مردے وہاں نوکریاں یہاں


بلوچستان کے حقوق پر ڈاکا مارنا کوئی نئی بات نہیں۔ زیر زمین معدنیات اور وسائل پر قبضے بارے سوشل میڈیا کی آمد کے بعد کافی لکھا اور دکھایا جا رہا ہے۔ اب لوگوں کو اندھا تصور کر کے سب ہرا دکھانا صاحب اقتدار طبقے کے لیے نا ممکن ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اب پاکستان کے دیگر لوگ بھی بلوچستان کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان پر بولنے لگے ہیں۔

برسوں سے بلوچستان کے سمندروں سے پکڑی جانے والی مچھلیاں کراچی کی فشریز میں کوڑیوں کے مول بیچ کر بلوچستان کے عوام دو وقت کی روٹی ہی بمشکل کما پائے ہیں۔ ماربل کوئلہ کرومائٹ گندھک و دیگر معدنیات کی لوٹ کھسوٹ بارے کون نہیں جانتا۔

” کراچی پاکستان بھر کا ریونیو کما کر دیتا ہے۔“ یہ جملہ سن سن کر کان پک گئے مگر کبھی کسی نے سوچا کہ بلوچستان کے پورٹس کو بحال نہ کرنے کی وجہ سے شپ کے ذریعے آنے والے پاکستان بھر کے سامان اور مشینری وغیرہ کا ٹیکس کراچی میں جمع کروایا جاتا ہے تا کہ یہ نعرہ زندہ رہ سکے۔ یہ بھی ایک باریک کارروائی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کو ملنے والی بڑی آمدن سے محروم رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ غیر قانونی پٹرول و دیگر اجناس کی اسمگلنگ سے کون راتوں رات ارب پتی ہوئے اور کون نان کسٹم گاڑیاں ملک بھر میں سپلائی کر کے نوٹ چھاپنے رہے، اس بارے قصے زبان زد عام ہیں۔ یہ اتنی بڑی سطح کے ڈاکے ہیں کہ عام بلوچستانی ان کی طرف دیکھ تک نہیں سکتا کجا کہ ان کا راستہ روکنے یا یہ حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

چند سال قبل پاکستان کے کسی نیوز چینل پر بلوچستان بارے پوچھے عام سے سوالات کے جواب سن کر اندازہ ہوا تھا کہ عام پاکستانی بلوچستان بارے کچھ بھی نہیں جانتے بہتر ہوگا کہ پہلے ذرا بلوچستان بارے کچھ بتایا جائے۔

ون یونٹ کے بعد بلوچستان میں دو قسم کے رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے جن میں سے ایک کو لوکل اور دوسرے کو ڈومیسائل کہا جاتا ہے۔ لوکل سرٹیفکیٹ کے حاصل کرنے والوں کا تعلق بلوچ اور پشتون قبائل سے ہوتا تھا، ان اقوام کی باقاعدہ ایک لسٹ انگریز سرکار نے جاری کر رکھی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے حصول کے لیے سردار یا قبیلے کے بڑے کی گواہی لازمی ہوتی ہے۔ جنرل موسیٰ کے گورنر بلوچستان بننے کے بعد اس میں ترمیم کر کے بلوچستان میں آباد ہزارہ برادری کو بھی لوکل کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ بلوچستان میں بلوچ پشتون ہزارہ کے علاوہ پنجابیوں، کشمیریوں ہزارہ والوں اور مہاجروں کی آبادی بھی ہے۔

انگریز نے موجودہ جعفر آباد میں نہری نظام بنایا تو پنجاب سے مزارعے لا کر کچھی جعفر آباد میں آباد کیے، جنھوں نے زمینیں آباد کیں جو بھٹو صاحب کی لینڈ ریفارمز کے بعد اکثر اس زمین پر قابض ہو گے، جسے پہلے وہ کسی نواب یا سردار کے لیے آباد کیا کرتے تھے۔

اب بھی ان علاقوں میں بھٹی، چوہان، آرائیں، گجر، اعوان اور سیال آباد ہیں۔ جن کی اکثریت اب سرائیکی بولتی ہے۔ یہ بھی علاقے کے بڑے سردار نواب کو ہی اپنا سردار لکھوا کر لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ ان قبائل کی نسلیں اسی سرزمین میں مدفون ہیں ان کا جینا مرنا بلوچوں کے ساتھ ہے اور وطن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر انھیں بھی ایسا ہی دکھ ہوتا ہے جیسا کیسی دوسرے انسان کو ۔ اس لیے آپ نے کبھی ان کے خلاف کسی قسم کی پرتشدد کارروائی یا سیاسی نعرے کی گونج نہیں سنی ہو گی۔

ان کے علاوہ مغلوں سے جنگ ہارنے کے بعد بگٹیوں کے یہاں پناہ لینے والے مرہٹے آج بھی مکمل آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں انھیں بلوچ معاشرے میں بالکل وہیں حقوق حاصل ہیں جو دیگر بگٹیوں کو حاصل ہیں۔ جس سے اس سوچ کی نفی ہوتی ہے کہ بلوچ دوسری اقوام سے نفرت کرتے ہیں۔

بلوچستان گزشتہ پچھتر برسوں سے بیرونی طاقتوں کے ذریعہ چلایا جاتا رہا ہے۔ ون یونٹ کے دوران پنجاب سندھ پختونخوا اور کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے اس صوبے میں تعلیم نہ ہونے، میڈیکل یا ٹیکنیکل اسٹاف کی کمی کا بہانہ بنا پر تمام سرکاری نوکریوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔

ون یونٹ کے بعد بلوچستان سے دیگر صوبوں کے ملازمین کو واپس ان کے صوبوں میں بھیجا گیا تو حکومتی مشینری کو چلانے کے لیے مقامی لوگوں کی بھرتیاں کرنا ناگزیر ہوگیا تب مقامی لوگوں کو ملازمتوں تک رسائی دی گئی۔ بلوچستان سے جانے والوں یا بعد میں چند برس کو یہاں پوسٹنگ پر آنے والوں نے بلوچستان کے ڈومیسائل بنوا کر وفاق سے ملنے والے کوٹے کی ملازمتوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیے۔

مجھے بی ایس سی کے دوران ایک پنجابی کلاس فیلو نے، گھر جاتے ہوئے کاغذات کے دو سیٹ دیے تھے ایک میں بلوچستان اور دوسرے میں پنجاب کا ڈومیسائل لگا ہوا تھا کہ جس صوبے کی پوسٹ آئے تم وہ سیٹ جمع کروا دینا۔ اب بھی میرے نوٹس میں ایسے کئی خاندان ہیں جو وفاقی محکموں میں چند سال کے لیے پنجاب سے ٹرانسفر ہو کر آئے اور واپس جانے سے قبل بچوں کے ڈومیسائل بنوا کر لے گئے اب ان کی اولادیں بلوچستان کے کوٹے پر اسلام آباد ٹیکسلا اور واہ کینٹ میں ملازمت کر رہی ہیں۔ ان میں ریلوے کے ملازمین کے بچوں کی اکثریت ہے۔

ایک ایسا طبقہ بھی بلوچستان کے حقوق غصب کرتا رہا جس کا ہاتھ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ جن ماہ قبل بڑی تعداد میں ڈیرہ بگٹی سے، اسی طبقے کے ایک مخصوص گروپ کو ڈومیسائل اور لوکل جاری کرنے کی خبریں گردش کرتی رہی تھیں۔

بلوچستان کے طلبا میڈیکل، انجینئرنگ، کیڈٹ کالجز، ایچ ای سی اور کوالٹی ایجوکیشن کے تحت منتخب ہونے والوں کے باپ دادا کا ریکارڈ کھنگالتے ہیں مگر وفاقی ملازمتوں، ایف پی ایس سی اور سی ایس ایس پر کسی قسم کا کوئی چیک نہیں رکھتے کیونکہ بلوچستان کے بہت کم طلبا مقابلے کے ان امتحانات تک رسائی پاتے ہیں۔ اکثریت غربت کے ہاتھوں جلد ہی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کو نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بالا دست طبقہ ان ملازمتوں پر باآسانی شب خون مار لیتا ہے۔

مشرف کے دور حکومت میں ہمارے محکمے کے ڈی جی ایک جنرل تھے۔ انھوں نے کئی افسروں کو ڈومیسائل کی بنیاد پر بلوچستان ٹرانسفر کیا۔ جن کا تعلق بلوچستان سے ہونے کا سن کر ملازمین حیران رہ گئے تھے۔

بلوچستان میں چند پنجابی کشمیری اور پشاوری پشتون گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے آباد ہیں۔ وہ بھی بلوچوں اور پشتوں کے ساتھ ان ہی گاؤں دیہات میں پڑھتے ہیں۔ انہی وسائل میں گزارہ کرتے ہیں کیونکہ ان کا اب اپنے باپ دادا کے علاقوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان کی وہاں کوئی رشتہ داری یا زمین جائیداد نہیں ان کا جینا مرنا بھی اس دھرتی کے ساتھ ہے۔ ان پر بلوچستان کے لوکل قبائل اعتراض نہیں کرتے کیونکہ وہ اسی سسٹم میں پڑھ کر آتے ہیں اور پھر سب کا آپس میں کسی پوسٹ کے لیے مقابلہ بنتا ہے۔ مگر حق تب مارا جاتا ہے جب ایسے لوگ اپنی اولاد کو ہمارے مقابلے پر لا کھڑا کرتے ہیں، جن کی تعلیم رہائش سب باہر ہوتی ہے۔ یہاں ایک انچ زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا یہ اپنے مردے بھی دفنانے واپس اپنے علاقوں میں لے جاتے ہیں مگر اس سرزمین کے کوٹے پر نوکری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے سے سندھ میں جعلی ڈومیسائل کو لے کر جو چشم کشا حقائق سامنے لائے جا رہے ہیں اگر بلوچستان کے لوگ مل کر ایسی ہی تحریک اپنے حقوق غضب کرنے والوں کے بارے میں چلائیں یا حکومت دیانت داری اور وطن دوستی کا پاس رکھتے ہوئے تحقیقات کروائے تو ملک کے باسی سندھ کے ساتھ ہوئے ظلم کو بھول جائیں گے۔

اس دھندے میں ہمارے اپنے وطن فروش لوگ چند روپوں اور ذاتی مفادات کے لیے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جو اپنی نسلوں کو اغیار کی غلامی کا طوق پہنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ پنجابیوں کشمیریوں اور ہزارہ والوں کو تو بلوچستان میں آسانی شناخت کر لیا جاتا ہے مگر سندھی، ڈیرہ جات کے سرائیکی بلوچ اور کے پی کے کے پشتون با آسانی بلوچوں اور پشتونوں میں ضم ہو کر بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے ملازمتوں کا ایک بڑا حصہ حاصل کر کے بلوچستان میں ہی نوکری کرنے لگ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند برسوں میں ملٹری، پی اے ایف اور نیول کالج بلوچستان سے بچے لینے لگے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں سے اکثر ڈومیسائل نہیں دیکھتے اور بلوچستان کے سینٹروں پر امتحان دینے والے ہر امیدوار کو ”بلوچی“ سمجھتے ہیں۔

فورس کے ہر ریکروٹمنٹ سنٹر سے چند بچے آئی ایس ایس اور فورسز کے کالج کے لیے پاس کیے جاتے ہیں۔ پنڈی کوہاٹ لاہور اور دیگر بڑے شہروں سے ہزاروں طلبا امتحان دیتے ہیں چند میں سے چند انتہائی لائق بچے ہی پاس کر پاتے ہیں جب کہ اگر ان صوبوں کے اوسط درجے کے امیدوار کوئٹہ سے آ کر امتحان دیتے ہیں تو چند سو لوکل بچوں میں سے آسانی منتخب ہو جاتے ہیں۔ یوں وفاق کی جانب سے دیے اکثر پیکیج حقداروں تک نہیں پہنچ پاتے۔

ہر حکومت یہ دعوا کرتی ہے کہ انھوں نے بلوچستان کے لیے اربوں روپوں کے پیکج دیے، سیکڑوں نوکریاں دیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں پھر بھی بلوچستان کی محرومیاں ختم نہیں ہوتیں؟

یقیناً کچھ لوگ اس صوبے کے وسائل کو جونکوں کے مانند چمٹے ہوئے ہیں یہ ایسے پیراسائٹ ہیں جو تیار مال کھانے کے عادی ہیں۔ رہائش اور تعلیم دیگر صوبوں میں، اپنی اولادیں، سیاست کی بساط کا پیادہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت حالت جنگ میں مارتے اور مار کھاتے صوبے بلوچستان سے دور امن سکون میں رکھتے ہیں مگر بلوچستان کے وسائل پر عیاشیاں کرتے ہیں۔

اب جب کے نادرا اور دیگر ادارے شہریوں کا اتنا ڈیٹا جمع کر چکے ہیں کہ باآسانی ان کی زمین جائیداد اور دیگر کاغذات کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے تو بلوچستان کے نوجوانوں پر ایک احسان کریں اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اعلی پیمانے پر تحقیقات کروائیں یا کوئی ایسا آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے جس پر ایسے لوگوں کی شکایات با آسانی درج کروائی جا سکیں۔

اس حکومت سے میری یہی درخواست ہے کہ وہ ہمیں کسی پیکج کی بھیک نہ دے بس اتنا کر دے کہ ہمارے حق پر ڈاکا مارتے ان قبضہ گیروں سے ہماری جان چھڑوا دے۔ ہماری شہ رگ پر چمٹی ان جونکوں سے ہماری جان خلاصی کروا دیں تا کہ ہم بھی اپنی اولادوں کو عزت و آبرو کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑا کر سکیں۔ اگر اس ظلم کا راستہ نہ روکا گیا تو شاید اگلی کئی دہائیوں تک بلوچستان کے نوجوان اپنے حقوق حاصل کرنے کو مشکل سے مشکل قدم اٹھانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments