آن لائن کلاسوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ ۔ ۔


اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق عالمی وبا کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 72 فیصد بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے، باقی 28 فیصد بچوں کا تعلق ان ممالک سے ہیں جن کی تعلیمی سرگرمیاں وبا کے دنوں میں بھی جاری رہی ہیں۔ دنیا میں چھے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ایک دن کے لیے بھی اپنے تعلیمی ادارے بند نہیں کیے ہیں ان میں بیلاروس، ترکمانستان، تاجکستان، گرین لینڈ، نکاراگوا اور پاپوا نیو گنی شامل ہیں۔

دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا گیا ہے، امید ہے کہ آہستہ آہستہ تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال ہوں گی۔ حال ہی میں دنیا کے کچھ یونیورسٹیوں اور کالجوں نے وبا کے دنوں میں اپنے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کرنے کا پلان جاری کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھر میں بھی مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسوں کا آغاز کیا ہے۔

مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں کو بچوں کی تعلیم کا احساس ہو کر آن لائن کلاسوں کا آغاز کیا ہے بلکہ ان کو اس بات کا تشویش ہے کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نیا ایڈمیشن کہیں کھو نہ جائے کیونکہ اس سے اچھا خاصا بجٹ میں کمی آ سکتی ہے۔ اس وجہ سے کوشش کر رہیں ہیں کہ کسی بھی طریقے سے طالب علموں کو انگیج کر کے مالی خسارہ کو پورا کیا جائے گا۔ پاکستان میں سرکاری اور نجی اداروں میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ تین مہینوں سے ملک میں تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں، حکومت کی جانب سے پہلے 31 مئی اور پھر 15 جولائی تک تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ملک کے بیشتر تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسوں کا آغاز کیا تھا مگر ناقص انٹرنیٹ کی وجہ سے بری طرح ناکام ہو گے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری جامعات میں تقریباً اسی فیصد غریب اور معاشی لحاظ سے کمزور طلبہ زیر تعلیم ہیں ان کے پاس دیہاتوں میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے۔ اگر کچھ دیہاتوں میں دستیاب ہیں بھی تو انٹرنیٹ سست روئی کا شکار ہے۔ اس اثنا میں طلبہ کو آن لان کلاسوں تک رسائی کیسا ممکن ہے، اور ایسے طلبہ بھی ہیں جن کے پاس سمارٹ فون، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ موجود نہیں ہے وہ ان کلاسوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟

راقم بھی ایک سرکاری یونیورسٹی میں فائنل ائر کی طالبہ ہے۔ غالباً یکم اپریل 2020 کو یونیورسٹی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے لرننگ مینیجمنٹ سسٹم متعارف کروایا گیا جس کے ذریعے آن لائن کلاسوں تک رسائی ممکن ہو گئی، اور طلب علموں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں۔ میں پہلے ہی عرض کر چکی ہوں کہ ناقض انٹرنیٹ کی وجہ سے دیہاتوں میں آن لائن کلاسوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اب سب سے بڑا چیلنج ایل ایم ایس میں خود کو رجسٹرڈ کروانا تھا۔

گاؤں میں چونکہ انٹرنیٹ کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا۔ ہم، شہروں میں مقیم رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے ایل ایم ایس میں رجسٹریشن کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب دوسرا چیلنج یہ تھا کہ ایل ایم ایس کو کیسے آپریٹ کیا جائے۔ گاؤں میں فاسٹ انٹرنیٹ تک رسائی کا ایک ہی راز ہے کہ رات دو بجے سے صبح پانچ بجے تک انٹرنیٹ میں تھوڑی سی جان آجاتی ہے، سو ہم نے بھی راتوں کو جاگ جاگ کر ایل ایم ایس پر لاگ ان کر کے اپنا ٹائم ٹیبل، لیکچرز اور مواد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اپریل کے پہلے ہفتے میں ایک دو نوٹس ایل ایم ایس کے ذریعے مل گئے اس کے بعد جب بھی ایل ایم ایس پر گئی صرف ایک ہی آپشن دکھائی دیتا ہے ”materials not available“ ۔ اس کے بعد اساتذہ سے ذاتی طور پر مواد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر یہ سب بے سود ہیں بغیر استاد کی راہنمائی کے چیزوں کو سمجھنے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔ چونکہ یہ فائنل ائر ہے تھیسس، پروجیکٹ وغیرہ پر بھی کام کرنا باقی ہے۔ ان کے لیے ریسرچ درکار ہے جو انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں حکام بالا اور ایس سی او والوں سے گزارش کرتی ہوں کہ گلگت بلتستان خصوصاً ضلع غذر میں انٹرنیٹ سروس کو فعال بنا کر طالب علموں کی مشکلات کم کرنے میں معاون کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments