د یکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام


طارق عزیز بلاشبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ان تاریخ ساز لوگوں میں ہیں جنہوں نے پہلی نشریات سے لے کر طارق عزیز شو تک بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ ان کے معروف الفاظ۔ ۔ ۔ د یکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام۔ ۔ ۔ کروڑوں پاکستانیوں کی اجتماعی یاداشت کا حصہ ہیں۔ طارق عزیز اب بھی ٹویٹر پر اپنے لاکھوں مداہوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے موضوعات مذہب، سیرت النبی، عائلی زندگی اور ملکی حالات وغیرہ کا بھرپور احاطہ کرتے ہیں۔ طارق عزیز صاحب کے چند منتخب اور دلچسپ ٹویٹس :

ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں ڈرامہ ایک ایسی فنی صنف اور تخلیقی عمل ہے جس کا عوام کے ساتھ براہ راست اور فوری نوعیت کا تعلق ہے۔ شاعری اور دیگر اصناف ادب ابلاغ اور تفہیم کے لیے انتظار کر سکتی ہیں، مگر ڈرامہ انتظار کا محتاج نہیں۔

میرا دل تو کرتا ہے بچوں کو باہر کھیلنے کے لیے بھیج دوں اور والدین کو کلاس میں بٹھا کر پڑھانا شروع کر دوں۔

اگر لوگوں کی اکثریت آج بھی بنیادی اسلامی معاشیات و سماجیات ہی نہیں سمجھتی تو 72 سال سے ہمارے مساجد مکاتب سکول کالج یونیورسٹیاں انہیں کون سا اسلام سکھاتی رہی ہیں؟

میں جب اپنے نفس کے اندر جھانکتا ہوں تو ششدر رہ جاتا ہوں، ہر آرگن میں کیا کیا کیمیائی تعامل ہو رہے ہیں دل خون کو کیسے ہر جگہ پہنچا رہا ہے عقل دنگ ہے، کائنات کی طرف نظراٹھاتا ہوں تو حیرت ہوتی کہ کس قدر لامحدود کائنات ہے کہ اربوں گلیکسیزکھربوں ستاروں کو لئے کس قدر منظم انداز میں محوسفر ہیں۔

صحافی اعجاز شیخ لکھتے ہیں کہ وہ لندن میں واقع میوزیم میں گئے اور ٹیپو کی تلوار دیکھنے کی خواہش کی اور گیٹ پر کھڑے انگریز سے تلوار کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا، ”You Mean Great Soldier“ (کیا آپ اس عظیم سپاہی کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟)

ہم ساری اچھی چیزیں اپنی ناجائز محبت میں لٹا دیتے ہیں، اور شادی کے بعد رہا سہا کوڑا اپنے جیون ساتھی کو دے کر خوشیاں مانگتے ہیں۔

سسٹم پر تنقید ضرور کریں لیکن اپنے کردار پر بھی نظر ڈالیں کہ اس خرابی میں ہمارا کتنا حصہ ہے، سگریٹ منہ میں دبا کر بچے کو سگریٹ پینے پر ڈانٹنا بے سود ہے، اپنے کردار کی شمع روشن کرنا لازم ہے ورنہ اندھیرا نہیں چھٹے گا۔

گلہ شکوہ کیے بغیر بات کرنا سیکھ لیں، اور بات کاٹے بغیر بات سننا سیکھ لیں، آپ کی شادی خوشیوں سے بھر جائے گی۔

میاں بیوی ایک دوسرے کو ٹھیک کرنے، یا ایک دوسرے کو سبق سکھانے کی ذہنیت سے نکل جائیں تو بہت سے مسائل اپنے آپ حل ہو جاتے ہیں۔

اگر گھر میں آپ کے کپڑے آپ کی بیوی بہن یا بیٹی دھوتی ہے تو جان بوجھ کر کچھ پیسے دھونے والے کپڑوں کی جیب میں ڈال دیا کریں۔

کیسی عجیب بات ہے کہ زندگی کے بہت سے خوبصورت کام جو ہمیں اپنے بیوی بچوں کے لئے کرنے چاہئیں، ہم غیروں کے لئے کر جاتے ہیں

نیک انسان کو اگر کہیں سکون ملتا ہے، تو وہ اس کا گھر اس کے بیوی بچے ماں باپ بہن بھائی ہوتے ہیں۔ اپنے اہل و عیال سے محبت صرف نیک انسانوں کو نصیب ہوتی ہے بدکرداری کی پہلی سزا یہ ملتی ہے کہ بد کرداروں کے دل سے ان کے اہل و عیال کی محبت نکال لی جاتی ہے، اور اہل و عیال کے دل سے ان کی۔

بہرحال ہمیں اپنے بچوں کو اتنی تعلیم ضرور دے دینی چاہیے کہ انہیں اپنے علما، سیاستدانوں اور ڈاکٹروں پر اندھا یقین نہ کرنا پڑے

تقدیر، قسمت، نصیب، انسان کے سب سے بڑے ڈیموٹیویشنل الفاظ ہیں، بچوں کے سامنے بولنے سے پرہیز کریں۔

مہذب دنیا اور غیر مہذب دنیا میں کیا فرق ہے؟ صرف ایک فرق ہے اور وہ ہے مہذب دنیا میں قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور بس۔

اگر شوہر کو بیوی سے محبت ہو تو وہ اسے اپنے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے، محبت کے نام پر طرح طرح کی پابندیاں لگاتا ہے، اور اس کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے، اور اگر بیوی کو شوہر سے محبت ہو تو وہ ہر کام۔ اس کی مرضی کے مطابق کرنے لگتی ہے، اور اپنے آپ کی نہیں رہتی

سکول کی فضا کا ایک اپنا ہی سکون ہوتا ہے، کلاس روم کی ایک اپنی ہی خوشبو ہوتی ہے، بچوں کے شور کی ایک اپنی ہی خوبصورتی ہوتی ہے۔

تین چیزیں جو ٹیچر میں نہیں ہونی چاہئیں : غصہ، مایوسی، لاپرواہی۔

میرے ماں باپ کو گزرے ایک مدت ہو چکی ہے، لیکن کبھی کبھی میں محسوس کرتا ہوں وہ میرے ساتھ ہی ہیں، ان کا لہجہ، ان کی خوشبو۔

آنکھ پرنم، اشک زم زم، سانس مدھم، وقت ہے کم
وصال راحت، ہجر ماتم، رقیب قاتل، موت مرہم

ہے @TariqAziz  پس نوشت: طارق عزیز صاحب کا ٹویٹر ہینڈل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments