سیٹھ عابد سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور آخری بھی


”یہ بہت پرانی بات ہے، راولپنڈی میں میرے اعزا کی نوادرات کی دکان تھی، بظاہر تو یہ ایک انٹیک شاپ تھی، اصل میں وہ در پردہ سرکاری محکمے کے ملازموں سے قدیم تہذیب کی اشیا خریدنے کا دھندا کرتے تھے، جو کھدائی میں نکلتی تھیں۔ ان میں سے بدھا کے اوریجنل مجسمے میں جاپان جا کر فروخت کر دیتا تھا، جاپانی بدھا کے ماننے والے ہیں، ان کے نزدیک ان مجسموں اور بدھ مت تہذیب کے نوادرات کی بہت ویلیو تھی۔“

”میں ہر مہینے لاہور سے پنڈی جاتا۔ کھدائی میں نئے دریافت ہونے والے نوادرات کا ایک اٹیچی کیس تیار کرتا اور پھیرا لگانے جاپان چلا جاتا۔ واپسی پر کبھی کچھ روز کے لئے کوریا رک جاتا تو کبھی ہانگ کانگ۔ یہاں مون مارکیٹ میں ایک شخص تھا گنجا سا، اس کی گارمنٹس کی چھوٹی سی دکان تھی، اس سے میری دعا سلام تھی۔ ایک دن اس نے مجھے ایک چھوٹی سے پرچی تھماتے ہوئے کہا ’میر صاحب، آپ پھیرا لگانے جاپان جاتے رہتے ہیں، واپسی پہ کوریا ہوتے آنا اور یہ ایک آئی سی تو لیتے آنا‘ ۔“

”میں نے جاپان کے نیکسٹ پھیرے سے واپسی پر کوریا کا روٹ پکڑا اور مارکیٹ چلا گیا۔ جیسے ہمارے یہاں ہال روڈ والی مارکیٹ ہے، میں نے کئی دکانوں پر وہ پرچی دکھا کر اس آئی سی کا پوچھا لیکن ہر دکان دار پرچی دیکھتا تھا اور نفی میں سر ہلا دیتا تھا۔ آخر ایک دکان دار نے پرچی دیکھ کر غور سے مجھے دیکھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا ’پہلے کسی دکان سے پتا کیا؟‘ جب میں نے بتایا کہ کئی دکانوں سے پتا کرچکا ہوں مگر ہر ایک نے کہا میرے پاس نہیں ہے تو اس نے کہا ’شکر ہے تمہیں ابھی تک فائر نہیں لگا‘ ۔ مجھے اشارے سے دکان کے اندر آنے کو کہا۔ وہ مجھے اپنی دکان کے پچھلے حصے میں لے گیا، کافی پلائی اور کہا ’تم لکی ہو کہ ایک آئی سی میرے پاس پڑا ہے، یہ ٹوٹل 12 آئی سی مارکیٹ میں آئے تھے، ان میں سے 11 انڈین نے خرید لیے یہ 12 واں میرے پاس تھا تو بچ گیا‘ ۔ وہ شخص انڈین سے نفرت کرتا تھا، اس نے کہا انڈین کتوں کی طرح یہاں مارکیٹ میں پھرتے رہتے ہیں مگر وہ انڈیا کو پسند نہیں کرتا، اس لئے انہیں اس آخری آئی سی کی ہوا تک نہیں لگنے دی“ ۔

”یہ کہانی میرے ایک دوست نے یوم تکبیر پر مجھے سنائی، وہ کوئی زیادہ پڑھا لکھا شخص نہیں بلکہ ایک روایتی سا کاروباری شخص ہے۔ اس نے مزید کہا، ”واپس آیا تو میں نے اس کی دکان پر جا کر اسے بتایا کہ وہ آئی سی مل گیا تھا اور میں لے آیا ہوں، میں نے وہ پرچی اور اس میں لپٹا ہوا آئی سی، مطلب وہ پڑی سی اسے دینا چاہی تو اس نے کہا اپنے پاس ہی رکھو، جس نے منگوایا تھا ابھی چل کر اسے دے آتے ہیں۔“

”وہ مجھے اپنے ساتھ گلبرگ کی ایک کوٹھی میں لے گیا، جس کا گیٹ کے آگے بہت لمبا لان تھا، پھر اس کے بعد بلڈنگ تھی۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے کہ کچھ دیر میں ایک شخص لمبا سا کرتا، جیسے عربی پہنتے ہیں، ویسا لمبا سا کرتا پہنے اندر سے آیا، میرے دوست نے میرا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ پرزہ یہ لے آیا ہے اور مجھے کہا کہ انہیں دے دوں۔ اس نے وہ پڑی سی کھول کر وہ پرزہ دیکھا اور بولا ’ہاں، یہی ہے‘ ۔“

یہ سیٹھ عابد سے میری پہلی ملاقات تھی، وہ سیٹھ عابد تھا، اس نے وہ پرزہ دیکھ لینے کے بعد کسی کو فون کر کے بلایا اور تھوڑی دیر میں ایک اور لمبا تڑنگا شخص وہاں پہنچ گیا، واپسی پر میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یہ کس چیز کا آئی سی ہے اور جو شخص بعد میں آیا تھا، جس کے حوالے سیٹھ نے یہ پرزہ کیا وہ کون ہے؟ تو اس نے کہا ’یہ ایپل کمپیوٹر کا ایک آئی سی ہے اور ایٹم بم بنانے میں اس کی ضرورت پڑتی ہے اور جو بندہ بعد میں آیا تھا وہ فلاں جنرل تھا (اس نے ایک مشہور افسر کا نام لیا تھا) ۔

اس نے جب یہ سب بتایا تو ایک دفعہ تو سمجھو میری جان نکل گئی تھی، میں نے اسے کہا، ’کیوں مینوں مروان لگا سیں یار؟‘ ( کیوں مجھے مروانے لگے تھے یار؟ ) اس نے کہا تم نے آج اس ملک کے لئے بھی کوئی کام کیا ہے۔ اس پر مجھے بھی کچھ حوصلہ اور فخر محسوس ہوا اور سیٹھ عابد کے لئے بھی میرے دل میں بہت عزت پیدا ہو گئی۔ اس نے یہ ”اشٹوری“ سنانے کے بعد مسکراتے ہوئے قدرے شوخ لہجے میں کہا، ”ایٹم بم تے اصل وچ میں بنا کے دتا اے، ایویں ٹی وی تے لگے ہوئے نیں کہ اوہنے بنایا سی، نہیں اوہنے بنایا سی (در حقیقت تو ایٹم بم میں نے بنایا ہے )“ ۔
اس نے مزید کہا، ”اور ہاں! اب اس دوست کی وہاں دکان ہے نا وہ کبھی نظر آیا۔ کوئی اٹھارہ سال سے غائب ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments