کرونا، ڈاکٹر اور عوام


ہسپتال سے مسلسل 24 گھنٹے ڈیوٹی کر کے ابھی ہاسٹل پہنچا ہی تھا، نا سونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں، بنا کچھ کھائے پیے، میں بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا، ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ میسیج آیا، میں نے دیکھا کہ میرے سینئر ڈاکٹر تحسین کا میسیج تھا، میں نے کھول کر پڑھا، اس پر لکھا تھا کہ ”شافع بڑے بھائی فوت ہو گئے ہیں“ (انکے بڑے بھائی کرونا وائرس سے متاثرہ تھے اور وینٹی لیٹر پر تھے ) ، میں نے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی، اب نیند پھر مجھ سے روٹھ چکی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں گلا پھاڑ کر چیخوں، لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔

میں نے سوچا کہ فیس بک ہی سکرول کر لیتا، لیکن ایک انہونے خوف کی وجہ سے نا کر سکا۔ اس خوف کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے فیس بک کا اکاونٹ دس سال پہلے بنایا تھا، ان دس سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سے ڈر لگنے گیا ہے۔ اب میں جب بھی فیس بک سکرول کرتا ہوں تو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کو کرونا ہو گیا، فلاں ڈاکٹر کرونا سے جان کی بازی ہار گیا، خیبر پختونخوا کی نرس کرونا کی وجہ سے انتقال کر گئی، میڈیکل سٹوڈنٹ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا، مجھے گزشتہ 24 گھنٹوں میں اس فیس بک نے تین ڈاکٹر، ایک نرس اور ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کی وفات کی خبر دی ہے اور یوں مجھے فیس بک سے مزید ڈر لگنے لگ گیا ہے۔

وطن عزیز کے تمام ڈاکٹرز اور ان کی تنظیموں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ عید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی مت کریں، لیکن حکومت نے تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، اوپر چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے ”عوام نے صرف عید پر نئے کپڑے پہننے ہوتے ہیں“ لاک ڈاؤن ختم کروا دیا، قوم جو بھوک سے مر رہی تھی، بازاروں پر ٹوٹ پڑی، اس غلطی کی سزا ڈاکٹرز بھگت رہے ہیں جو ادھر ادھر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئی جا رہے ہیں۔

باوجود اس کے، آپ ڈاکٹرز کا حوصلہ بندھاتے، الٹا ان کے خلاف گھٹیا مہم شروع کر دی گئی، کہا گیا کہ ڈاکٹرز کرونا کے مریضوں کو چیک نہیں کرتے، کرونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر خود مار دیتے ہیں، بعد میں ان کے گردے بیچتے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹرز کی تضحیک کی جا رہی ہے، ان عقل سے عاری لوگوں سے کوئی پوچھے، اگر ڈاکٹر کرونا کے مریض نہیں چیک کر رہے، تو انہیں کرونا کیسے ہو رہا؟ اگر کرونا کے مریضوں کو مار کر یہ ڈالر لے رہے ہیں تو خود مر کر انہیں ڈالروں سے اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں؟

ایک طرف ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے، جو کہ کرونا کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کر رہا ہے، اور دوسری طرف پبلک ہے، جو کہ ابھی بھی اس کو ایک ڈرامہ اور یہودی سازش سمجھتی ہے۔ یہ عوام عجیب ہے، جب وبا شروع میں تھی، انہوں نے نام نہاد لاک ڈاؤن ہر عمل کیا، ماسک پہنے، بازار بند کیے، اجتماعات بھی نہیں ہوتے تھے، بے وقت اذانیں بھی دیں، لیکن جیسے ہی وبا اپنی انتہا کو پہنچی، اس قوم نے ماسک پہننا چھوڑ دیے، بازار کھل گئے، اجتماعات ہونے لگ گئے، شاپنگ رج کے کی، ٹرانسپورٹ کھل گئی، کرونا بذات خود اس قوم کی عقل و دانش پر ماتم کر رہا ہو گا۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی انکاری مرحلے میں ہے، جو ابھی بھی یہی سمجھتی ہے کہ کرونا ہے ہی نہیں، ڈاکٹرز جھوٹ بول رہے ہیں۔

عید پر شاپنگ کرنے کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جس پبلک نے سمندر نے شاپنگ کا رخ کیا تھا، اب وہی بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری کی علامات لیے ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا رخ کر رہی ہے، پنجاب کی حد تک، تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں فل ہیں، آئی سی یو بھی مریضوں سے بھر چکے ہیں، وینٹی لیٹر تھے، وہ مریضوں کو لگ چکے، اب وینٹی لیٹر کے لیے مریضوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے، ہسپتالوں میں لواحقین وینٹی لیٹر کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اب بندہ انہیں کہے کہ اور کرو شاپنگ!

پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے اتنے نئے کیس آئے ہیں، جو کہ اٹلی، سپین اور چین کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، 78 لوگ اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں، لیکن بازاروں میں اسی طرح رش ہے، اس وقت سے ڈریں جب یہاں بھی اٹلی کی طرح دن میں سینکڑوں اموات ہوں گی اور ڈاکٹرز چاہتے ہوئے بھی آپ کی جان بچا نہیں پائیں گے۔

ڈاکٹرز حفاظتی سامان نا ہونے کے باوجود بھی کرونا کے مریضوں کو ڈیل کر رہے ہیں، اس عمل میں وہ خود کرونا کا شکار ہو رہے ہیں، میرے اپنے کئی سینئر ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہو کر قرنطینہ میں چلے گے ہیں۔ کچھ ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں، جو اپنے خاندان کے اکلوتے کفیل ہیں، انہیں اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو ان کے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ ان کی پریشانی بالکل جائز ہے۔ میرے بڑے بھائی جیسے سینئر، ڈاکٹر ارسلان کی کرونا وارڈ میں ڈیوٹی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے ملے ایک مہینے سے زائد دن ہو چکے ہیں، اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

ہم آٹھ دوستوں کی ڈیوٹی الائیڈ ہسپتال میں ہے، وارڈ مختلف ہیں، جب بھی کسی کی ڈیوٹی ہے، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اس دوست کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے، یہ ہماری نہیں ہر ڈاکٹر کی کہانی ہے۔

مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے، میں اس ڈر کی وجہ سے باہر نہیں جاتا، اجتماع میں نہیں جاتا، بازار گئے ہوئے عرصہ ہو گیا، لوگوں سے نہیں ملتا، ہر وقت ماسک پہنتا ہوں، ہاں اگر یہ سب اختیار کرنا بزدلی ہے، تو ہاں میں بزدل ہوں، ڈرپوک بھی ہوں، مجھے اس کرونا کی وجہ مرنے سے ڈر لگتا ہے، میں جب بھی ڈیوٹی کرنے ہسپتال جاتا ہوں، میں دعائیں پڑھ کر جاتا ہوں۔ شاید ہر ڈاکٹر آج کل یہی کر رہا ہے۔

میں اب جب کرونا سے لڑتے کسی ڈاکٹر کی وفات کی خبر سنتا ہوں، میں روتا ہوں، اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں، میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوں، انھی سنبھلتا ہی ہوں تو ایک اور افسوسناک خبر آ جاتی ہے، میں پھر ٹوٹ جاتا ہوں، تین ہفتوں سے یہی کیفیت ہے، کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جو ڈاکٹرز چلے گئے، انہیں شہید کہنا کتنا آسان ہے، کیا شہید کہنے سے کیا ان کے گھر والوں کے غم آسان ہو جائیں گے، شاید اس بات کا جواب نفی میں ہے۔

میرا ارباب اختیار سے سوال ہے، حفاظتی اقدامات نا ہونے کی وجہ سے جو ڈاکٹرز مر رہے ہیں، اس کی ایف آئی آر کس کے خلاف کٹوائی جائے؟ ان کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا کیسے کیا جائے؟ کیا ڈاکٹرز، نرسز کی زندگیاں اتنی سستی اور بے وقت ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ڈاکٹرز پر نہیں، ان کے خاندان والوں پر ہی رحم کر لیں۔ میری حکومت، چیف جسٹس سے اپیل ہے خدارا ڈاکٹرز کی حالت پر رحم کریں، فی الفور لاک ڈاؤن کا اعلان کریں، اجتماعات، پبلک ٹرانسپورٹ پر دوبارہ پابندی لگائی جائے، بازاروں کو بند کیا جائے۔ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اگر ہم نے ایمرجنسی اقدامات نا کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔

میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ خدارا ہم پر نہیں تو خود پر ہی رحم کر لیں۔ یہ شاپنگ، سینما دیکھنا اور دیگر تفریحات کرونا کے ختم ہونے تک مؤخر کر دیں۔ ہم پر ترس نہیں آتا تو اپنے پیاروں پر ہی ترس کھا لیں۔ گھروں میں بیٹھیں، ماسک پہنیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کر لیں۔ ہاں! اگر آپ کو اب بھی یہ سب کچھ ڈرامہ اور یہودی سازش لگتی ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں۔ وہ آپ جیسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو کہ کرونا کو ڈرامہ کہتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کرونا سے ڈر لیں ورنہ ہماری داستان نا ہو گی داستانوں میں۔

تحریر۔ ڈاکٹر محمد شافع صابر

تحریر کی وجہ۔ میرے سینئر بھائی، ڈاکٹر تحسین کے بڑے بھائی کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ان کا غم ان کی آواز میں واضح تھا۔ اللہ ان کے مرحوم بھائی کی مغفرت کرے، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments