موسمیاتی تبدیلی: سوات کا لذیذ آڑو بھی زیادہ بارشوں سے متاثر ہو رہا ہے


آڑو

اپریل میں آڑو کے درختوں پر پھول کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھول اگر اچھے کھلیں تو پھل شاندار ہوتا ہے۔ اگر پھولوں کو مناسب وقت نہ ملے تو پھل اتنا اچھا نہیں ہوتا۔

رواں سال بدقسمتی سے ان پھولوں کو کھلنے کا مناسب وقت نہ مل سکا۔ اس کی وجہ بے وقت، غیر متوقع اور ضرورت سے زیادہ بارشیں تھیں۔

یہ کہنا تھا کہ رحمت علی کا جو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں آڑو کے باغات اور کاروبار سے منسلک ہیں۔

رحمت علی کی بات پر اس لیے یقین کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ سوات میں مٹہ کے علاقے میں پچاس ایکٹر پر موجود آڑو باغات کے مالک ہیں اور اس کے ساتھ یہاں پھل فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔

رحمت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مرتبہ تو سردیوں میں اتنی زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جو ہم نے اس سے قبل کم ہی دیکھیں ہیں۔ دسمبر، جنوری، فروری، مارچ اور اپریل سب بارشوں ہی میں گزرے۔‘

محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال جنوری سے لے کر 14 مئی تک پاکستان کو عام حالات سے 55 فیصد زائد بارشوں کا سامنا رہا ہے۔ صرف مئی کے پہلے دو ہفتوں میں ہونے والی بارشیں 28 فیصد زائد تھیں۔

محکمے کے فوکل پرسن ڈاکٹر خالد کے مطابق مئی کے آخری دونوں میں اب درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجائے گا جبکہ مئی کے ماہ میں عام حالات سے درجہ حرارت کم ہوا کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی کینو پر موسم کے اثرات

خوراک کا ضیاع کم کرنے کے سات طریقے

کرغستان: دنیا میں اخروٹ کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز

گھر میں سبزیاں اگانا ہی خوراک کی قلت کا حل ہے؟

آڑو، موسمیاتی تبدیلی

موسمیاتی تبدیلی اور مئی کا گرمی

محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر عصمت حیات خان کے مطابق بارشوں کی وجہ سے مئی کے مہینے میں اس طرح گرمی نہیں پڑی جس طرح پاکستان میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ جنوری سے لے کر اپریل اور پھر مئی میں غیر متوقع بارشیں تھیں۔

اب یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ مئی کے اواخر اور جون میں جو گرمی پڑے گی وہ بھی عام حالات میں پڑنے والی گرمی سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ ان پہلوؤں کے پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہی موسمیاتی تبدیلی ہے۔

ڈاکٹر عصمت حیات خان کے مطابق ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان جو پہلے موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے دنیا میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے بھی اس کی درجہ بندی اوپر جارہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور جنوری سے لے کر مئی تک ہونے والی زائد بارشوں سے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

’ہماری سب سے اہم فصل گندم ہے۔ پنجاب اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں اپریل کے آخری اور مئی کے شروع کے دونوں میں گندم کی کٹائی کا موسم ہوتا ہے۔ اس سال عین کٹائی کے دونوں میں بارشیں لگنے سے گندم کی فصل کو کچھ نقصاں پہنچا ہے۔ اسی طرح کچھ اور علاقوں سے بھی گندم کی فصل کو نقصان کا خدشہ ہے۔

ڈاکٹر عصمت حیات خان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اپریل اور مئی ہمارے پھلوں کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں پھلوں کے بادشاہ آم کا سیزن ہوتا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختوںخوا میں آڑو کا سیزن ہوتا ہے۔ ان کے لیے بھی اپریل اور مئی کے مہینے اہم ہوتے ہیں۔

رواں سال ہونے والی غیر متوقع اور ضرورت سے زیادہ بارشوں سے انھیں نقصان پہنچا ہے۔

کیا سوات کا آڑو اب پہلے جیسا نہیں ہوگا؟

15 مئی کے بعد سوات میں آڑو کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔

مگر اب تک بارشیں اور بجلی کی گرج چمک جاری ہے جس کی وجہ سے درختوں پر بچا کچا پھل بھی اچھے سے پک نہیں رہا۔

خیال ہے کہ رواں سال کاشت کاروں اور زمینداروں کو نقصاں اٹھانا پڑے گا۔

محکمہ زراعت سوات میں زراعت کے افسر محمد عذیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سوات میں عموماً جنوری سے لے کر اپریل تک 1200 ملی میڑ اوسطاً بارش ہوتی ہے۔ مگر رواں سال یہ بارش پندرہ سو ملی میٹر تک پہنچ گئی تھی۔

سوات، موسمیاتی تبدیلی، آڑو

انھوں نے بتایا ہے کہ اس موسم میں اگر بارشیں اوسطاً بارہ سو ملی میٹر تک ہوں تو سوات کا آڑو اچھا ہوتا ہے۔

پھر یہ بارشیں عین اس موسم میں ہوئی ہیں جب آڑو کے درختوں پر پھول کھلنے کا موسم تھا۔

ان بارشوں کی بنا پر ان پھولوں کو نقصان پہنچا۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آڑو کی فصل شاید پہلے جیسی نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے محتاط اندازے کے مطابق فصل کا یہ نقصاں پچاس فیصد تک ہوسکتا ہے۔ مگر اس بات کی توقع ہے کہ وہ آڑو جو جولائی اگست میں تیار ہوتا ہے اس وقت موسم بہتر ہوا تو اس کو شاید نقصان نہ پہنچے۔‘

پاکستان میں کہاں کا آڑو مشہور ہے؟

ملک میں سوات کے آڑو کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن صوبہ سندھ کے علاوہ تقریباً پورے ملک میں یہ پایا جاتا ہے

گذشتہ سالوں کے دوران اس کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق سال 2014/15 میں پاکستان میں 34.60 ہزار ایکڑ کے رقبے پر آڑو کاشت ہوتا تھا۔ اس میں پنجاب میں 0.25 ہزار ایکٹر رقبہ، بلوچستان میں 15.57 ہزار ایکٹر رقبہ جبکہ سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 18.78 ہزار ایکٹر رقبے پر آڑو کاشت ہوا تھا۔

سال 2014/15 میں پاکستان میں اس کی مجموعی پیداوار 66.40 ہزار ٹن تھی۔ جس میں پنجاب میں 0.20 ہزار ٹن، بلوچستان میں 18.10 ہزار ٹن جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 48.10 ہزار ٹن رہی تھی۔

اس کے مقابلے سال 2017/18 میں آڑو کی کاشت کے لیے رقبے اور پیداوار میں اضافے کا رحجان دیکھا گیا۔ پاکستان میں اس کی کاشت کے لیے رقبہ 36.57 ہزار ایکٹر تک پہنچ گیا تھا۔

پنجاب میں رقبہ وہی رہا، بلوچستان میں اس میں کچھ کمی واقع ہوئی جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اضافے کا رحجاج دیکھا گیا۔ یہاں پر یہ رقبہ بڑھ کر 22.24 ہزار ایکٹر تک پہنچ گیا۔

سال 2017/18 میں پاکستان بھر میں یہ آڑو کی پیداوار بڑھ کر 73.90 ہزار ٹن تک پہنچ گئی تھی۔

محمد عذیر کے مطابق سوات میں دو سال پہلے تک 16ہزار ایکٹر رقبے پر آڑو کاشت کیا جاتا تھا۔ جس میں گذشتہ دو سال کے دوران کم از کم اڑھائی ہزار ایکٹر رقبے کا اضافہ ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا اتھا کہ آڑو سوات کے سب سے زیادہ رقبے پر لگایا جانے والا پھل ہے۔ شہر کی معیشت کا بڑا دارومدار آڑو پر ہے۔ یہاں کم از کم 12 اقسام کے آڑو پائے جاتے ہیں۔ ان اقسام کو نمبروں کے حوالے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

آڑو، موسمیاتی تبدیلی

ان کا کہنا تھا کہ سوات کی مٹی آڑو کے حوالے سے انتہائی زرخیز ہے۔ ’ہم اس مٹی کو قدرتی طور پر آڑو کے لیے موافق کہہ سکتے ہیں۔ جیسا لذیذ آڑو سوات میں پایا جاتا ہے، ویسا پورے پاکستان تو کیا دنیا میں بھی نہیں ہے۔ حلانکہ آڑو صوبہ خیبر پختوںخوا کے تقریباً تمام ہی اضلاع میں موجود ہے۔‘

محمد عذیر کا کہنا تھا کہ ہمارے اندازے کے مطابق سوات میں ایک لاکھ 89 ہزار زمیندار خاندان آڑو کی کاشت میں مصروف ہیں، جس کا مطلب آٹھ، نو لاکھ لوگ ہیں۔

سیزن کے دوران ان باغات میں کم از کم تیس سے لے کر دو سو لوگ مزدوری کرتے ہیں۔

رحمت علی کے مطابق سیزن کے دوران روزانہ سوات سے دو سو سے لے کر پانچ سو ٹرک ملک کے مختلف علاقوں میں آڑو لے کر جاتے ہیں۔ ایک ٹرکوں میں 20 سے 25 ٹن وزن ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ اس کے بیوپار، پیکنگ، لوڈنگ، ان لوڈنگ اور دیگر کئی شعبوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار مل رہا ہوتا ہے۔

سوات میں سیب سے آڑو کا سفر

رحمت علی بتاتے ہیں کہ سال 2000 تک ان کے باغات میں سیب کے درخت ہوا کرتے تھے۔ اس سے پہلے علاقے میں آڑو کے باغات بہت کم تھے۔ سیب سے مقامی کاشت کاروں اچھی آمدن ہوتی تھی۔ سوات کا سیب بھی مشہور ہے۔

’اس صدی کے آغاز میں جب سوات میں سردی کم پڑنا شروع ہوئی اور کاشت کاروں کی آمدن کم ہوئی تو ان کی توجہ آڑو کی طرف مائل ہوئی۔‘

’ہم نے بھی شروع میں سیب کے کچھ درخت کم کر کے آڑو کی طرف توجہ دی۔ جب ان سے اچھے نتائج ملنا شروع ہوئے تو پھر رفتہ رفتہ ہماری ساری توجہ آڑو کی طرف ہوگئی اور اب سیب کے درخت بہت تھوڑے رہ چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پورے سوات میں یہ ہی صورتحال ہے۔ ’اب سیب کے باغات کم ہوتے جارہے ہیں۔‘

محمد عزیر کا کہنا تھا کہ اصل میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سوات میں سیب کے لیے حالات اتنے موافق نہیں رہے ہیں۔ ’پچھلے سالوں کے دوران سردیاں، بارشیں اور برفباری کم سے کم ہوتی چلی گئی ہے جس کی وجہ سے کاشت کاروں کو سیب میں اچھے نتائج نہیں ملتے تھے۔ اب وہ آڑو کی طرف راغب ہوئے ہیں۔‘

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ سیب کے مقابلے آڑو میں آمدن بھی زیادہ ہے۔ سیب تو دوسرے ملکوں سے درآمد بھی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات تو درآمد شدہ سیب کی قیمت مقامی سیب سے بھی کم ہوجاتی ہے جبکہ آڑو مارکیٹ میں مکمل طور پر مقامی ہے۔ اس وجہ سے اس میں کاشت کاروں کو فائدہ ملتا ہے۔

محمد عزیز کے مطابق پچھلے کئی سالوں میں 2010 کے سیلاب اور پھر کچھ اور عوامل کی بنا پر دو، تین مرتبہ ہی کاشت کاروں کو آڑو میں نقصاں ہوا ہوگا۔ ’ورنہ آڑو کاشت کاروں سمیت اس سے منسلک تمام لوگوں کو اچھا فائدہ دیتا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سال کی بات الگ ہے۔

آڑو، موسمیاتی تبدیلی

یہ بات اب حقیقت بن چکی ہے کہ سوات کے مقامی کاشت کار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیب سے آڑو کی طرف راغب ہوئے تھے۔ اب اگر نقصان کا خدشہ ہے تو یہ بھی موسمیاتی تبدیلی ہی ہے۔

اس حوالے سے محکمہ زراعت میں بھی بات چل رہی ہے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس پر بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ کاشت کاروں کو موسم کے موافق طریقہ کار اختیار کرنے کی تربیت فراہم کرنی چاہیے۔

آڑو کاشت کاروں کے لیے متبادل فصل تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی کاشت کے لیے حالات غیر مناسب ہوسکتے ہیں۔ اور اس طرح اس کی کاشت بھی سیب کی طرح کم ہوسکتی ہے۔

آم کی فصل کو بھی نقصان پہنچا؟

ترشاوا پھلوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ آم کاشت کیا جاتا ہے۔

مینگو ریسرچ سینٹر ملتان کے مطابق پاکستان میں آم ساڑھے چار لاکھ ایکٹر رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے جبکہ اس کی اوسطاً سالانہ پیداوار 18 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔

مینگو ریسریچ سینٹر ملتان کے مطابق پاکستان میں آم سب سے زیادہ صوبہ پنجاب اور پھر پنجاب کے ضلع ملتان اور اس کے بعد رحیم یار خان اور خانیوال میں کاشت کیا جاتا ہے۔

سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حمد اللہ کا کہنا تھا کہ بے وقت اور زائد بارشوں سے آم کی فصل کو ’جھٹکے‘ لگے ہیں۔

’ہمارے اندازوں کے مطابق چونسا اور سندھڑی کی فصل کم ہوئی ہے۔ اس وقت زیادہ پھل سندھ سے آرہا ہے جبکہ امید کررہے ہیں کہ پنجاب سے مئی کے آخر میں سیزن کے شروع کے دونوں کا ابتدائی پھل آنا شروع ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آم کا سیزن ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس وقت مئی کے آخری دونوں میں موسم گرم ہورہا ہے۔ درختوں پر پھول کھلنے کے بعد جب پھل نکلتا ہے تو اس وقت گرم موسم آم کی فصل کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔ اگر موسم عام حالات کے مطابق گرم رہتا ہے تو ’ہمیں توقع ہے کہ ابتدائی نقصان کے بعد اب آم کی فصل اچھی ہوگی۔‘

لیکن محکمہ موسمیات کے مطابق اگر گرمی عام حالات سے زیادہ پڑتی ہے تو پھر اس بات کا خدشہ موجود رہے گا کہ آنے والی فصلوں میں بھی آم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp