ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں



ہم کچھ عجیب سہی پر زندہ قوم ہیں صاحب۔ ہمارے ہاں شام شام غریباں تو صبح صبح عید کے شادیانے بجتے ہیں۔ ایک دن صف ماتم بچھی ہو تو دوسرا دن دھمال ڈال رہے ہوتے ہیں۔ حالیہ چند دنوں کو ہی دیکھ لیجیے، کرنل صاحب کی بیوی سے پی آئی اے کے حادثے تک اور چاند نکلنے کی خوشی سے لداخ میں دو پڑوسی ملکوں کی دھکم پیل اور ہاتھا پائی تک۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ ہم جیتتے جیتتے کب ہار جائیں نہیں معلوم اور ہار کب جیت میں بدل دیں اس سائنس کو سمجھنے کے لئے دشمن بھی سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔

ہماری تاریخ ایسی انہونی داستانوں سے عبارت ہے۔ کرکٹ کو ہی لے لیجیے، ہمارے مزاج کی بہترین عکاسی کرتا ہمارا محبوب کھیل بھی خود ہم پر حیران ہوتا ہو گا۔ لوگ جیتننے کے لئے میدان میں اترتے ہیں ہم ہارنے کے لئے بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ لوگ میدانوں کے اندر کھیلتے ہیں ہم باہر پوری گیم سیٹ کر لیتے ہیں۔ جہاں جیتنے پر مخالفین اپنے ساتھیوں کو مبارکبادیں دیتے ہیں ہمارے کھلاڑی ایک دوسرے پر جیت دلوانے کے شک میں مبتلا رہنے لگتے ہیں۔

طرز سیاست پہ بھی نظریں ڈالیے۔ سیاست تو خیر کھیل ہی مشکل ہے اور مشکلوں سے کھیلنی والی قوم کو اس سے کیا فرق پڑے گا کہ چال ان کے حق میں چلی گئی ہے یا کہ ان کے خلاف۔ ایک ہی شخص کی گالم گلوچ سے تواضع کرنے کے بعد جانے کب ہم اسے ہار ڈالے کندھوں پر اٹھائے ڈھول پیٹتے، لڈیاں ڈالتے مسند اقتدار پر براجمان کر دیں۔ ہماری مرضی۔ کس کو حب الوطنی کا تمغہ عطا کرنا ہے اور کس کو غدار اعظم کہنا ہے یہ فیصلہ بہرحال ہم خود ہی کرتے ہیں بس رہنمائی لینی ہو تو ہم مطالعہ پاکستان بنانے والی کمپنی کی مختلف دکانوں سے حسب ضرورت سامان اٹھا لیتے ہیں۔

سامان کی گارنٹی پر کون یقین نہ کرے بھلا۔ کمپنی کا نام ہی کافی ہے۔ ایک منٹ ایک منٹ۔ ۔ ۔ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ کمپنی سے مراد۔ ۔۔۔؟ جی نہیں بالکل بھی نہیں۔ محکمہ زراعت کا اس سے تعلق بنانے کی ناکام کوشش مت کیجیے گا۔ اس محکمہ نے ملک کے چپے چپے پر فصلیں اگائی ہیں اور کامیابی سے حفاظت بھی کی۔ بنگلہ دیش آج اگر ترقی کر رہا ہے تو اس کا سہرا بھی ہماری زرعی پالیسیوں کو جاتا ہے۔ ہم نے کاشت اچھی کی تھی اس لئے آج تک اس کا پھل کھایا جا رہا ہے۔ رہا سوال حفاظت کا تو وہ کوئی چپہ نہیں تھا۔ بہت بڑا ملک ہے۔

خبردار اگر کسی نے سیاچن کے بارے میں سوچا۔ وہ کسی محکمہ نے نہیں، ہماری حکومت نے تحفہ دیا تھا اور دور اندیشی دیکھیے کہ آج لداخ میں ہمارا دوست ملک داخل ہو چکا ہے۔ لیکن حکمت عملی کو کون سمجھے۔ راقم کہیں زباں درازی کا مرتکب نہ ہو جائے اس لئے بات بدل دیتے ہیں۔

ہم سا انسان دوست بھی زمانے میں نہیں ہوگا۔ ہم ایدھی سے فقیروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ مال و دولت کو تو خیر چھوڑیے ہم نے تو بچے تک ایدھی صاحب کے ڈبوں میں ڈال دیے بغیر نام و پہچان ظاہر کیے کہ کہیں ایدھی صاحب اسے احسان ہی نہ سمجھ بیٹھیں۔ لیکن ہم چاہیں تو ایدھی جیسوں کو ملحد و کافر بھی قرار دے سکتے ہیں، ناجائز بچوں کا باپ کہہ کر ایک پاپ کا الزام لگا سکتے ہیں۔

صاحب ہم من موجی لوگ ہیں۔ رحم دلی پر آ جائیں تو قاتل کو سچا عاشق ثابت کر سکتے ہیں، قتل کو بنیادی حق بنا سکتے ہیں، ضرورت ہو تو جیلوں سے چھڑا سکتے ہیں اور یہاں تک کہ عدالتوں کے اندر اور باہر اس کے حق میں بلترتیب گواہی اور احتجاج بھی کر سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو اپنی اپنی عدالتیں کہیں بھی لگا سکتے ہیں۔ کسی درسگاہ کی عین درمیان دین کی سر بلندی کے لئے کسی مشعال کو سبق سکھانا بھی بھلا کوئی مشکل کام ہے، ہم تو گورنر کو بھی اسی کے گارڈ سے جہنم واصل کرنے والے کو غازی اور عدالتوں سے سزا پانے پر شہید بھی قرار دے سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کا مزار شریف بھی تعمیر کروا سکتے ہیں۔

ہم بڑے ضدی لوگ ہیں۔ ایک بار ٹھان لیں تو سلمان خان کا باپ بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پھر ہم کسی کی نہیں سنتے۔ عدالتیں یہ فیصلہ کریں کہ توہین مذہب نہیں ہوئی تو ہمیں خوشی نہیں ہوتی بلکہ غصہ آتا ہے۔ اور غصہ بھلے کہیں عقل کا دشمن مانا جاتا ہو ہمارے ہاں مردانگی کی علامت اور غیرت کی دلیل سمجھا جاتا ہے اور اس پہ خوش ہونا چاہیے۔

اب بات غصے سے خوشی کی طرف آ ہی گئی ہے تو ہم خوشیاں کہیں سے بھی نکال لیتے ہیں۔ دنیا جن باتوں کو لے کر پریشانی میں مبتلا ہے وہ ہمارے لئے خوشی کا باعث ہیں۔ اس لئے بھی کہ دشمن کی پریشانی پر خوش ہونا فطری امر ہے۔ اور دنیا ہماری دوست ہونے سے تو رہی کہ دوست تو ہم اپنے خود بھی نہیں ہیں۔ لہذا دشمن کی پریشانی پر خوش ہونا حق ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہو یا لندن میں بم دھماکے، روس کا جہاز گرے یا فرانس میں خود کش پھٹ جائے، بھارت میں سیلاب سے تباہی ہو یا جاپان میں زلزلہ، دشمن ہی نیست و نابود ہو رہا ہے۔

اب کرونا کو ہی لے لیجیے۔ امریکہ ملعون سمیت پورا یورپ اور چین تک قدرت نے مزا چکھایا ہے کافروں کو۔ ۔ ۔ اس پر خوش ہونے میں برا کیا ہے بھلا؟ ہمارے ملک میں کچھ نہیں ہوا، یہ تو ہماری حکومت چالاکی سے پیسے بٹورنے کے چکر میں ہے ورنہ کرونا کو کیا لگے ہم سے۔ یہ تو کافروں کے لئے ہے۔ ہاں اس بات کی پریشانی ضرور ہے کہ حکومت ان پیسوں سے کہیں ہسپتالوں پر ہی خرچے نہ شروع کر دے۔ ہمیں غزوہ ہند کی طرف بھی بڑھنا ہے اس کی تیاری کے لئے ایمان کی بھرپور طاقت کو جلا بخشنے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

اور آخری بات یہ کہ چین اور بھارت کے درمیان متوقع جنگ سے جو خوشی من حیث القوم ہمیں حاصل ہوئی ہے اس کا تو ٹھکانہ ہی کوئی نہیں۔ ۔ آخر ہمارے آدھے گھنٹے دھوپ میں کھڑا ہو کر اظہار یکجہتی کی ریاضت رنگ لائی۔ اگلی تحریر تک ممکن ہے چین بھارت کو کشمیر سے نکال کر ہماری بہادر افواج کے حوالے کر دے۔ اور بالآخر کشمیر نے پاکستان بھی تو بننا ہے۔ تو پھر خوشی خوشی مل کر گائیے

”ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments