جنرل کیانی اور سلیم صافی کے جانبدار کالم


صحافت کی اہم خصوصیت ”غیر جانبداری“ آہستہ آہستہ پاکستان سے نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ میدان صحافت میں آتے ہی ”ستاروں پر کمندیں“ ڈالنے کی خواہش اقبال کے شاہینوں کو ”پلٹ کے جھپٹ کے“ اعلی ہستیوں کے در پر سلامی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انہی ستاروں پر کمند ڈالنے کے چکر میں کوئی شوکت عزیز کا تو کوئی منظور احمد وٹو کا میڈیا ایڈوائزر بن بیٹھتا ہے۔ ”ستا روں سے آگے جہاں“ کی تلاش میں کچھ باقاعدہ نگران سیٹ اپ بنا لیتے ہیں اور کچھ بقول شیخ رشید کسی نیازی کے اخبار پر قبضہ جما کر صحافتی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرتے ہیں۔ اسی فرشتہ صفت طبقے کے کچھ سپوت میدان کالم نگاری کے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے بڑی بڑی فتوحات اپنے نام کر لیتے ہیں۔

کالم کی مثال کسی ایک خاص تحریر سے نہیں دی جا سکتی بلکہ مختلف کالموں کا اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ موضوع اور مواد کے لحاظ سے بھی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ کالم کسی کے ذاتی خیال پر مبنی ہو سکتا ہے اور دوسروں کے خیا لات پر بھی۔ کالم کا موضوع مطالعاتی، تحقیقی بھی ہو سکتا ہے مگر پاکستان کے معتبر اخباروں کے اعلی حضرت کالم نگاروں میں سے چند ایک کو بخش کر باقی قلم سے کاری ضرب لگانے کی خاطر صرف ”موضوع اور مواد کے لحاظ سے کوئی پابندی نہیں ہوتی“ اور ”کالم ذاتی خیال پر مبنی ہو سکتا ہے“ والی باتوں کوہی اہمیت دیتے ہیں اور ایسی تحریروں میں غیر جانبداری پھر نایاب ہو تی ہے۔

سلیم صافی کی کتاب ”اور تبدیلی لائی گئی“ میں بھی کچھ کالم انہی خصوصیات کے مظہر ہیں، صافی صاحب کی یہ کتاب جولائی 2018 میں وقت کی اہمیت کے عین مطابق شائع ہوئی۔ کتاب میں شامل ایک کالم بعنوان ”دھاندلی اور جنرل کیانی“ 15 نومبر 2014 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ کالم میں صافی صاحب نے جنرل کیانی کی اصول پسندی اور نیک نیتی کی تمہید باندھنے کے بعد لکھا، ”تحریک انصاف کے بعض سرکردہ رہنما جنہوں نے وزارت عظمی کے خواب دیکھے تھے یا کسی کے کہنے پر عمرا ن خان کو دکھائے تھے، نجی محفلوں میں یہ کہنے لگے ہیں کہ نواز شریف کے حق میں دھاندلی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ایما پر ہوئی۔

اسی تسلسل میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں ایم۔ آئی کے ایک بریگیڈیئر پر پنجاب میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا، لیکن پھر جب متعلقہ لوگوں نے خبردار کیا تو وہ اس موضوع پر میڈیا میں تو خاموش ہو گئے لیکن نجی محفلوں میں اب بھی یہی الزام دہرا رہے ہیں“ ۔ پھر لکھتے ہیں، ”مکر ر عرض ہے کہ قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور قبائلی علاقوں میں آپریشن جیسے ایشوز کے حوالے سے میں جنرل کیانی کی بعض پالیسیوں کا شدید ناقد رہا۔

اس کا اظہار ان کے ساتھ صحافیوں کی نشستوں میں بھی کرتا رہا اور میڈیا میں بھی حسب استطاعت تنقید کرتا رہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں ان کا کردار کسی صورت منفی نہیں تھا۔ جنرل کیانی الیکشن کے روز صبح سویرے ووٹ ڈالنے خود گئے تاکہ انتخابی عمل کی وقعت بحال ہو۔ ایسے شخص پر دھاندلی کا الزام لگانا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟“ ویسے صافی صاحب نے کیا خوب پیمانہ دریافت فرمایا ہے کسی کی غیر جانبداری اور انتخابات کی شفافیت ماپنے کا۔

کالم کے اختتام پر صافی صاحب نے لکھا ”دراصل مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کو جنرل کیانی سے دھاندلی کی نہیں بلکہ دھاندلی نہ کرنے کی شکایت ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی قیادت ناراض ہے کہ جنرل مشرف کے منصوبے کے مطابق 2008 کے انتخابات میں دھاندلی کروا کر جنرل کیانی نے مسلم لیگ (ق) کو دوبارہ حکمران کیوں نہیں بنایا اور تحریک انصاف کے قائد کو شکوہ ہے کہ فوج کے بعض عناصر کے منصوبے کے مطابق جنرل کیانی نے نواز شریف کو آؤٹ کر کے یا پھر براہ راست دھاندلی کروا کر عمران خان کو وزیر اعظم کیوں نہیں بنوایا“ ۔

اس کے بعد صافی صاحب نے ایک اور کالم اپنی کتاب میں شامل کیا ہے جو 8 اپریل 2017 کو روزنامہ جنگ میں بعنوان ”جنرل کیانی، جنرل راحیل اور پی۔ ٹی۔ آئی“ شائع ہوا۔ اس کالم میں انہوں نے نعیم الحق کو عمران خان کا ترجمان اور خاص کارندہ (خود ہی بتلاؤ کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟ ) بتاتے ہوئے ان کے ایک بیان کو سیڑھی بنا کر جنرل کیانی کو اس مصرع پر پورا اتارنے کی کوشش کی ہے کہ ”شیخ اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں“ ۔ ناجانے سلیم صافی صاحب یہ کیوں بھول گئے کہ ”جناب شیخ! اندھیرے اجالے میں کبھی چوکتے بھی نہیں“ ۔

کتاب کی حد تک تو بات یہاں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے، مگر صافی صاحب نے اس حوالے سے ایک کالم بعنوان ”جنرل کیانی کا معاملہ“ بھی لکھا جو 12 مئی 2015 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر کتاب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ حسب روایت اس پورے کالم میں بھی صافی صاحب نے جنرل کیانی کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ نمونے کے طور پر کالم کا آخری حصہ نقل کیے دیتا ہوں، “جنرل کیانی اتنے بڑے مجرم بھی نہیں قرار پاتے جتنا کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بتایا جا رہا ہے۔ ان کے تجزیے اور موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر ان کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ ان کی پالیسیوں پر تنقید کی بہت گنجائش ہے لیکن بہر حال ان کے کریڈٹ پر فوج کے امیج کو بحال کرنا اور سیاست کے اس گند سے نکالنا بھی شامل ہے، جس میں جنرل مشرف نے اسے ملوث کر رکھا تھا۔ جنرل مشرف کی ان سے ناراضی کی وجہ بھی یہی تھی کہ انہوں نے 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے حق میں دھاندلی کرانے سے انکار کیا۔

صافی صاحب کی یہ انتہائی جانبدار تحریریں تاریخ کا حصہ بن جاتیں اور جنرل کیانی کو کلین چٹ دینے والوں کے لیے ”حوالہ“ کا کام کرتیں مگر پاکستان میں ایک رواج ہے کہ عمر کے آخری حصے میں بڑے بڑے مجرموں کا بھی ضمیر زندہ ہو جاتا ہے اور وہ اعترافی بیان جاری کر کے اپنے پاپ دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈ یئر (ر) اعجاز شاہ صاحب کا کہ جنہوں نے اسی طرح کا ایک اعترافی بیان دیا، یوں بھی عمر کا تقاضا ہے کہ کسی نہ کسی واردات کو تو مان ہی لیا جائے۔

اسے سلیم صافی صاحب کی بد قسمتی کہیے یا یہ محض اتفاق تھا کہ اعجاز شاہ صاحب نے یہ اعترافی بیان انہی کے پروگرام ”جرگہ“ میں دیا تھا۔ اعجاز شاہ صاحب کہتے ہیں ”2008 میں، میں نے استعفٰی دیا کیونکہ میری اور جنرل کیانی کی پلاننگ تھی مسلم لیگ (ق) کو جتوانے کی۔ بعد میں اس کو Undo بھی ہم نے ہی کیا۔ کیانی میرے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میرے سے چھوٹے ہیں اور سینئر بھی نہیں مگر جنرل بن گئے۔ ق لیگ کی ڈیل بھی انہوں نے ہی پی پی کے ساتھ کروائی تھی اور میرا نام دیا تھا کہ یہ سب معاملات دیکھے گا۔ میرا مو قف یہ تھا کہ پی۔ پی اور ق لیگ ایک ساتھ نہیں چل سکیں گی“ ۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا، ”پی پی سے ڈیل جنرل کیانی نے کی تھی اس لئے انہوں نے ان کو جتوایا بھی۔ ق لیگ کو ہم جتوانا نہیں چاہ رہے تھے، بس ان کو اتنی سیٹیں دلوانا چاہ رہے تھے جتنی کہ مل گئیں“۔ کیا شریک جرم کے اعترافی بیان کے بعد بھی کہا جا سکتا ہے کہ جنرل کیانی نے دھاندلی نہیں کروائی تھی؟ ایک بار ”پارٹی، پارٹی“ کے نام کو بالائے طاق رکھ کر سوچیں کہ جنرل کیانی کا الیکشن میں کردار کیا تھا؟

اس کے بعد سلیم صافی صاحب کی جانبداری اور جنرل کیانی کے لیے گھڑی گئی ان کی کہانیوں کو تو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملی ہو گی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی خاک ہو گیا کہ جنرل کیانی نے فوج کو سیاست کے ”گند“ سے دور رکھا۔ اب رہی بات 2013 کے الیکشن کی تو تھوڑا انتظار کریں، جس طبقے کی صلواتیں صافی صاحب پہلے پڑھ رہے تھے اسی طبقے سے کوئی بتا رہا ہو گا کہ کس طرح اسی گند سے ہم نے اپنے ہاتھ دھوئے تھے، خود کی پاکدامنی تو داغ دار نہ ہوئی مگر ”فلاں پارٹی“ کو اقتدار میں لے آئے۔ مردہ سے زندہ ضمیر کا سفر ذرا طویل ہوتا ہے، انتظار فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments