کتابیں پڑھنے کا نقصان


”علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے حاصل ہوتا ہے“ ۔ ہم اس نو جوان کی بات سن کر سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ وہ دوبارہ گویا ہوا، ”آپ مسلمان ہیں۔ آپ قرآن کے ہر حرف پر ایمان رکھتے ہیں۔ آپ کو یقین ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں جو بھی لکھا ہے، وہ حق اور سچ ہے۔ پھر آپ غور کیوں نہیں کرتے کہ اسی قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ اس قرآن کو پڑھ کر کثیر تعداد میں لوگ گم راہ ہو جائیں گے؟ جی، جی، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ قرآن میں لکھا ہوا ہے، اسے پڑھ کر بہت سارے لوگ گم راہ ہو جائیں گے۔ یہ مومنین کے لیے ہدایت ہے، فاسقین کے لیے نہیں“ ۔

یہ بیس بائیس سال کا نوجوان جسے دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ سوائے سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کے، اسے کچھ بھی سمجھ بوجھ نہ ہو گی، ہمیں حیران کر رہا تھا۔ ہم دراصل اس کے ابا کے دیرینہ دوست تھے۔ یہ نوجوان امریکہ پڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا اور بعد مدت کے گھر لوٹا تھا۔ ہم نے سوچا اصغر اب ولایت سے پڑھ کر آیا ہے تو خاصہ بدل گیا ہو گا۔ منہ بگاڑ کر انگریزی بولتا ہے، پیوند زدہ قمیص اور پتلون لگاتا ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، ہر وقت موبائل میں گھسا رہتا ہے، تو خیالات بھی مغربی ہوں گے۔ مگر قرآن پر ایسی بات کہہ کر اس نے ہمیں اچنبھے میں ڈال دیا تھا۔ بولا:

”انکل، اپنے بچوں کو کتابی کیڑا مت بنائیں۔ یہ کتنے ہی بڑے اسکول میں کیوں نہ پڑھتے ہوں، انہیں اچھے اساتذہ نہ ملے تو یہ زندگی کو کبھی سمجھ نہیں پائیں گے۔“

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں، اک بحر رواں کی طرح بولتا رہا، اور ہم مبہوت سے سنتے رہے۔ اس کے ابا تو اتنے سمجھدار نہیں تھے، یہ اصغر کہاں سے ایسے فلسفے لے آیا تھا۔ اور وہ بھی امریکہ سے۔

کہنے لگا، ”انکل، اللہ نے نبی سوا لاکھ بھیجے ہیں، اور کتابیں صرف چار۔ وہ بھی اس لیے کے انبیا کی تصدیق کریں۔ آپ قرآن پڑھ کر دیکھ لیں، اللہ قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہے محبوبﷺ، آپ رسول ہیں۔ اللہ خود کہتا ہے، مجھ سے محبت ہے تو رسولﷺ کی اتباع کرو۔ انکل، علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے۔ بغیر استاد کے کتابیں کھنگالنا ایسا ہی ہے جیسے بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے میڈیکل اسٹور چلے جانا، اور پھر اندھا دھند کوئی بھی دوا اٹھا کر پی لینا۔ ممکن ہے وہ دنیا کی بہترین دوا ہو، مگر عین ممکن ہے کہ یہ دنیا کی بہترین دوائی آپ کے لیے زہر قاتل ثابت ہو“ ۔

اصغر کی بات ناقابل فراموش تھی۔ مگر ہماری حیرت اس بات پر دو چند ہوتی جاتی تھی کہ یہ باتیں اصغر کے منہ سے سن رہے تھے۔ یہ کسی مسجد کا حافظ یا امام نہیں تھا، یہ کسی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں تھا، یہ تو ولایتی تعلیم و رواج میں پلا بڑھا ایک نوجوان تھا۔ یہ تو کسی اور ثقافت میں رہا تھا۔ یہ تو منہ بگاڑ کر انگریزی بولتا تھا۔ عجیب زیبائش میں ملبوس تھا۔ یہ کیسی باتیں کر رہا تھا۔ ہم سے رہا نہ گیا، پوچھ ہی لیا:

”اصغر بیٹے، یہ باتیں کہاں سے سیکھیں“ ؟

کہنے لگا، ”انکل، بے میسری بڑی ظالم ہے۔ اپنوں کی قدر ان کے کھو جانے کے بعد ہوتی ہے۔ اپنی ثقافت اور اپنے دین کی کمی بھی کم یابی میں ہی محسوس ہوئی۔ پریشان تھا۔ قرآن پڑھتا تھا تو سکون ملتا تھا، پر سمجھ کچھ نہیں آتا تھا۔ پھر قرآن میں لکھا دیکھا کہ جب الجھ جاؤ تو اہل ذکر سے سوال کرو۔ اہل ذکر کا مل جانا، اللہ والے کا مل جانا، استاد برحق کا مل جانا بڑی خوش قسمتی ہے انکل۔ اللہ والوں کا رنگ ہی عجیب ہوتا ہے۔ اللہ والوں کو دیکھ لو تو اللہ نظر آ جاتا ہے، یعنی اللہ کی پہچان ہو جاتی ہے، عرفان مل جاتا ہے۔ وہی قرآن جو کئی دفعہ پڑھا ہو، وہ ایسے سمجھ آنے لگتا ہے جیسے خود خدا سمجھا رہا ہو۔ آپ یہ دیکھ لیجیے، ہمیشہ سے سمجھتا تھا کہ آدمؑ اس لیے مسجود ملائکہ ٹھہرے کہ ان کے پاس علم تھا۔ بعد میں احساس ہوا، ان کے پاس تو فقط چند چیزوں کے ناموں کی معلومات تھیں۔ اور جب آدم کو سجدے کا حکم ہوا، تب تو یہ معلومات بھی آدمؑ کے پاس نہ تھیں انکل۔ پھر سمجھ آیا کہ معلومات کا غنی ہونا اور علم کی آشنائی بہت مختلف باتیں ہیں۔ علم تو عرفان کی پہلی منزل ہے۔ اور علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے انکل۔ استاد برحق مل جائے تو رومی و اقبال پیدا ہوتے ہیں۔ استاد علم و عرفان کے بجائے معلومات زدہ ہو تو پھر جھوٹے پیر کی طرح انسان کا بیڑا غرق کر دیتا ہے“ ۔

”مگر اصغر بیٹے، امریکا میں رہتے ہوئے، اپنی ثقافت سے محبت کیسے ہوجاتی ہے؟“ ہم نے اشتیاق سے پوچھا۔ ہمارے ہاں تو بچوں کا ولایت جانا ان کا ہاتھ سے نکل جانا مانا جاتا تھا۔

کہنے لگا، ”انکل، دراصل پاکستانی عوام میں شدید شناختی بحران ہے۔ یہاں لوگ اپنی ثقافتی وراثت کبھی عربوں میں تلاش کرتے ہیں، کبھی ترکوں میں، کبھی افغان تو کبھی ہندوستان میں۔ اور پھر اپنی اپنی علاقائی روایات کو مذہب کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں، یا کبھی حسب ضرورت مذہب کا لبادہ پہن لیتے ہیں۔ میری داڑھی نہیں ہے انکل، مگر میں یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ داڑھی سنت نہیں، عرب کا رواج ہے۔ انکل، بھلا ثقافت کا بھی مذہب سے کوئی تقابل ہے؟ ثقافت تو ایلیٹ کی لونڈی ہوتی ہے۔ ثقافت کا جنم تو ہوتا ہی ایلیٹ کے گھر پر ہے۔ ایلیٹ جسے صحیح کہہ دے، صحیح مان لیا جاتا ہے۔ ایلیٹ جسے غلط گردانے، غلط گردانا جاتا ہے۔ برہمن ایلیٹ نے کہا کہ شودر کم تر ہے، سو آج تک کم تر ہے۔ بیوہ کو شوہر کی چتا پہ زندہ جلانا، یا زندگی بھر بیوہ رکھنا، یہ ثقافت ہے انکل، مذہب نہیں۔ ثقافت تو عورت سے تعلیم اور ووٹ کا حق بھی چھین لیتی ہے۔ ہر ملک، ہر بستی کی اپنی ثقافت ہے۔ ہر ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے۔ اسلام کو کسی ثقافت پر اعتراض نہیں ہے۔ مگر جب کسی ثقافت میں کوئی بات اسلامی احکام سے متصادم آ جائے تو اسے چھوڑنا فرض ہے۔ یہ شجر ممنوع کی طرح ہے انکل، آپ جنت میں جو چاہیں کریں، بس یہ ایک پھل نہیں کھانا ہے۔ نیل والوں کو نیلی ثقافت مبارک، کسی بے گناہ کو نیل بہانے کے لیے قربان نہیں کر سکتے۔ عربوں کو عرب مبارک، بیٹی کو قتل نہیں کر سکتے، عورت کو ورثے سے محروم نہیں کر سکتے، حق مہر دینا ہو گا، پاؤں کی جوتی سمجھنا چھوڑنا پڑے گا۔ انکل، جب تک اپنی روایات اور ہزاروں سال پرانی ثقافت کو ہولی کاؤ سمجھنا نہیں چھوڑتے، شناختی بحران ختم نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ ولایت نہ بھی جائیں، آپ از گروہ گوسفندان قدیم کے سوا کچھ بھی نہیں“ ۔

”مگر بیٹا، کئی نسلوں سے چلتی آ رہی روایات تو ہماری پہچان ہیں، ہمارا فخر ہیں۔ ۔ ۔“ اصغر فوراً بولا، ”انکل، جب بھی کوئی نبی اللہ کا پیغام پہنچاتا، جہلا بالکل یہی دلیل دیتے کہ ہمارے آبا سیکڑوں ہزاروں سالوں سے جس ثقافت اور رواج پر چلتے آ رہے ہیں، تمہارے کہنے پر اسے ترک نہیں کریں گے۔ انکل، مذہب ثقافت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہے۔ مذہب کی اساس ڈیوائن سورس یعنی خدا کا حکم ہے۔ ثقافت کی بنیاد تو ہمیشہ سے جہالت رہی ہے۔

ثقافت کی پہلی ارتقائی منزل جہالت کے علاوہ کیا ہے؟ چند سرداروں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ فلاں روایت اپنائی جائے گی، سارے گاؤں کے لیے وہ ثقافت بن گئی۔ انکل، یا تو فیصلہ کر لیجیے کہ اللہ کے ہونے پر آپ کو یقین نہیں ہے۔ دل گردہ پیدا کیجیے، اور برملا کہیے کہ میں ایسے رب کو نہیں مانتا جسے میری روایات پسند نہیں۔ یا پھر فہم سے کام لیجیے۔ مومن کی پہچان اس کی معلومات یا اس کی نمازیں نہیں، اس کا اخلاق، اس کی تسلیم و رضا ہے۔ اگر اللہ پر یقین ہے، تو پھر آپ کہیں بھی رہتے ہوں، آپ کے آبا نے جہالت میں کچھ بھی روایات رکھی ہوں، ہندو ہوں، عربی ہوں، افغانی یا ایرانی، آپ مسلمان بن جائیے، شناخت کا مسئلہ ختم ہو جائے گا ”۔

اصغر کی باتیں سن کر احساس ہوا، علم واقعی کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے۔ بغیر استاد کتابیں پڑھ کر صرف معلومات اکٹھی ہوتی ہیں، جو دل میں تکبر کو، جہالت کو جنم دیتی ہیں۔ اپنے علاوہ ہر کسی کا موقف ناقص نظر آتا ہے۔ اپنے جہل کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ علم کتابوں سے نہیں، استادوں سے آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments