ڈنڈ پیلتا ہوا ایک عظیم لیڈر


 \"zulfiqar-haider\"فرانسیسی نفسیات دان ژاک لکاں کو سگمنڈ فرائیڈ کے بعد علم نفسیات کا سب سے اہم نظریہ دان سمجھا جاتا ہے۔ لکاں کی اہمیت علم نفسیات تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا شماربیسویں صدی کے ان قد آور ترین مفکرین میں ہوتا ہےجن کی فکر فلم بینی، فن مصوری، تصویرکشی، ادب، تاریخ، سماجیات، سیاسیات سبھی پر اثر انداز ہوئی۔ ان سب علوم نے لکاں کی فکر سے متاثر ہو کر تشریحات اور فہم کے نئے دریچوں تک رسائی پائی۔ علم نفسیات میں لکاں کا سب سے اہم نظریہ ’مرر سٹیج‘ کا ہے کہ جب بچہ پہلی بار اپنا عکس آئینے میں دیکھتا ہے اور اپنے الگ وجود کا ادراک پاتا ہے۔ وہ اپنےجسم سے باہر آئینے میں منعکسں عکس کو ہی اپنا وجود مان کر اس عکس کا اسیر ہو جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھ پاتا کہ یہ اس کا وجود نہیں بلکہ وجود کا عکس ہے۔ انسانی ذہن پختگی کے مراحل طے کرتا ہوا، اس اسیری سے آگے نکل سکتا ہے۔ لیکن یہ ضروری بھی نہیں۔ بلوغت میں آنے کے بعد بھی ایک انسان ذہنی بچپنے کی کیفیت میں اٹکے ہوئے اپنے عکس کا اسیر ہو سکتا ہے۔ گو کہ اب آئینے کی بجائے کچھ اور عوامل اس کے وجود کو منعکس کرنے کا سبب بنیں گے، مثلاً کن الفاظ میں اس سے بات کی جاتی ہے اور لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اس صورت میں زندگی کے معاملات اسی عکس کے تابع ہوں گے۔ یہ صورت حال انسان کے لئے اکثر دائمی اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی مشکل کا سامنا عمران خان صاحب کو ہے۔

سترکی دہائی کے دوسرے نصف سے خان صاحب کی شہرت اور کامیابی کا سفر شروع ہوا۔ ان کی مردانہ وجاہت، کرشمہ ساز شخصیت اور ایک بہترین کرکٹر کے امیج نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں، بالخصوص خواتین کو، اپنا گرویدہ کیا ہے۔ عثمان سمیع الدین کے بقول کرکٹ کی دنیا میں وہ ریورس سوئنگ میں بہتری کے ساتھ ساتھ سیکس اپیل بھی لائے۔ اورجب وہ اپنا رن اپ شروع کرتے تھے تو ’ٹو ہالف دا ہیومن ریس، اٹ واز آمیٹنگ کال۔‘ (انسانیت کے آدھے حصے کے لئے یہ دعوت اختلاط ہوتی تھی) گلیمر کی دنیا کی حسینائیں، دلربائیں خان صاحب پر دل وجاں سےفریفتہ تھیں اور بہت سی اب بھی ہیں۔ جب پاکستانی ٹیم دوسرے ممالک کے دورے پر جاتی تو خان صاحب اس دورے کو کرکٹ کے علاوہ بھی اہم بنا دیتے۔ اور اگر یہ دورہ بھارت کا ہوتا تو اخبارات کو چٹ پٹی خبروں کا کافی سامان مل جاتا تھا۔

\"imran-khan-pushup\"

کہا جاتا ہے کہ جب خان صاحب بھارت کے دورے کے دوران جم میں ورزش کر رہے ہوتے تو انڈین سینما کی کچھ اداکارائیں انہیں چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھیں۔ خان صاحب ’ہی کیم، ہی سا، اینڈ ہی کنکرڈ‘ (وہ آئے، انہوں نے دیکھا اور انہوں نے فتح کر لیا) والے اپنے اس عکس کے ایسے اسیر ہوئے کہ آج تک اس سے آزاد نہیں ہو سکے۔ چوبیس سال پہلے کرکٹ ورلڈکپ جیتنے کی تقریر سے لے کر آج تک خان صاحب ضیغہ متکلم کے ارد گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ معاملہ صرف نرگسیت تک نہیں رکا بلکہ اپنے اردگرد کی تمام حقیقتوں کی سمجھ بوجھ پر حاوی ہوگیا۔

جو شہرت اور محبت انہوں نے کرکٹ میں پائی وہی ان کے سیاست میں آنے کی بھی وجہ بنی۔ میدان سیاست مگر جسمانی طاقت کے اظہار سے کچھ زیادہ کا متقاضی ہے لیکن خان صاحب اپنے کرکٹر کے عکس سے رہائی پانے کو تیار ہی نہیں۔ جلسہ عام میں اپنے نابغہ روزگار احباب کی معیت میں ڈنڈ پیلنا اور یہ اعلان کرنا کہ ’میں تو ابھی نہیں تھکا‘ کیا ثابت کرنے کی کوشش تھی؟ یہ پاکستانی سیاست میں کس انقلاب کا پیشں خیمہ ہوگا؟ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نے یہ مظاہرہ کیا تھا تو یہ کہا گیا تھاکہ یہ اپنے ٹرینرز کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ خان صاحب کی طرف سے بظاہر اسی دل لگی کی کوشش تھی جو ہر نوجوان کرتا ہے۔ اس عمر میں خان صاحب ایسی حرکتیں کرتے ویسے ہی لگتے ہیں جیسے اوتھیلو اپنے سے آدھی عمر کی ڈیزڈیمونا کو اپنی مہمات کے قصے سناتے ہوئے۔ گو اوتھیلو جیسی یہ حرکت خان صاحب کے لئے نئی ہے نہ ہی پاکستان کے سیاست دانوں کے لئے۔

\"imran-khan-exercise\"

ان کی کرکٹ کے میدان کی تو تکار کی گفتگو، باونسر اور وکٹیں گرانے کے استعارے، اور ڈنڈ پیلنے کے مظاہرے اسی عکس کی اسیری کی کرشمہ سازی ہے۔ یہ سب انہیں ذہنی طور پر ایک جارحانہ اور جسمانی طور پر مضبوط تیز باولر (جو صنف مخالف کو مرعوب کرنے کے تمام اجزائے ترکیبی سے لیس ہو) تو ثابت کرتا ہے مگر ایک سیاست دان نہیں۔ وگرنہ بظاہر سیاسی مقاصد کے لئے شروع کیے گیے دھرنا اول کا واحد حاصل ایک عدد شادی ہی تھی۔ سیاست میں ان کے مقام کا انحصار ماضی سے آگہی، حال کے شعور اور مستقبل کی بصیرت پر ہے۔ ان سب سے ان کی واقفیت کم ہی ہے۔

خان صاحب کی طرز سیاست دیکھ کر ایک قدیم لطیفہ یاد آتا ہے۔ ایک صاحب کو انتخاب میں حصہ لینے کا شوق چرایا لیکن تقریر کرنے سے گبھراتے تھے۔ انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ آپ روزانہ صبح کھیتوں میں جایا کیجئے اور کھیتوں کو ہی جلسے کے شرکا سمجھ کر تقریر کی مشق کرتے رہیں۔ خیر وہ دن آگیا جب انہیں جیتے جاگتے لوگوں کے سامنے تقریر کرنا تھی۔ زندہ لوگوں کی نعرے بازی اور شور وغل سے گبھرا کر بھائی صاحب صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ ’کھیت کھیت ہوتے ہیں اور آدمی آدمی۔‘ خان صاحب کو کب معلوم پڑے گا کہ کرکٹ کرکٹ ہے اور سیاست سیاست! واللہ عالم باالصواب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments