بلال احمد نورزئی اور طاہر ہزارہ کا مدلل بیان


میں متعصب ہوں نہ مجھے کسی سے کوئی ذاتی چپقلش ہے۔ تمام انسانوں کی طرح میرے احساسات و جذبات ہیں۔ میں جانتا ہو کسی حقیقت پسند لکھاری کے لئے تحریر اور حقیقت پسند مقرر کے لئے تقریر، اس وقت سخت ترین بن جاتی ہے، جب تحریر یا تقریر اس کے لسانی، سیاسی، مذہبی یا پھر دنیاوی، یا کوئی مشترک مفاد منسلک ہونے کا شبہ کیا جا سکے۔ ایک طرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر الزام ہوتا ہے۔ دوسری طرف وہ ہوتے ہیں جن کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہے، تو ایک بنتی بدلتی عوامی آرا کی صورت پریشر اور طرف داری کا الزام لگایا جاتا ہے۔

ایک طرف رشتے ناتوں کا تو دوسری طرف صرف اپنے مفاد کے تحفظ کی جنگ لڑنے والا قرار دیے جاتے ہیں اور یوں آپ کبھی چاہتے ہوئے بھی کچھ مسائل پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں ایک پشتون نوجوان بلال احمد نورزئی کے سفاکانہ قتل کے حوالے سے تحریر کرتے، مجھے بھی درپیش ہے، لیکن بحالت مجبوری دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنی آرا سپرد قلم کر رہا ہوں۔ ہمارے محبتوں کے شہر کوئٹہ کو 2000 ء کے بعد گویا ایک ایسی نظر لگ گئی ہے کہ جس کا علاج کسی عامل جادوگر کے پاس بھی نہیں۔ شاید ماں کی لگنے والی نظر اتارنے کے لئے ان کی فرزندوں کا بے پناہ بہنے والا خون بھی کام نہیں آ رہا ہے اور یوں یہاں برسوں ساتھ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ یہی شک بلال نورزئی کی جان لے گیا۔

وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں کسی جواد ہزارہ نامی شخص کے حمام پر جاتے ہیں اور سیکڑوں کا ہجوم تین نہتے لوگوں کو گھیر لیتا ہے۔ پھر قتل کی وہ داستان رقم کی جاتی ہے، جس سے چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی کانپ گئی ہوں گی۔

اس واقعے کی کہانی جاں بحق ہونے والے بلال کے زخمی دوست بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے چار لاکھ 20 ہزار روپے میں ایک گاڑی جواد ہزارہ کو فروخت کی تھی، جس نے ان کے پیسے دینے تھے۔ اس دوران میں ان میں تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد گویا شہر کا ہر شخص ان پر ٹوٹ پڑا۔ جب کہ دوسرے طرف موقف ہے کہ انہوں نے خواتین کی ویڈیو بنائی ہے۔ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ہے جس میں نوجوانوں پر تشدد کیا جا رہا اور ان کا موبائل چھین کر چیک کیا جا رہا ہے۔ وڈیو شاید تفتیش کاروں کو مزید تفتیش کرنے میں مدد دے سکے کہ جس شخص کو یہ ویڈیو بھجوائی گئی ہے۔ انہوں نے اس میسیج سے قبل ایک گاڑی کی تصویر بھجوائی ہے۔

عین ممکن ہے کہ بلال نے اس شخص کے پیسے دینے ہوں اور جو پیسے کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو اور اس کو یقین دلانے کہ وہ جواد ہزارہ سے پیسے لینے ہزارہ ٹاؤن میں موجود ہے۔ کوئی 4 سیکنڈ ویڈیو بنا کر بھجوا دی گئی ہو اور پھر دوسری جانب ویڈیو میں ایسی کوئی قابل اعتراض چیز بھی نہیں ہے۔ نا کسی گھر یا کسی شادی ہال کی ہے۔ جہاں خواتین بڑی تعداد میں موجود ہوں۔ اس وڈیو میں تو روڈ پر ایک بے خبر خاتون بچی کے ساتھ جا رہی ہے۔ پھر اس طرح کی ویڈیو تو شہر میں کسی بھی جگہ کسی کی بھی بنانا کوئی مشکل کام ہی نہیں۔

اگر یہ بات مان لی جائے کہ یہ ویڈیو کسی غلط مقصد کے لئے بنائی گئی تھی، تو اس کے لئے علاقے کو چاروں طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کواڈ آف کیا ہے، جس کا مقصد یہاں لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ جس پر بطور صوبہ ہم سالانہ کروڑ روپے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کر رہے ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر سے کسی کو بلا کر ویڈیو بنانے کے الزام میں قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ قتل کر کے وحشت اور درندگی کی بد تر مثال قائم کی گئی ہے۔ لاش اور زخمیوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان کے جسموں کو ننگا کیا گیا۔ ان کی برہنہ حالت میں ویڈیوز اور تصاویر نہ صرف بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئیں، جس میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے جسموں کے نازک حصوں پر زخم دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک طرف سوشل میڈیا پر طرف داری کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ یہ تعصب برتا جا رہا ہے، دوسری جانب پولیس اہلکار جو واقعے کے بعد حمام میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ گرفتاری کے بجائے قاتلوں کو باہر نکالتے ہیں۔ حیران کن طور پر قوم پرستی کی سیاست کرنے والے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کے خالق ہزارہ سمیت کوئی بھی ذمہ دار شخص تادم تحریر یہ محسوس نہیں کر رہا کہ وہ درمیان آئیں اور اس کو نوجوانوں کی غلطی قرار دے کر یہاں روایات کے مطابق حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ قوموں کے معززین کو بیچ میں ڈال کر اس واقعے کو مزید ہوا دینے سے بچایا جائے۔

کیا درحقیقت وہ قوم سے محبت کرتے ہیں، وہ بھی ایک ایسے گھٹن بھرے ماحول میں جہاں علانیہ طور پر ترقیاتی منصوبوں میں 16 کی کمیشن لے کر سیاست کرنے والے زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں طاہر خان ہزارہ کا کردار قابل تعریف ہے۔ اس مسئلے پر انہوں نے ویڈیو پیغام کے ذریعے نہ صرف اس واقع کی شدید مذمت کی بلکہ اس کے مختلف پہلووں کو ایک بہترین انداز میں میں اجاگر کیا۔ دونوں طرف سے نوجوانوں کا غصہ پریشان کن ہے۔ ہر طرف سے یہی سوال ہے کہ ہمارا کیا قصور ہے۔

عین ممکن ہے کہ جواد ہزارہ اور فوجی نامی شخص نے علاقے کے لوگوں کو واقعے سے قبل گمراہ کیا ہو اور جس طرح واقع کو سوشل میڈیا پر بیان کیا جا رہا ہو۔ ان لاعلم لوگوں بھی یہی بتایا ہو، کیونکہ یہاں دو مختلف زبانوں کے لوگ تھے۔ شاید زبان سے شناسی نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کا انسانیت سوز واقع پیش آیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ ملک دشمن عناصر زر خرید لوگوں کا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کروایا ہو، کیونکہ اس طرح کے واقعات کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے اور نفرتوں اور گھٹن زدہ کوئٹہ کو مزید گھٹن زدہ بنانے کی سوچی سمجھی سازش ہو! ؟

اس کی سنجیدہ تحقیقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کے لئے تمام ہزارہ قوم سے محبت کرنے والے سنجیدہ ہوں اور اس کا حل نکالنے کے لئے دوسرے اقوام کے ساتھ مل کر روایات کے مطابق اس آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کریں کیونکہ خالق ہزارہ کچلاک کا روسٹ کھانے آئے یا نہ آئے، مجھے کبھی محسوس ہو تو اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرنے، میں نے عزیز ہزارہ کے گھر کا کھانا داود استاد کی چائے اور علی بابا کے گھر ناظر حسین کے ساتھ آش کھا کر پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے مری آباد ضرور آنا ہے۔ مجھے آج بھی گلیوں میں گزرتی ہوئے ہزارگی زبان میں بات کرنی ہے، کیونکہ برسوں بیت گئے ہیں۔ مجھے ہزارہ برداری کے ساتھ وہ بچپن جیسا ماحول نہ ملنے کی وجہ اپنی روانی سے بولنے والے ہزارگی زبان بھول رہا ہوں، جو میں نہیں بھولنا چاہتا۔ میری مدد کریں۔ اس واقعہ پر مجھے محسن نقوی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے :

؎ محسن میرے وجود کو سنگسار کرتے وقت
شامل تھا سارا شہر اک تہوار کی طرح


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments