انڈیا اور پاکستان میں صحافتی معیار: ’جاسوس کبوتر اور تربیت یافتہ ٹڈیوں کے بعد اب پاکستان لبریشن آرمی‘


’جاسوس کبوتر، تربیت یافتہ ٹڈی دل اور خواتین و حضرات اب پیش خدمت ہے پاکستان لبریشن آرمی۔‘

یہ الفاظ مناہل خان نامی ایک ٹوئٹر صارف کے ہیں جن کا اشارہ انڈین ٹاک شو ’نیوز آر 9‘ کے ایک پروگرام کی جانب تھا۔

انڈیا کے معروف خبر رساں ادارے ٹائمز ناؤ سے وابستہ نیوز اینکر ناویکا کمار نے تین روز قبل اپنے ٹاک شو میں ایک تصویر نشر کی جس پر درج تھا ’پی ایل اے‘ کا جنگی ماڈل۔

ناویکا کمار نے اس ماڈل کو پاکستان سے جوڑا اور اسے ’پاکستان لبریشن آرمی‘ کا نام دے ڈالا۔ حالانکہ پی ایل اے سے مراد چین کی مسلح افواج ہیں جنھیں پیپلز لبریشن آرمی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ارنب گوسوامی اور کنال کامرا کا دوران پرواز ٹاکرا

’ایک کپ چائے پلا کر اس کبوتر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے‘

کیا پاکستان انڈیا کے ساتھ اپنی سرحد پر کبھی باڑ لگائے گا؟

پاکستان کی مثالیں دے کر پڑھانے والی انڈین ٹیچر معطل

اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر نہ صرف انڈیا میں صحافتی معیار پر سوال اٹھایا ہے بلکہ اس سے پاکستان میں بھی مقامی میڈیا کے ٹاک شوز میں ہونے والی کوتاہیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

اپنے ٹی وی کے ریموٹ کا بٹن ڈباتے ہی پاکستان اور انڈیا میں ناظرین ایک ایسی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں بلند اور ڈرامائی انداز میں بات کرنے کا طریقہ اب ایک روایت بن گیا ہے۔

یہ مناظر کسی معروف پاکستانی ڈرامے یا بالی ووڈ فلم کے نہیں ہوتے بلکہ روز نشر ہونے والے ٹاک شوز کے ہوتے ہیں جنھیں دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

جاسوس کبوتر اور آرمی بوٹ، سوشل میڈیا بنا میدان جنگ

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لوگوں کو وہ آرمی بوٹ بھی یاد آیا ہے جو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل ایک ٹاک شو میں اٹھا لائے تھے۔

ٹاک شو میں استعمال ہونے والے نازیبا الفاظ اور مہمانان گرامی کے ایک دوسرے کو رسید کیے جانے والے تمانچوں کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

انڈیا کے نجی چینل ریپبلک ٹی وی کے ایک ٹاک شو کی ویڈیو حال ہی میں خاصی وائرل ہوئی جہاں پاکستان سے مدوع کیے گئے ایک مہمان نے اپنے انڈین حریف کو میزائل کا ایک ماڈل دکھا کر دھمکیاں دیں اور خوب گالم گلوچ کی۔

یہ ممکن نہیں تھا کہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے مہمان اس کا جواب نہ دیں اور اگلے دو منٹ انڈین صاحب نے بھی جواب میں نیزے کا ایک ماڈل دکھایا اور ہر لفظی حملے کا ترکی با ترکی جواب دیا۔

جبکہ شو کے میزبان ارنب گوسوامی نے اس دوران مداخلت نہیں کی اور ہنستے رہے۔

سوشل میڈیا پر ارنب گوسوامی کے متنازع اور شعلہ بیان انداز گفتگو کا خوب چرچا رہتا ہے۔ چند روز قبل ریپبلک ٹی وی کے اینکر نے اپنے شو میں دعویٰ کیا کہ انڈیا میں کھیتوں کو برباد کرنے کے لیے ٹڈی دل کے حملے پاکستان کی جانب سے کئے جا رہے ہیں۔

ارنب یہاں رُکے نہیں اور کہا کہ یہ ٹڈی دل تربیت یافتہ ہے اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

اس پر فیک آلٹ نیوز کے بانی پرتیک سنھا نے سوال کیا کہ ’اس نجی چینل کا اگر کوئی سابقہ صحافی نوکری کی تلاش میں نکلے گا تو وہ اپنی کس صحافتی کامیابی کا ذکر کرے گا؟‘

ٹاک شو میں ریسرچ کا کتنا عمل دخل ہے؟

بی بی سی نے پاکستان میں مقبول نیوز شو آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کے سینیئر پروڈیوسر ادنان رضا سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نیوز شو کو بہتر بنانے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ناظرین تک مصدقہ معلومات پہنچانے کے لیے کن چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ خبر کی تصدیق کے لیے ہم اپنے رپورٹرز سے بات کرتے ہیں اور اگر کسی خبر میں تھوڑا بھی شک ہو تو اس خبر پر بحث نہیں کی جاتی۔

انھوں نے بتایا کہ صبح سے ہی مختلف اخباروں سے خبریں اکھٹی کر کے ایک گروپ میں شیئر کی جاتی ہیں اور ان کا ہر زاویے سے جائزہ لیا جاتا ہے۔

پاکستان کے مقبول نیوز شو کے سابق پروڈیوسر کے مطابق رات میں نشر ہونے والے کسی بھی نیوز شو کا رن ڈاؤن دوپہر دو سے چار بجے کی میٹنگ میں طے کر لیا جاتا تھا۔

رن ڈاؤن وہ مخصوص ترتیب ہوتی ہے جس کے تحت شو میں مختلف خبروں کو نشر کیا جاتا ہے اور اہم موضوعات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

رن ڈاؤن میں کن خبروں کو شامل کرنا ہے اس کا انتخاب بھی وہ خود شفٹ کے آغاز میں دوپہر ایک سے دو بجے کے درمیان کر لیتے ہیں۔

دنیا بھر کے معتبر صحافتی ادارے ٹاک شوز سے قبل کی جانے والی تحقیق کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کی ٹیم تحقیق اور خبر کے مصدقہ ہونے پر شو سے قبل تقریباً چار گھنٹے اس پر صرف کرتی تھی۔

میڈیا، پاکستان

وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم اخباری ذرائع پر انحصار نہیں کرتی تھی اور شو سے قبل اگر کسی خبر یا تحریر کی تصدیق نہیں ہو پاتی تو اسے ’ڈراپ‘ یا شو کے رن ڈاؤن سے خارج کر دیا جاتا تھا۔

نیوز شوز عمومی طور پر براہ راست نشر کیے جاتے ہیں اور اس لیے حقائق پر مبنی خبر دینا اور یہ یقینی بنانا کہ کوئی غلط چیز نشر نہ ہو ایک مشکل اور طویل عمل ہے۔

اس کے علاوہ پروگرام کے میزبان کا وقت کی پابندی کرنا نہایت اہم ہے تاکہ پروگرام سے قبل ہونے والی تیاری کا مکمل جائزہ لیا جا سکے۔

ان کے مطابق ان کے شو کے اینکر ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر شو کی تیاری میں مدد کرتے تھے اور دو بجے تک دفتر میں موجود ہوتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ براہ راست نشر کیے جانے والے شو میں اگر کوئی غیر مصدقہ خبر نشر ہو بھی جائے تو پروڈکشن کنٹرول روم میں موجود ٹیم کا کوئی رکن ’مجھے مطلع کر دیتا تھا اور میں فوری مائیک میں اینکر کو اسے درست کرنے کا کہہ دیتا تھا۔‘

ریٹنگ کی دوڑ

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ خطے میں الیکٹرانک میڈیا نے گذشتہ کچھ برسوں کے دوران اپنا قبلہ مکمل طور پر تبدیل کر لیا ہے۔

ایک طرف جہاں دونوں ملکوں میں ٹی وی چینلز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہیں تکنیکی اعتبار سے بھی ان چینیلز نے بہرحال ترقی کی ہے۔

ٹی آر پی یعنی ٹیلی وژن ریٹنگ پوائنٹ ایک ایسا نظام ہے جس سے ٹی وی ٹاک شوز کے بارے میں پتا چلایا جاتا ہے کہ وہ کتنا دیکھا جا رہا ہے۔

مقابلے کی اس دوڑ میں خصوصی طور پر بے شمار چینلز کی آمد کے بعد ٹی وی چینل مالکان، پروگرام پروڈیوسرز اور اینکر پرسنز کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طور پر سب سے آگے نکل جائیں اور دوسروں کی نسبت خبر نشر کرنے میں ’بازی لے جائیں۔‘

الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ ٹی وی پروڈیوسرز کے پاس ایسے مہمانوں کی فہرست موجود ہوتی ہے جو اگر پروگرام میں آجائیں تو ریٹنگ کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ یعنی انھیں لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے ٹی وی سکرین پر جارحانہ مزاج والے مہمان بھی ڈھونڈ کر بٹھائے جاتے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کا صحافتی ریکارڈ

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 کے دوران انڈیا کے عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی جس کے بعد سے مقامی میڈیا پر ’ہندو قوم پرست موقف اپنانے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق وہ لوگ جو ‘ہندوتوا’ سوچ کے حامی ہیں اپنے سے مخالف سوچ رکھنے والوں کو ‘ملک دشمن’ قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والوں کو ’قومی بحث سے خارج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس یعنی آزادی صحافت کی فہرست برائے سال 2020 کے مطابق انڈیا 140ویں نمبر سے بھی دو درجے آگے جا کر 142ویں پر آگیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ کو برطانوی میڈیا سے بھی زیادہ آزاد مانتے ہیں۔ لیکن پاکستان 180 ممالک کی اسی فہرست میں رواں سال مزید تین درجے تنزلی کے ساتھ 145 نمبر پر پہنچ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp