’امریکیوں کو دو جان لیوا وائرس ہلاک کر رہے ہیں، کووڈ 19 اور نسل پرستی‘


پچھلے کچھ عرصے میں امریکہ میں کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے سیاہ فام امریکیوں کو حراست میں لیتے ہوئے اتنی زیادہ طاقت استعمال کی گئی کہ حراست میں لیا جانے والا شخص یا تو موقع پر ہی ہلاک ہو گیا یا پھر پولیس کی تحویل میں جان سے گیا۔

ایسے ہی تشدد کا ایک واقعہ پیر کے روز پیش آیا جب ایک سفید فام پولیس افسر نے ایک سیاہ فام شخص جورج فلوئیڈ کو گرفتار کرتے ہوئے اُن کی گردن پر انتہائی زور سے اپنا گھٹنا رکھ کر انھیں قابو کیا ہوا ہے۔

اس گرفتاری کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں جورج فلوئیڈ پولیس والے سے یہ التجا کرتے نظر آئے کہ ان کا دم گھٹ رہا ہے لیکن پولیس افسر ٹس سے مس نہ ہوا۔

امریکہ میں ایک بار پھر ایک سیاہ فام شخص بظاہر پولیس کی جانب سے بے جا طاقت کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ اس پر امریکی شہری خاص طور پر سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی انصاف مانگ رہے ہیں اور وہ انصاف میں تاخیر نہیں چاہتے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاہ فام شخص کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد امریکہ میں پرتشدد مظاہرے

ٹوئٹر کا صدر ٹرمپ پر ’تشدد کو ہوا دینے‘ کا الزام

‘سیاہ فام کے قتل پر امریکی اہلکاروں پر مقدمہ نہیں ہوگا’

جورج فلوئیڈ کے گھر والوں کا مطالبہ ہے کہ اُن چار پولیس افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔ وکیل استغاثہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی شواہد جمع کر رہے ہیں۔

یہ واقعہ منیپولس میں پیش آیا اور اس واقعے کے تناظر میں تین روز سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ رات مظاہرین نے ایک پولیس سٹیشن کو بھی آگ لگا دی تھی۔

احتجاج

منیپولس میں مظاہرین نے ایک پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی تھی

صدر ٹرمپ نے طیش میں آ کر ٹویٹ کی اور کہا کہ یہ بدمعاش، جورج فلوئیڈ کی یاد کی بے حرمتی کر رہے ہیں اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ اگر مشکل ہوئی تو ہم کنٹرول سنبھال لیں گے، جب لوٹ مار شروع ہو گی تو گولیاں چلنی شروع ہوں گی، شکریہ۔

ٹوئٹر نے پہلے تو صدر ٹرمپ کی اس ٹویٹ پر سوال اُٹھاتے ہوئے اسے ٹائم لائن سے ہٹایا مگر پھر اس تک رسائی اپنے اس پیغام کو پڑھنے کے بعد ممکن بنائی جس میں لکھا کہ اس ٹویٹ نے ٹوئٹر کے تشدد کو شہ دینے کے بارے میں قواعد کی خلاف ورزی کی ہے مگر ٹوئٹر کے مطابق یہ ٹویٹ پبلک کی معلومات کے لیے اہم ہو سکتی ہے اس لیے اسے پڑھا جا سکتا ہے۔

صحافی وجاہت علی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ کے الفاظ کو دہراتے ہوئے لکھا: ’جب لوٹ مار شروع ہوتی ہے تو شوٹنگ شروع ہوتی ہے۔‘

اس کے بعد وجاہت علی نے لکھا کہ مگر جب سفید فاموں کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شارلٹسول آتشی مادہ لے کر جاتے ہیں اور اُن میں سے ایک نازی ایک عورت کو قتل کر دیتا ہے تو وہ بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں۔

یہ الفاظ بظاہر اُس بیان کی طرف اشارہ تھے جو صدر ٹرمپ نے سفید فاموں کی بالادستی پر یقین رکھنے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے اُس واقعے کے بعد استعمال کیے۔

https://twitter.com/WajahatAli/status/1266243593326325763?s=20

شہریوں کا غصہ منیپولس میں نکل رہا تھا لیکن یہ مظاہرےامریکی شہر نیو یارک، لاس اینجلیس، شکاگو، ڈینور، فینکس اور میمفس تک پھیل چکے ہیں۔

پولیس کی جانب سے سیاہ فام امریکیوں پر تشدد اور اُس کے نتیجے میں مظاہرے کوئی پہلی بار نہیں ہو رہے لیکن آخر یہ بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے؟

منصور شمس پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو ایک سابق یو ایس مرین ہیں اور مسلم مرین ڈاٹ ارگ نامی ویب سائٹ کے بانی اور کاؤنسل آن فارن ریلیشن سے وابستہ ہیں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے منصور شمس کا کہنا تھا کہ نسل پرستی آج بھی معاشرے کا اُسی طرح سے حصہ ہے جیسے ماضی میں تھا اور یہ آج بھی مکمل طور پر معاشرے سے ختم نہیں ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا ’لوگ ابھی بھی پرانے وقتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے اور جہاں بہت سے باشعور لوگ ہیں وہیں معاشرے کے کچھ حصوں میں صدیوں سے قائم یہ سوچ موجود ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں۔۔ یہ احساس مکمل طور پر ہر طبقے میں ختم نہیں ہوا اور اسی لیے یہ واقعات ختم نہیں ہو رہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’موجودہ صدر جہاں ایک طرف کہتے ہیں وہ اس کے خلاف ہیں دوسری جانب وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جو لوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور یہی مسئلہ نظام کا حصہ بھی ہے اور مسائل کی جڑ ہے۔‘

’ماضی میں ایسے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی جنھوں نے سیاہ فام افراد پر بے جا تشدد کیا اور بہت سے ایسے افراد پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوئے۔ نسل پرستی کے واقعات سوشل میڈیا کی وجہ سے ہماری نظر میں پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں اور پچھلے تھوڑے عرصے میں ان کی مختلف مثالیں بھی ملی ہیں جیسا کہ نیو یارک کے پارک میں پیش آنا والا واقعہ۔‘

ماضی میں بھی اِن واقعات پر امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل کے افراد نے انصاف نہ ملنے پر مظاہرے کیے اورغم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بلیک لائیوز میٹر کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی ’می ٹو‘ کی طرح ایک مہم بن گئی ہے جو ایک عرصے سے چل رہی ہے۔

https://twitter.com/TomiLahren/status/1265829956405387264?s=20

امریکی صدر کے پسندیدہ نیوز چینل فاکس نیوز کی میزبان اور انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والی ٹامی لاہرن نے ٹویٹ کی کہ لوٹ مار، ہنگامہ آرائی اور اپنی ہی کمیونٹی میں تباہی کسی کو کیسے انصاف دلوا سکتی ہے؟

ٹامی لہرن کے اس پیغام کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے عائشہ ملک نے جواباً لکھا ’مجھے نہیں پتا انھوں نے پرامن طریقے سے زمین پر گھٹنے کے بل بیٹھ کر کوشش کی مگر تم سب کو اس سے بھی مصیبت تھی۔‘

انھوں نے اس تھریڈ میں اپنے پیغام میں مزید کہا کہ نسل پرست سفید فام افراد کو متاثرین کے ساتھ ناانصافی کی شدت کو معمولی بنا کر پیش کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور وہ ان ناانصافیوں پر اُن کے ردعمل پر اعتراض کر کے ایسا کرتے ہیں۔ وہ قتل پر اتنا ناراض نہیں جتنا پرتشدد ردعمل پر ہیں۔ اسی لیے ہمیں اُنھیں یاد کرانا پڑتا ہے کہ #BlackLivesMatter۔

سیاہ فام افراد کے خلاف ناانصافیوں اور اُن کے بے جا قتل پر مشہور امریکی سیاہ فام کھلاڑیوں نے ملک میں کھیلوں سے پہلے قومی ترانے کے دوران گھٹنے کے بل بیٹھنے کی روایت شروع کی تھی تاکہ ان ناانصافیوں پر آواز اُٹھا سکیں۔

ان میں مشہور کھلاڑی کولن کپرنیئک بھی شامل تھے۔ ان کھلاڑیوں کو نہ صرف غدار کہا گیا بلکہ انھیں ملک کے صدر سمیت دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے افراد نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

مختلف طریقوں کے احتجاج ہوئے ہیں مگر حالات میں بہتری نہیں آرہی۔ احتجاج کس شکل میں ہو تو یہ صورتحال بدلے گی؟

منصور شمس کہتے ہیں کہ میں تشدد کے بالکل خلاف ہوں اور یہ بالکل غلط ہے لیکن جو صورتحال ہے اُس سے لگتا ہے کہ کمیونٹی میں غصہ اور مایوسی اتنی زیادہ ہے کہ وہ اب یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لیکن بدقسمتی سے اس شورش کی وجہ سے توجہ اس طرف ہو رہی ہے۔

https://twitter.com/1kingmyles/status/1265832328598884352?s=20

منصور شمس نے کہا ’دوسری جانب اگر لوٹ مار کی بات کی جا رہی ہے تو اس میں صرف سیاہ فام افراد نہیں۔ جو تصاویر نظر آئی ہیں اس میں سفید فام افراد بھی ہیں اور بنیادی طور پر یہ معاشی بدحالی کا نتیجہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے بیانات میں بھی نسل پرستی کا عنصر شامل ہے۔‘

منصور شمس کہتے ہیں کہ جب تک معاشرے کی اِس سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی نسلی پرستی ختم نہیں ہو گی اور بدقسمتی سے ان مسائل کا سامنا رہے گا۔

’اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سطح پر لوگوں کو آگے لانا ہوگا تاکہ نظام میں جو سوچ ہے اُسے بدلا جا سکے۔‘

ایک ٹوئٹر صارف نے ان الفاظ کے ساتھ کہ’کیا شہ سرخی ہے‘ امریکی نیوز چینل پر ایک معروف ٹی وی اینکر کے شو کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں شو کے توسط سے لکھا تھا ’امریکیوں کو دو جان لیوا وائرس ہلاک کر رہے ہیں: کووڈ 19 اور نسل پرستی۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp