باکمال لوگ، لاجواب سروس


22 مئی کو لاہور سے کراچی جانے والی پی آئی اے کی پرواز کراچی ائرپورٹ پر اترنے کی ناکام کوشش میں رن وے سے تھوڑا پہلے آبادی پر گر کر تباہ ہو گئی۔ حادثے میں طیارے پر سوار 107 افراد میں سے صرف دو افراد معجزانہ طور پر بچ نکلے۔ باقی افراد کی شناخت جاری ہے۔ سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے تحت ایک انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے اس کے چار ارکان میں سے تین کا تعلق پاکستان ائرفورس سے ہے۔ حادثے کے فوراً بعد پی آئی اے کے سربراہ ایر مارشل ارشد ملک نے ایک پریس کانفرنس کو بتا دیا ہے کہ جہاز کے پائلٹ اور عملہ تربیت یافتہ تھے اور یہ کہ جہاز تیکنیکی لحاظ سے بالکل درست حالت میں تھا۔

اس حادثے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی چند دن اور لکھا جاتا رہے گا جب تک کو اور واقعہ توجہ اپنی طرف مبذول نہ کروا لے اور الحمدللہ ہم پاکستان میں جیتے ہی کرائسس پر ہیں۔

ہوابازی کی صنعت محفوظ ترین سمجھی جاتی ہے۔ 2013 میں ایاٹا (انٹرنیشنل ائر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن) کی رپورٹ کے مطابق اس سال پوری دنیا میں 36.4 ملین کمرشل فلائٹس کے ذریعے تین ارب سے زائد مسافروں نے سفر کیا۔ اس سال صرف 210 افراد سفر میں موت کا شکار ہوئے۔ ہر دس لاکھ فلائٹس، جو مغربی ممالک کے تیار کردہ جہازوں نے کیں، ان میں حادثات کی شرح 0.41 رہی جس کا مطلب ہر چوبیس لاکھ فلائٹس میں سے ایک حادثے کا شکار ہوئی۔

2014 میں مرنے والوں کی تعداد 614 ہو گئی اس میں ملیشیا ائر لائن کی پرواز 370 بھی شامل ہو گئی جس میں 239 مسافر لقمہ اجل بن گئے۔ اس کے باوجود ایاٹا کے باقی ممبران میں شرح حادثہ صرف 0.12 یعنی ہر تراسی لاکھ پروازوں میں ایک حادثہ۔ فضائی حفاظت کا یہ معیار ہمیشہ ایسا نہیں تھا بلکہ اگر ہم شروع کا دور دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ 1912 میں امریکہ میں ہر چودہ میں سے 8 پائلٹ حادثوں میں مر جاتے اور آرمی ہوابازی میں شرح اموات تو تقریباً 25 فیصد تک تھی۔

ہوابازی میں انتہائی حفاظت کا یہ معیار اس صنعت میں موجود میں کام کرنے والوں کے متعین کردہ اصول و ضوابط پر عمل درآمد کرنے کی عکاسی کرتا ہے اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی ناقابل برداشت سمجھی جاتی ہے۔ ہوابازی میں اس کامیابی کی کئی وجوہات ہیں جن میں تیز رفتار ٹیکنیکل ترقی کے ساتھ ساتھ ائر لائنز کا اپنی ساکھ کو نقصان کا ڈر، دوسروں سے مسابقت اور اپنی انشورنس کی لاگت کو کم رکھنا جیسے اقدامات شامل ہیں لیکن سب سے اہم وجہ اس انڈسٹری کا اندرونی کلچر اور طریقہ کار ہے جس میں انسانی غلطیوں کی فوری نشاندہی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ ان کا تدارک کیا جا سکے۔ اس لیے کہ تمام ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ناکامی یا غلطی کو چھپانے یا اس کو کوئی اور رنگ دینے کی بجائے اس سے سیکھا جائے۔ اور ناکامی سے سیکھنے کا کلچر اس انڈسٹری کی بنیادی ساخت کا ایک جزو لاینفک بن چکا ہے۔ کیا وطن عزیز میں بھی ایسا ہے؟ ہم ذرا اس پر تھوڑی دیر میں روشنی ڈالیں گے۔

ہر جہاز میں دو بلیک باکس ہوتے ہیں جن میں سے ایک ان تمام ہدایات کو ریکارڈ کرتا ہے جو جہاز میں موجود الیکٹرانک سسٹم وصول کرتا ہے اور دوسرا کاک پٹ ریکارڈر جو حادثے کی صورت میں تفتیش کاروں کو ریکارڈ ہونے والی بات چیت کے ذریعے پائلٹس کی سوچ سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح ناکامی کو چھپانے یا ہیرا پھیری کی بجائے ہوابازی کے شعبے کے پاس ایک ٹریجڈی میں بھی سیکھنے کے لیے مواد موجود ہوتا ہے۔ اس طرح حادثے کی صورت میں تفتیش کاروں کو، جو کہ ائر لائنز، پائلٹ یونین اور ہوابازی کے ریگولیٹر سے آزاد ہوتے ہیں، تمام شواہد بشمول جہاز کے ملبہ کی پڑتال اور عملے سے بات چیت کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔

متعلقہ افراد اور اداروں کو تعاون کا ہر موقعہ فراہم کیا جاتا ہے کیونکہ ہوائی حادثوں کی تفتیش سے حاصل کردہ شواہد کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیے جا سکتے۔ عدالتی کارروائی کے خوف سے آزادی دراصل تعاون کو یقینی بنا دیتی ہے۔ تفتیش کے بعد مکمل رپورٹ جاری کر دی جاتی ہے جس تک ہر شخص کی رسائی ہوتی ہے۔ قانونی طور پر ہر ائر لائن ان سفارشات پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہے اور دنیا کے ہر پائلٹ کو اس رپورٹ اور ڈیٹا تک مفت رسائی ہوتی ہے۔

اس طرح دنیا کی ہر ائرلائن کا ہر پائلٹ اور دوسرے عملہ اس حادثے سے سیکھتا ہے اور سیکھنے کا یہ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت اور اداروں کا حصہ بن جاتا ہے۔ بات صرف حادثوں تک نہیں محدود، بلکہ ہر پائلٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر غیر متوقع اور ممکنہ خطرناک صورت حال (near miss) وغیرہ کے بارے میں رپورٹ فائل کریں گے اور یہ کہ دس دن کہ اندر رپورٹ کرنے پر ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔ آج کل تو اچھی ائر لائنز نے مسافروں کی حفاظت میں بہتری کے لیے ہزاروں دوسرے اقدامات اٹھائے ہیں جن کہ ذریعے پرواز کے دوران ہی کسی غلطی کی فوری نشاندہی اور اس کا تدارک ممکنات میں شامل ہے۔

اب اگر ہم اپنی قومی پرچم بردار یعنی پی آئی اے کی کار کردگی پر نظر ڈالیں اور میں آج صرف حفاظتی معیار اور اس سے متعلقہ گورننس کی بات کروں گا۔ پی آئی اے جو کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ائر لائنز میں شمار ہوتی تھی اور جس نے کئی دوسری ائرلائنز کو شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اب صرف اپنے اچھے دنوں کا سایہ معلوم پڑتی ہے اور وطن عزیز کی عمومی صورت حال کی عکاسی کر رہی ہے۔ سیاست میں پڑے بغیر جب اس کی حفاظتی کارکردگی دیکھیں تو ہمیں اس میں ہونے والے مہلک حادثات کے ساتھ ساتھ ممکنہ مہلک حادثات یعنی ( (near missess کو بھی پرکھنا ہو گا اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پی آئی اے میں ان واقعات کی تفتیش کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں آئیں۔

سلور نیٹ ( ( silver Nate کی 2017 میں FiveThirtyEight.com پر شائع کردہ رپورٹ جس کے مطابق سنہ 1985 اور 1999 کے درمیان پی آئی اے میں کل 29 حادثات ریکارڈ ہوئے جن میں سے 11 مہلک ثابت ہوئے اور ان میں 861 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تقابل کے لئے اسی عرصے میں کولمبیا کی ایوینکا ائر لائن Avianca میں 16 واقعات ہوئے جن میں 10 حادثات مہلک تھے جن میں 1043 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان دونوں ائرلائنوں کا مقابلہ سنہ 2000 سے 2014 کے درمیان کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پی آئی اے میں اس مدت کے دوران کل 38 حادثات ہوئے جن میں 8 مہلک اور 175 افراد اپنی جانوں سے گئے جبکہ اس عرصے میں کولمبیا کی ائرلائن میں کوئی حادثہ ریکارڈ نہیں کیا گیا اور کوئی جان ضائع نہیں ہوئی۔

سنہ 2014 سے اب تک پاکستان میں ہوابازی کے شعبے میں پانچ بڑے حادثے ہو چکے ہیں جن میں سے تین میں پی آئی اے ملوث تھی ( 2013 میں اومان میں ائرپورٹ پر حادثہ، 2016 میں چترال سے اسلام آباد والی فلائٹ حویلیاں کے پاس گر کر تباہ ہو گئی اور 47 مسافر جن میں جنید جمشید شامل تھے، جاں بحق ہو گئے اور پھر 22 مئی 2020 کا حالیہ حادثہ جس نے 107 / 6 زندگیوں کو نگل لیا) ۔

کیا آپ میں سے کسی کو سنہ 2016 میں ہونے والے سانحے کی تفتیشی رپورٹ کا علم ہے یا یہ کہ اس حادثے کے اسباب کیا تھے یا اس کے بعد پی آئی اے نے اس سے کیا سبق سیکھا یا کسی اور حادثے کی رپورٹ شائع ہوئی ہو اور اس پر کسی اسمبلی میں بحث ہوئی ہو یا پاکستان کی تاریخ میں ہو ے والے کسی بڑے واقعات کی تفتیشی رپورٹ شائع ہوئی ہو؟

چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ 1971 سقوط ڈھاکہ کے بعد حمود الرحمان کمیشن رپورٹ، کارگل کے واقعات کی تفتیشی رپورٹ، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ جو جنوری 2013 میں وزیراعظم کو پیش کی گئی، اس سے پہلے مشرف دور میں جی ایچ کیو اور نیوی اور فضائیہ کی تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملے اور انتہائی قیمتی اثاثوں اور جانوں کا نقصان، 2014 میں پشاور میں سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 150 افراد کی ہلاکت جن میں کم از کم 134 بچے تھے، اکتوبر 2019 میں کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام میں لگنے والی آگ اور 75 سے زاہد افراد کی ہلاکت۔

یہ فہرست لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ ان اہم واقعات کے بعد کوئی تفتیشی عمل شروع ہو، اس عمل سے کن عوامل کی نشاندہی ہوئی اور کس طرح مختلف اداروں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں کس طرح ان سفارشات پر عمل کیا؟ آپ کو شاہد ہنسی آ رہی ہو لیکن میرا رونے کو دل کر رہا ہے۔ اس فہرست کو لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ انسانی رویوں کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کے لئے سب سے زیادہ انحصار ان کے ماضی کے رویے پر ہوتا ہے۔ کسی معاشرے کے اداروں کا رویہ اس کے باسیوں کی عادات کا غمازی ہوتا ہے۔ پی آئی اے بھی پاکستانی معاشرے کا ایک ادارہ ہے اور اس میں پائے جانے والے رویے ہمارے عمومی رویوں کا عکس ہیں۔ اس لیے اس حادثے اور اس کی تفتیش کے تناظر میں یہ کہنا کافی ہو گا کہ باکمال لوگ لاجواب سروس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments