لڑکی آؤ میری سگی دوست بن جاؤ


سوشل میڈیا ایک ایسے سماجی آئینے کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے معاشرے کے سارے اچھے برے مثبت، منفی پہلوؤں کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ سماج میں قانون دولت مند کے گھر کا باوردی ملازم ہے، انصاف چوکیدار ہے، روایات کی ٹھیکے دار وہ اشرافیہ ہے جو عوام کو خوب بے وقوف بناتی ہے۔

سماجی ادارہ شادی، جس کے بارے ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ یہ بہت مضبوط ادارہ ہے اور دشمن ہمارے اسی ادارے کو توڑنے کے درپے ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟ پچھلے ساڑھے تین سال سے سوشل میڈیا اور فیس بک کے مختلف گروپس کی چوپال میں بیٹھے مرد و زن سے بات چیت کے دوران جو پڑھا، سمجھا دیکھا اور سیکھا وہ یہ ہے کہ اکثریت سیکنڈ آپشن کی تلاش میں سرگرداں ہے، کوئی مل جائے جس سے وہ دل کی بات کہہ سکے، لائف پارٹنر کی موجودگی میں افئیرز رکھنے کی خواہش، آخر کیوں؟ گویا ہمارے یہاں شادی کی کمٹمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

پندرہ سال۔ تیرہ سال۔ پچیس سال یا پینتیس سال کی شادیوں اور جوان بچوں کے ہوتے ہوئے مرد حضرات سوشل میڈیا پر موجود خواتین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی دوست بن جائیں۔

ہمارے یہاں ایسے چپڑ قناتیے بھی پائے جاتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ خاتون اگر بے باک لکھ رہی ہے یا کوئی بولڈ پوسٹ لکھ دی یا کسی بولڈ پوسٹ پر کمنٹ کر دیا ہے تو شاید وہ ان سے بھی بولڈ گفتگو کرنے کے لیے دستیاب ہے، جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔

چند ماہ پہلے ہمارے فیس بک فرینڈ جو ایک ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں اور صحافت کی پیچیدہ راہوں پر بھی دوڑتے ہیں، اپنی وال پر لکھا کہ خواتین کولیگز کے وٹس ایپ تک کیوں پہنچ جاتے ہیں آپ لوگ؟ کیوں ایسے ویسے میسجز کر کے سارے مردوں کو بد نام کرتے ہیں؟ وہ اپنی ہی صنف کے رویے سے پریشان اور شرمندہ تھے کیونکہ وہ ایک مہذب انسان ہیں۔

میڈیا پر سامنے نظر آنے والی خاتون چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہو، ”دستیاب“ سمجھ لیا جاتا ہے۔

اسی لئے خواتین گھر سے باہر نکل کر کام کرنے سے کتراتی ہیں کہ جب گھر بیٹھے سوشل میڈیا پر ہی یہ کہا جائے ”میری سگی اچھی والی دوست بن جائیں“ ( سگی دوست بننے کا مطلب کیا ہے مجھے نہیں معلوم لیکن یہ اصطلاح میں نے سوشل میڈیا پر ہی پڑھی ہے ) گھر سے باہر تو خواتین کو نہ جانے کس کس طرح ہراساں کیا جاتا ہو گا یہ اندازہ سوشل میڈیا کے ذریعے بہ خوبی ہو گیا ہے۔

ماڈل گرل کو لوگ جسم فروش سمجھتے ہیں اور اداکارہ کو بد کردار۔

بد قسمتی سے سماج میں ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو مردوں کے اس برتاؤ کو بڑھاوا دیتی ہیں، اور صدیوں سے یہ عمل جاری ہے۔

خطے میں طوائف کے بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھنا مرد کے لئے عام بات تھی، گھر کی خواتین نے جان بوجھ کر پردہ پوشی کیے رکھی، دور حاضر میں بھی ہر طبقے کے مرد کو ایسے مواقع میسر ہیں، اور سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ویسے ہر فرد خود کو مہذب سا، مدبر سا بنا کر ظاہر کرتا ہے لیکن اتنی سمجھ نہیں ہے کہ اگر کوئی خاتون آپ کو ”سر“ کہہ کر مخاطب کر رہی ہے یا آپ کو سینئیر کہہ کر عزت دے رہی ہے تو یہ خاتون کی طرف سے شٹ اپ کال ہے کہ وہ آپ سے کسی تعلق کی خواہش مند نہیں ہے نہ ہی دوستی نہ ہی بے تکلفی۔

یہی حال خواتین کا ہے، بہت کم خواتین ہیں جو اپنی عمر کے حساب سے برتاؤ کرتی ہیں۔

توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنی وال پر بنا سوچے سمجھے کاپی پیسٹ مواد اور سرقے کی تحاریر کی بھرمار کی جاتی ہے، کچھ لکھ کر بحث کی دعوت دی جاتی ہے جب اختلافی تبصرہ کیا جائے تو ناراضی دکھائی جاتی ہے۔

یہ کہنا کہ سوشل میڈیا پر لوگ کچھ اور ہوتے ہیں اور عام زندگی میں کچھ اور، نہیں جناب ایسا نہیں ہے، معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف واقعات پر آپ کی آرا اور تبصرے ثابت کرتے ہیں کہ عام زندگی میں بھی ہمارا یہی برتاؤ ہے جب ہی تو ہمارا یہ حال ہے۔

پچھلے دنوں ہونے والے المناک ہوائی حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی بے نام و منقول پوسٹس پڑھنے میں آئیں، جن میں دینی جواز دیے جا رہے تھے کہ قوم جس میں احساس ذمہ داری کا عنصر ویسے ہی کم ہے، پڑھ کر مزید بے حس اور غیر ذمہ دار ہو جائے۔

اپنی مرضی کی ذہن سازی کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ بے نام و منقول یا عربی ناموں والی پوسٹس پھیلا دو، اوسط ذہن کے جذباتی افراد نے دھڑا دھڑ وہ پوسٹس وٹس ایپ پر بھی شیئر کیں بنا سوچے سمجھے کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔

با اثر شخصیت کی زوجہ نے ٹریفک قوانین کو ہاتھ میں لیا اس پر بھی کچھ افراد اگر مگر چنانچہ کرتے رہے، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ قانون شکنی کے کسی بھی موقع پر عوام کو دین اور اس کے سکھائے اصول و ضوابط یاد نہیں رہتے، ہر قانون شکن کو سزا ملنی چاہیے، اس بات پر زور ہونا چاہیے تھا، لیکن سوشل میڈیا پر جگتیں شروع ہو گئیں۔

ایک دولت مند خاندان کی عورت نے دوسری عورت کے گھر میں گھس کر اس کی بے عزتی کی اس پر بھی قوم گروہوں میں بٹ گئی، قانون دولت مند کا غلام ہے لیکن عوام کو تو اپنے اجتماعی رویے درست رکھنے چاہئیں، کچھ لوگ کہتے رہے، دین پر عمل نہیں ہے اس لیے ایسا ہوا، کچھ لوگ اداکارہ کی کردار کشی کرتے رہے اور کچھ فحش مذاق کرتے رہے۔

ان تینوں واقعات میں ساری بات انسانی رویوں کی ہے، غیر ذمہ داری، تکبر، اور شادی جیسے معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے یہاں عام چلن ہے، مرد خود کو شادی کے معاہدے کا پابند نہیں سمجھتا، بیوی ہوتے ہوئے دوسری خواتین سے بغیر شادی کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے ہر خاتون کو دستیاب سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں فائدہ اٹھانے والی خواتین اپنی من مانی کرتی ہیں۔

شوبز کی خواتین سے ہر فرد دوستی کرنا چاہتا ہے، یہ سوچے بغیر کیا وہ ہم سے دوستی کی خواہشمند ہے؟

بہت کم لوگ ان کو عزت دیتے ہیں، بہت کم لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہمارا دل زندگی سے لطف اٹھانے کو چاہتا ہے ویسے ہی اس دنیا میں ہر انسان کو اس زندگی سے لطف کشید کرنے حق حاصل ہے ہم کسی کے اوپر اپنے بنائے ہوئے اصول لاگو نہیں کر سکتے، ہر فرد اپنے اعمال و افعال کا خود ذمہ دار ہے۔ لیکن اجتماعی سماجی رویوں کو درست رکھنے کے لئے اور دوسروں پر جگتیں لگانے اور پابندیاں عائد کرنے سے پہلے خود آئینہ دیکھنا ہو گا۔ احساس ذمہ داری، قانونی شکنی کی مخالفت اور انسانی برتاؤ سیکھنا ہو گا۔

ہماری خواتین نہ جانے کیوں ناکام شادیاں جاری رکھنا چاہتی ہیں، گھریلو تشدد کے علا وہ دو ٹکے کے بے وفا مرد کی بے وفائی بھی سہتی ہیں، معاشی خود مختاری اور مضبوط میکے کی موجودگی میں زبردستی شادی کو برقرار رکھنے کی کوشش خود کی عزت نفس کو مجروح کرنا ہے۔

شادی ایک خوبصورت بندھن ہے اور فریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسا پہلی شرط ہے اگر یہ شرط پوری نہ ہو تو عزت سے علیحدگی بہتر ہے نا کہ پوری دینا کو تماشا دکھایا جائے۔

ملک کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، معاش کے لئے گھر سے نکلنے والی خواتین چاہے وہ کسی بھی، شعبے سے تعلق رکھتی ہوں، دستیاب سمجھنا چھوڑ دیں، خواتین نے بھی اگر سگے دوست بنانے شروع کر دیے تو معاشرے کی رہی سہی عزت دھجیاں بکھر جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments