میں سے ایک شخص متاثر ہوتا ہے

اقوام متحدہ کی تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں ریگستانی ٹڈیاں دس میں سے ایک شخص کی زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا کے خطرناک ترین کیڑے کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

پچھلی دہائیوں میں ابھرنے والا سب سے خطرناک ٹڈی دل فی الحال افریقہ کے گھاس کے میدانوں اور کھیتوں کو تباہ کررہا ہے۔ یہ حملہ پورے خطے میں غذائی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔

ٹڈی دل

فصلوں کے لیے ٹڈیاں تباہ کن ثابت ہوتی ہیں

ٹڈیوں کا حملہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟

ایک بالغ ٹڈی ہر روز اپنے وزن کے برابر یعنی دو گرام کھانا کھا سکتی ہے۔ اور پہلے سے ہی سیلاب اور قحط کا سامنا کر رہے ایک بڑے جغرافیائی علاقے میں ان ٹڈیوں کی وجہ سے خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ٹڈیوں کے حملے اتنے بڑے پیمانے پر کیسے ہو گئے؟

اس کی ایک اہم وجہ سنہ 2018 اور سنہ 2019 میں آنے والے طوفان اور شدید بارشیں ہیں۔

ریگستانی ٹڈیاں مغربی افریقہ اور انڈیا کے درمیان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں رہتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق دو سال قبل جزیرہ نما جنوب میں نمی اور سازگار ماحول کی وجہ سے ٹڈیوں کی دو نسلیں پروان پا چکی ہیں اور کسی کو پتا نہیں چل سکا۔

سنہ 2019 کے اوائل میں ٹڈیوں کا پہلا جھنڈ یمن اور سعودی عرب سے ہوتا ہوا پہلے ایران اور پھر مشرقی افریقہ پہنچا تھا۔

گذشتہ سال کے آواخر تک نئے ٹڈی دل پیدا ہو گئے ارو یہ دل کینیا، جبوتی اور اریٹیریا اور پھر وہاں سے دنیا کے دوسرے ممالک پہنچ گئے۔

ٹڈی دل

ریگستانی کی ٹڈیاں مختلف رنگ کی ہوتی ہیں

کیا ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟

افریقہ میں ٹڈیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کے پیش نظر کچھ ممالک نے اس حوالے سے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

ان کی روک تھام کا انحصار بہتر کنٹرول اور نگرانی پر ہے۔

اقوامِ متحدہ کی تنظیم کے زیر انتظام ریگستانی ٹڈی انفارمیشن سروس ٹڈیوں کے دلوں کے بارے میں وارننگ، ان کے مقامات اور افزائش سے متعلق معلومات مہیا کرتی ہے۔

لیکن ٹڈیوں کی تعداد میں حد سے زیادہ اضافے کے بعد ان کی آبادی کو کم کرنے اور ان کی افزائش کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو ماحولیات کے لیے موزوں ہوں۔

ٹڈی دل

ان میں حیاتیاتی کیڑے مار ادویات کا استعمال شامل ہے۔ عام طور پر انھیں مارنے کے لیے کیڑے مار دواؤں کا سپرے کیا جاتا ہے۔

اس طرح ہینڈ پمپس، گاڑیوں اور ہوائی جہاز کی مدد سے بہت زیادہ ٹڈیوں کو بہت ہی کم وقت میں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔

اُن ممالک کے لیے ٹڈیوں کا سامنا کرنا زیادہ مشکل ہے جہاں کئی دہائیوں سے ٹڈیوں کا حملہ نہیں ہوا ہے۔

کیونکہ ان ممالک میں ٹڈیوں کے بارے میں اطلاعات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ہوتی ہے۔

ٹڈی دل

شمالی گجرات کے ایک ضلع میں اس ٹڈی دل نے سرسوں، ارنڈی، میتھی، گندم اور زیرے کی فصلوں کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp