جارج فلوئیڈ کی موت پر امریکہ میں کالے گورے کی سیاست گرم


امریکہ

امریکہ کے شہر مینیاپولس سمیت متعدد مقامات پر ایک ویڈیو کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد سڑکوں پر غم و غصہ پھوٹ پڑا ہے۔

اس ویڈیو کلپ میں ایک سفید فام پولیس آفیسر ایک غیر مسلح جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام آدمی کی گردن پر گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس واقعے کے چند منٹ بعد 46 سالہ جارج فلوئیڈ کی موت ہو جاتی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جارج اور اس کے آس پاس موجود لوگ پولیس افسر سے اسے چھوڑنے کی التجا کر رہے ہیں۔

جارج مرنے سے قبل پولیس افسر کے گھٹنے کے نیچے بار بار کہتا ہے کہ ‘پلیز، آئی کانٹ برید’ یعنی میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔

پولیس افسر ڈیریک چاون کو جارج کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا گیا ہے اور انھیں اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سے لوگ صدمے میں ہیں اور بہت ناراض ہیں جبکہ منی سوٹا شہر سمیت امریکہ کے متعدد علاقوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں مظاہرے، انصاف کا مطالبہ

ٹوئٹر کا صدر ٹرمپ پر ’تشدد کو ہوا دینے‘ کا الزام

امریکہ میں سفید فام نسل پرستی فروغ پا رہی ہے؟

نیشنل ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل نامی تنظیم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے ‘ان کے اعمال نے ہمارے معاشرے میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے جو نسلی امتیاز، زینو فوبیا اور تعصب پر مبنی ہے۔’

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم اب مرنا نہیں چاہتے ہیں۔’

جارج فلوئیڈ

TWITTER/RUTH RICHARDSON
جارج فلوئیڈ

اس واقعے کے بعد امریکہ میں نسلی تشدد کی تاریخ پر بحث ہونے لگی ہے۔ پولیس کی بربریت کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔

پولیس کے ذریعہ ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والی ایک ویب سائٹ ‘میپنگ پولیس وائلنس ڈاٹ او آر جی’ کے مطابق: ‘سنہ 2013 سے 2019 کے درمیان ہونے والے 99 فیصد قتل میں افسران کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔’

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جارج فلوئیڈ کے کنبے کی ‘دل کی گہرائیوں سے تعزیت’ کی دی ہے۔ لیکن ان کے ایک تبصرے کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘جب لوٹ شروع ہوتی ہے تو پھر شوٹ (گولی مارنا) بھی شروع ہوجاتی ہے۔’ بہر حال بعد میں انھوں نے اس کی وضاحت بھی کی۔

https://twitter.com/WhiteHouse/status/1266478323556921344

اس سے قبل اسی طرح سے کئی سیاہ فام افراد کی جان بھی گئی ہے۔

اس سے قبل 23 فروری کو مبینہ طور پر مسلح سفید فام لوگوں نے 25 سالہ احمد آربیری کا پیچھا کیا اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اسی طرح 13 مارچ کو بریونا ٹیلر کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب ان کے گھر پر ایک سفید فام پولیس افسر نے مبینہ طور پر چھاپہ مارا۔

مینیا پولس کے میئر جیکب فرائی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ‘امریکہ میں سیاہ فام برادری سے تعلق رکھنے کا مطلب سزائے موت نہیں ہونا چاہیے۔’

https://twitter.com/MayorFrey/status/1265259100327358468

سوشل میڈیا پر ‘بلیک لائوز میٹر’ اور ‘جسٹس فرار جارج فلوئیڈ’ جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں کے لیے جارج فلوئیڈ کے آخری الفاظ ‘میں سانس نہیں لے سکتا’ ایک متاثر کن نعرہ بن گیا ہے۔

پرانے واقعات

سابق صدر اور پہلے سیاہ فام امریکی صدر براک اوباما نے اپنے بیان میں ایک درمیانی عمر کے افریقی-امریکی تاجر کے بیان کو نقل کرتے ہوئے لکھا: ‘دوست، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ منی سوٹا میں جارج فلوئیڈ کے ساتھ پیش آنے والا واقعے نے تکلیف پہنچائی ہے۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی اور میں رو پڑا۔ اس ویڈیو نے مجھے ایک طرح سے توڑ دیا ہے۔’

اوباما نے کہا: 2020 کے امریکہ میں یہ معمول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کسی بھی صورت میں معمول نہیں ہوسکتا ہے۔’

https://twitter.com/BarackObama/status/1266400635429310466

اس واقعے نے ایک بار پھر امریکی معاشرے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں نسلی امتیاز کی گہری جڑوں کے متعلق بحث کو جنم دیا ہے جس کے تحت پولیس کی طرز عمل، وفاقی حکومت کے کردار اور فوجداری مقدمات کے نظام پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک میں کورونا کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور چار کروڑ افراد کی ملازمت ختم ہو گئی ہے۔ اور اس نے سماج کی اقلیتی برادری اور بطور خاص سیاہ فام لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

امریکہ میں ایک طویل عرصے سے پولیس کے ہاتھوں ہلاکتیں ایک بڑا مسئلہ رہی ہیں۔

بلیک لائوز میٹر

Scott Olson/Getty Images
مائیکل براؤن کے قتل کے ایک سال بعد میسوری کے فرگیوسن میں ایک مخصوص تقریب کا انعقاد کیا گیا

اس مخصوص طبقہ کے لوگوں کے خلاف پولیس کی بربریت کو چیلنج کرنے کے لیے سنہ 1966 میں آکلینڈ میں بلیک پینتھر پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔

مائیکل براؤن کے قتل اور ‘بلیک لائوز میٹر’ کے وجود میں آنے کے بعد اس مہم میں تیزی سے اضافہ ہوا – اس احتجاجی تحریک کا مقصد ‘سفید فام بالادستی کا خاتمہ اور سیاہ فام لوگوں کی برادری کے خلاف تشدد کے معاملات میں مداخلت کرنا تھا۔’

سنہ 2014 میں ایک سفید فام پولیس افسر نے فرگوسن میں 18 سالہ غیر مسلح مائیکل براؤن کو گولی مار دی تھی۔ اس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔

مرنے والوں کی اس فہرست میں جیمار کلارک، جیریمی میکڈول، ولیم چیپمین دوم، والٹر سکاٹ سمیت متعدد نام شامل ہیں۔

سن کر دینے والے اعدادوشمار

جنوری 2015 میں واشنگٹن پوسٹ نے پولیس فائرنگ کا ایک ڈیٹا بیس بنانا شروع کیا۔ اس ڈیٹا بیس میں اب تک چار ہزار 400 مہلک فائرنگ کے واقعات درج ہیں۔

اس ڈیٹا بیس کے ذریعے ‘پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکیوں کی بے دردی کے ساتھ ہلاکت’ کی بات سامنے آئی ہے۔

اس کے مطابق’سیاہ فام افراد امریکہ کی کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں لیکن اگر ہم پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد پر نظر ڈالیں تو وہ کل اموات کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ اور غیر مسلح افراد کی ہلاکت کی صورت میں یہ امتیازی سلوک اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے کیونکہ سیاہ فام کل اموات کا ایک تہائی حصہ ہوتے ہیں۔’

مظاہرہ

REUTERS/Stephen Lam

ڈیٹا بیس میں مندرجہ ذیل چیزیں سامنے آئیں:

  • ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کا پولیس کے ہاتھوں غیر مسلح سفید فام شخص کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہلاکت کا امکان ہے۔
  • پولیس کی گولی سے مرنے والے زیادہ تر افراد مرد ہیں۔ ان میں سے نصف کی عمر 20 سے 40 سال کے درمیان ہے۔
  • سنہ 2015 سے لے کر اب تک پولیس کی فائرنگ سے اوسطا تین افراد روزانہ ہلاک ہوئے ہیں۔

میپنگ پولیس وائلنس نامی سائٹ کے مطابق ‘پولیس نے سنہ صرف 2019 میں ایک ہزار 99 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق: ‘ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہونے کے باوجود مرنے والے 24 فیصد لوگ سیاہ فام لوگ تھے۔ سنہ 2019 میں صرف 27 دن ایسے تھے جب پولیس نے کسی کو نہیں مارا تھا۔’

مظاہرہ

Tasos Katopodis/Getty Images

زمینی حقیقت

بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے متعلق محکمہ انصاف کی سنہ 2016 کی ایک رپورٹ زمینی سطح پر بڑے پیمانے پر نسلی امتیاز کو بے نقاب کرتی ہے۔

‘افریقی امریکیوں کے خلاف امتیازی سلوک’ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی امریکیوں کو سڑک کے کنارے چلنے سے روکتی ہے۔’

‘ایک درمیانی عمر کے افریقی نژاد امریکی شخص کو چار سالوں میں تقریبا 30 بار روکا گیا تھا۔ بار بار روکے جانے کے باوجود کبھی بھی ان 30 بار روکے جانے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔

‘سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی نژاد امریکیوں کو روکتا ہے۔ بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جن پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں ان میں 86 فیصد افراد افریقی نژاد امریکی ہیں۔ اگر چہ وہ بالٹیمور کی کل آبادی کا صرف 63 فیصد ہیں۔’

سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں قتل کے وجوہات میں زیادہ عسکریت پسندی، شفافیت کا فقدان اور احتساب کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔

مظاہرہ

Elijah Nouvelage/Getty Images

کچھ ماہرین امریکی پولیس میں نسلی تنوع کی کمی کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔

سنہ 2016 کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سات لاکھ ایک ہزار کل وقتی پولیس افسران میں سے 71 فیصد سفید فام تھے جبکہ 27 فیصد افسران دوسرے تھے۔

اس سے 2017 میں ہونے والی ایک تحقیق کو سمجھنے میں کس طرح مدد ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران سیاہ فام لوگوں سے زیادہ گوروں کا احترام کرتے ہیں۔

ایک اور تحقیق کے مطابق سنہ 2016 میں سیاہ فام اور سفید فام امریکی ایک ہی شرح سے منشیات کی فروخت اور استعمال میں ملوث ہیں لیکن سیاہ فام لوگوں کو اس طرح کے معاملات میں گرفتار کیے جانے کا امکان 2.7 گنا زیادہ ہے۔

تاہم بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی زیادتی کے معاملات کا نسلی امتیاز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے لوگ ڈینیئل شیور کی مثال دیتے ہیں جنھیں ایک پولیس آفیسر نے سنہ 2016 میں قتل کیا تھا۔

30 مئی کے مناظر جب جارج کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا

30 مئی کے مناظر جب جارج کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا

مصنف ریڈلی بالکو نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا: ‘جب سفید فام کسی سفید فام کے خلاف پولیس تشدد والی ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس پر ہمیں غصہ آتا ہے، ہم اداس اور بے چین ہو جاتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ تر لوگ خود کو اس سفید فام کی جگہ نہیں دیکھتے ہیں۔

‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنجیدہ اور باوقار ہوں گے تو اس بات کا کم امکان ہے کہ ہم پولیس کے ساتھ جھڑپ میں شامل ہوں گے۔ اور اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ ہماری حالت ڈینیل شیور جیسی ہو۔

‘لیکن جب کوئی سیاہ فام شخص کوئی ویڈیو دیکھتا ہے جس میں ڈیریک چاون جیسا افسر جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر بیٹھا ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلوئیڈ کی جگہ وہ سکتا تھا یا اس کا بیٹا، بھائی یا دوست ہوسکتا ہے۔’

امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ممکنہ امیدوار کے لیے جو بائیڈن کی حمایت سیاہ فام لوگوں کے ووٹوں سے ہوئی ہے۔

اور صدارتی انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی پولیس تشدد کا یہ معاملہ انتخابی مہم کے اہم مسائل کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp