مولانا عبیداللہ سندھی کا ایک تعارف


کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ زیست سے بھی مقدس منزلیں پاس بلا کر رخ موڑ لیتی ہیں۔ جان سے بھی پیارے خواب تعبیر کی کرچیوں میں بکھر کر دامن کو نئے ارمانوں سے بھر دیتے ہیں۔ اپنوں کے بھروسے پہ منتخب کردہ اک راہ نئی مسافتوں میں ڈھل جاتی ہے۔ نسلوں کے دشمن سے وقت کی کسی شبھ گھڑی میں ہاتھ ملانا پڑ جاتا ہے۔ اپنے سچ کے راستے پر چلتے چلتے زمانہ نئی حقیقتوں سے دوچار کر دیتا ہے۔ زندگی سے بھرپورجیتے جاگتے وجودکبھی ٹھہرتے نہیں ہیں۔ حالات و واقعات کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ اپنے نظریات اور اعمال کو کندن بناتے ہیں۔ لیکن ہم مکمل انسان کا تعارف کرانے سے گھبراتے ہیں۔ ان کی زندگی کے وہی گوشے سامنے لاتے ہیں جو ہمارے ذاتی یا گروہی مفادات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ آئیے، ایک ایسی ہی شخصیت سے ملتے ہیں۔ بیان کرتے ہیں :۔

” ہندوستان میں ہندو تہذیب کا شاندار دور ہو یا مسلم تہذیب کا درخشاں زمانہ، تاریخ کے دونوں ادوار میں ہمارے ملک کی اتنی ہتک نہیں ہوئی کہ باہر سے بیٹھ کر کسی نے حکومت کی ہو۔ 1857 میں تاج برطانیہ سے مکمل شکست ہونے کے بعد مسلمان برٹش گورنمنٹ کے ساتھ تعاون کے حوالے سے دو تحریکوں میں منقسم ہو گئے۔ کو آپریٹیو (سر سید احمد خان۔ علی گڑھ یونیورسٹی) اور نان۔ کو اپریٹیو (محمد قاسم نانوتوی۔ دارالعلوم دیو بند)“

انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تو نان۔ کو اپریٹیو نظریے سے کیا۔ لیکن درمیان میں علی گڑھ اور دیوبند کے مقاصد کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔ اور تقریباً پچیس سالہ جلاوطنی کے بعدبرٹش گورنمنٹ کے ساتھ بوجوہ مصالحت پر آمادہ ہوئے۔

یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جوپنجاب کے ایک سکھ گھرانے میں 1872 میں پیدا ہوئے، لیکن ”سندھی“ کہلوانا پسند کیا۔ پندرہ سال کی عمر میں ایک ”پنڈت مولوی“ کے ’تحفۃ الہند‘ کے سبب مسلمان ہوئے۔

یہ ایک ایسے فرد کی آب بیتی ہے جو جب ہندوستان سے نکلا تو ”پین اسلام ازم“ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواہشمند تھا۔ لیکن جب اپنی مثالی دنیا سے واپس لوٹا تو ایک ایسے ”قومی دینی انقلاب“ کا داعی بن کر آیا ؛ جس کی وسعت میں انجیل، تورات اور گیتا بھی سما جائے۔ اور آ کر اپنوں کو یہ باور کرائے کہ یہ جو مسلمانوں کو جو اپنی تعداد کی فکر ہے، انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا انگریز ہندوستان پر اپنی کثرت آبادی کی وجہ سے حکومت کر رہا ہے؟ حکومت نہ کثرت پر منحصر ہے نہ قلت پر ، بلکہ فکر صحیح پر منحصر ہے۔

’اظہار اسلام‘ کے بعد ان کی زندگی کا پہلا دور ( 1915۔ 1887 ) براستہ ’کانپور اور رام پور‘ دارالعلوم ’میں اپنی تعلیم و تربیت میں گزرا۔ اور پھر‘ دار الرشاد ’اور‘ جمیعۃ الانصار ’کے ذریعے ہم وطنوں کو ‘ معارف قرآنیہ ’کا نظارہ کرانے میں صرف کیا۔

دوسرا دور ( 1915۔ 1939 ) پچیس سالہ جلاوطنی میں کابل، روس، ترکی، یورپ اور مکہ معظمہ میں گزر ا۔ اور اپنا تعارف اک فریڈم فائٹر کے طور پر کروایا جو کسی بھی قیمت یا شرط پر تاج برطانیہ سے مصالحت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ برطانیہ سب سے بڑا دشمن قرار اور زندگی اس سامراج و استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف وقف۔ اس دور میں آزادی کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اور یہی وہ دور ہے جو ان کی زندگی کا عمومی تعارف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن جس دور میں انہوں نے عدم تشدد کا راستہ اپنایا یعنی تیسرا اور آخری دور، اس دور کو بطور پہچان پیش نہیں کیا جاتا۔ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں، فیصلہ قارئین پہ چھوڑتے ہوئے ’مولانا سندھی‘ کے تیسرے دور کی جھلکیاں انہی کے اقتباسات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں :۔

یاد رہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی کی تعریف یا تنقیص کرنا ہرگز نہیں ہے، مقصد صرف ان شخصیات کے گرد تقدس بھرے القابات و خطابات کے ہالہ کو پار کرتے ہوئے ایک ایسے حقیقی انسان سے ملاقات کرنا ہے، جو زمانے کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کرتا ہے، اس کے نتائج کا تجزیہ کرتا ہے۔ اور مقصد کے حصول کے لیے طریقۂ کار میں تبدیلی لاتا ہے۔

تقریباً پچیس سال کی جلاوطنی کے بعد، تیسرے اور آخری دور ( 1944۔ 1939 ) کا آغاز ان کی سندھ (کراچی) آمد پر ایک خطبے سے ہوتا ہے۔ جس میں وہ ’محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کے ایک عالمگیر لادینی انقلاب‘ کو اپنی آنکھوں سے اٹھتا دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے اگلے دور کے لائحہ عمل کا اظہار کرتے ہیں :۔

”اس قسم کے انقلاب اور اس کے لادینی فلسفے کے ہولناک نتائج سے بچنا چاہتے ہو تو انقلاب کے کسی ایسے دینی فلسفے کو اختیار کرو جس کے ذریعے تم خدا کو مانتے ہوئے خدا کی مظلوم مخلوق کو خوش حال بنا سکو۔ چناچنانچہ میں انقلاب کے اس قسم کے دینی فلسفے کا پیغام لے کر آپ کے پاس آیا ہوں“ ۔

بدیسی دنیا کا سفر کرنے کے بعد علامہ اقبال کے ہاں جو ذہنی تبدیلی ”سارے جہاں سے اچھا، ہندوستان ہمارا“ سے ”مسلم ہیں ہم وطن، سارا جہاں ہمارا“ کی صورت میں ظاہر ہوئی، سندھی کے ہاں یہ فکری ارتقا، اس کے بالکل برعکس وقوع پذیر ہوتا ہے۔ سندھی امام شاہ ولی اللہ کے فلسفہ کی صورت میں ایک ایسا ’نسخۂ کیمیا‘ ڈھونڈ کر لاتے ہیں جس سے ایک ہندوستانی مسلمان اپنی، ’ہندوستانیت‘ ، ’مسلمانیت‘ اور ’اشتراکیت‘ بیک وقت تینوں کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ فرماتے ہیں :۔

” شاہ ولی اللہ کا یہ فلسفہ، ویدانت فلاسفی کا اسلامی ایڈیشن ہے۔ ترقی یافتہ انسانیت کی عقلی تشریح کرنا اس کی اساس ہے“ ۔

” (الف) یہ فلسفہ ہندوستانی ذہنیت کی تدریجی ترقی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس میں بیرونی ہندو فلاسفی کے تمام فوری اصول تسلیم شدہ ہیں اور اس کے متوازی اسلامی دور کے ذہنی ارتقا کی تکمیلی شکل موجود ہے۔ اس میں فلسفہ دو مختلف سکولوں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا پرانا تاریخ تخالف دور کر دیا گیا ہے۔ (ب) اس کے فلسفہ الہیات کی تعلیم ریاضی کی مثالوں سے واضح ہو سکتی ہے۔ (ج) اس کا اجتماعی فلسفہ ایسا مکمل ہے کہ انسانی عقل آج تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ (د) اس فلسفہ سے تمام مذاہب عالم کی عقلی تشریح و تطبیق ہو جاتی ہے۔“ ۔

شاہ ولی اللہ کے فلسفے کا انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اشتراکی خیالات کی تائید کرتا ہے۔ تحریر کرتے ہیں :۔

”آج کل ہندوستانی مسلمان کی آزادی پسند جماعت اشتراکی خیالات کی طرف میلان رکھتی ہیں۔ اور چونکہ امام ولی اللہ دہلوی کا فلسفہ اس کی تائید کرتا ہے“ ۔

اسی طرح سندھی برملا اعتراف کرتے ہوئے ہم وطنوں کو اک نئی راہ بھی بتاتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں :۔

”ہماری سرگزشت ناکامیوں کی طویل فہرست ہے۔ اور غلط کاریوں کے اعتراف سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن مایوسی کا شائبہ تک نہیں ہے“ ۔

”ہم نے اپنے اندر لڑائی لڑ کر آزادی حاصل کرنے کی طاقت نہ دیکھ کر عدم تشدد کو قبول کیا ہے۔ ہم کسی بیرونی طاقت کے اشتراک سے آزادی حاصل کرنے کے روادار نہیں“ ۔

”ہماری مستحکم رائے ہے کہ ہمیں اس وقت برطانیہ کی بلاشرط امداد کرنی چاہیے۔ میں برطانیہ سے لڑنے والی طاقتوں کے ساتھ شریک رہ چکا ہوں۔ اس وقت مذہبی نقطہ نظر سے میں اسے اپنا فرض سمجھتا تھا۔ ہم اس جنگ میں شکست کھا گئے۔ مگر اپنے مذہبی فیصلہ کی صحت کا اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ برطانیہ کی مسلمانوں سے کوئی مذہبی جنگ نہیں۔ ہم اپنے سیاسی مطالعہ کے موافق اپنے ملک (متحدہ ہندوستان) کے لیے برطانیہ سے اس وقت پرخاش غلط سمجھتے ہیں“ ۔

”ہم بیرونی مسلمانوں کی امداد پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ ہم بیرونی مسلمانوں کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے فتح کرنے کی کوشش کریں۔ اب اگر کوئی بیرونی قوت، چاہے مسلم کیوں نہ ہو، اس نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ہم پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے“ ۔

اس ذہنی اور فکر ی ارتقا کا سبب یقیناً ان کے مختلف ملکوں کے دورے، عالمی منظر نامے میں واضح تبدیلی اور ہندوستان کے اپنے سیاسی و سماجی حالات ہیں۔ برٹش گورنمنٹ کے حوالے سے وقت کے ساتھ ان کی سوچ اور فکر میں جو ارتقا، تبدیلی، جامعیت اور نکھار آیا، مزید پیش خدمت ہے۔ رقم کرتے ہیں :۔

”کافی زمانے تک ہمیں برٹش کامن ویلتھ کے اندر رہنا ہوگا۔ تا کہ باہمی سمجھوتہ حربیہ اور خارجیہ مصلحتوں پر قبضہ کیا جا سکے۔ اور اس قبضہ کے بعد بھی کافی زمانہ تک ہمیں برطانیہ کے ساتھ رہ کر اس کی دوستی سے استفادہ کی ضرورت ہو گی“ ۔

عدم تشدد کی پابندی سے وہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے جو بالتدریج ہو۔ سب سے پہلے ’ڈومینین اسٹیٹس ”کے درجے کا ‘ ہوم رول ’ہو گا۔ اور کافی زمانے تک ہند‘ برٹش کامن ویلتھ ’کے اندر رہے گا۔ اس کے بعد سمجھوتے سے خارجی اور حربی اختیارات منتقل ہوں گے۔ ان اختیارات پر پورا قبضہ حاصل کرنے کے بعد“ کامل آزادی ”کا لفظ اصلی معنی میں صادق آتا ہے“ ۔

”ہمارے اکابر مذہب و ملت و وطن، برٹش گورنمنٹ کے دو صد سالہ عہد سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی کوشش کریں۔ جس طرح ہم نے یورپ سے تنفر (نفرت) برت کر اپنی ترقی کو محدود کر لیا ہے۔ اسے اب خیر آباد کہیں“ ۔

”برطانیہ نے ہمیں جمہوریت اور لبرل ازم سکھایا۔ ہمارے ملک کو مشین سے آشنا کر دیا۔ ی۔ یہاں ریلوے بنائی۔ مشین سے کام کرنے والی جماعتیں پیدا کر دیں۔ ہمیں برطانیہ کا اس معاملے میں شکر گزار ہونا چاہیے۔

”ہم صراحتہً کہتے ہیں کہ ہم برطانیہ سے جنگ و جدل کرنے کا خیال چھوڑ چکے ہیں“ ۔
اسی طرح سندھی ایک نئی پارٹی کی تشکیل کے خواہشمندبھی دکھائی دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :۔

1857 کے بعد مسلمانان ہند کی اندرونی طاقت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک کا مرکز علی گڑھ بنا اور دوسری کا دیوبند قرار پایا۔ علی گڑھ نے مسلم لیگ پیدا کی اور دیوبند نے جمعیت علمائے ہند۔ اب یہ دونوں تحریکیں ( علی گڑھ اور دیوبند) رک گئی ہیں اور مسلمانوں کی کشتی ساحل مراد تک نہیں پہنچا سکیں۔ اب ہم اک نئی پارٹی (جمنا، نربدا، سندھ ساگر پارٹی) بنانا چاہتے ہیں۔

لیکن سچ کا سچ تو یہ ہے کہ جس قوم نے بھی اپنے مفکرین کی بے قدری کی ہے۔ اور انہیں زندہ درگور کیا ہے۔ وقت پہ بولے سچ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ زمانے کی شہادت ہے کہ ایسی قوم خسارے میں ہی رہی ہے۔

آخر میں جاوید اقبال کے اس ’اعتراف‘ کو سندھی کے نذر کرتے ہوئے بات مکمل کرتے ہیں کہ:۔

”سچ تو یہ ہے قصور اپنا ہے /چاند کو چھونے کی تمنا کی/آسمان کو زمین پر مانگا/پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلے /کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی/آگ سے مانگتے رہے ٹھنڈک/خواب جو دیکھا/چاہا سچ ہو جائے /اس کی ہم کو سزا تو ملنی تھی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments