واحد بلوچ تتلیاں پکڑنے نہیں گیا!


\"muhammadمیرے سامنے چائے کا کپ رکھا ہوا ہے۔ اُس میں سے گرما گرم بھاپ اڑ رہی ہے۔ موسم بھی سرد نہیں ہے۔ موسم تو ایسا ہے کہ سانس لینا دشوار ہورہا ہے۔ میرے سامنے ایک بلی بیٹھی ہوئی ہے، اور وہ مجھے دیکھ رہی ہے، نہیں معلوم کہ وہ کیا سوچ رہی ہے، پر وہ بلی لگاتار مجھے دیکھے جا رہی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بلی دُکھی ہے، گھر والوں سے معلوم کرتا ہوں، تو یہ پتا چلتا ہے کہ واقعی یہ بلی دُکھی ہے۔ کیوں کہ اِس بلی نے گزشتہ دنوں بچے دیے تھے۔ نہ جانے اس کے وہ بچے کون لے گیا، اور یہ بلی بن بچوں کے بہت ہی اُداس ہے۔ بس اب اِس کو ایک خامشی نے آن گھیرا ہے۔ یہ چپ رہتی ہے، اور اِس وقت تو اتنی چپ ہے کہ اِس سے مجھے ایک وحشت سی ہونے لگی ہے۔ میں دیکھتا ہو اس بلی کا دل غموں سے چور ہے، اور یہ بلی خاموش ہے۔ احوال یہ ہے، کہ اب بچوں کی جدائی میں روتی بھی نہیں۔

چائے کا کپ وہیں پر پڑے پڑے ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اب اِس میں سے پہلے جیسی بھاپ بھی نہیں اٹھ رہی ۔ اس بلی کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ درد کا کوئی دامن نہیں ہوتا۔ واقعی درد کا کیا دامن، اور کیا دل؟ درد تو درد ہوتا ہے، اس لیے مجھے آج اُس نا معلوم شاعر کا وہ شعر یاد آرہا ہے، جو بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ اس شعر میں ایسی کیفیت ہے کہ دل سے درد کی اک ٹھیس اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔

\’\’درد تو درد ہی رہا۔ اُلٹا بھی لکھا، سیدھا بھی لکھا! اِس لیے درد کی کیا کیفیت بیان کی جائے\’\’۔ ایسے ہی جیسے عشق کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی۔ ویسے ہی درد کی کیفیت بھی کون بیان کرسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ درد دامن کو نہ لگا ہو۔ یعنی دامن گیر نہ ہوا ہو۔ تب تک میں کیا آپ بھی اِس کیفیت سے واقف نہیں ہوسکتے۔ وہ اِس درد کی کیفیت سے خوب واقف ہے، جس کا نام ہانی واحد بلوچ ہے۔ ہانی واحد بلوچ ایک 21 برس کی بچی ہے اور اپنے دکھ میں اکیلی ہے۔\"hani\"

یہ درد اُس کو دامن گیر ہوچکا؛ وہ درد اب اس کے لیے اک سزا بن چکا ہے، پر یوں لکھا جائے تو اور اچھا ہوگا کہ اب اُس کے رات دن ہی درد کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ درد کا کوئی دامن نہیں ہوتا، پر یہ درد اب جس کے یہاں ٹھیرا ہے، اُس کا تو دامن بھی ہے، اور گھر بھی۔ یہ درد اب اس کے دامن گیر ہوچکا ہے، اور اس کا مہمان بھی۔ وہ اُس مہمان کو کیسے کہے کہ \’\’بہت ہوا، اب جاؤ\’\’۔ ہانی اُس سے کیسے کہے کہ \’\’جاؤ\’\’۔ وہ درد اپنے آپ آیا، نہ ہانی کے کہنے پر آیا ہے کہ ہانی کے کہنے پر چلا جائے، اور ہانی کا دل مزید نہ دُکھائے۔ درد کی اک کیفیت ہے جو ہانی نے اپنے بابا کے گم ہونے پر اپنے آپ پر سوار کر لی ہے۔ اس کے سوا درد کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ ہانی کا بابا جب آئے گا تو درد کی یہ کیفیت خوشی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ہانی ایک کلی کی طرح کھلِ اُٹھے گی۔ مولا کرے یہ کیفت ہانی پر جلد آئے۔

ابھی بابا نہیں آئے تو ہانی پر وہ کیفیت بھی نہیں آرہی جو خوشی کا سبب بنتی ہے۔ درد کو دُور کرتی ہے۔ ابھی ہانی خوشی اور درد کی کیفت کے بیچ میں رہ رہی ہے۔ لیکن اُس کا زیادہ جھکاؤ درد والی کیفت کی جانب ہے، کیوں کہ اس کے بابا جو نہیں ہیں۔ ہانی اتنی بچی بھی نہیں جس کو میں یہ نظم سنا کے خوش کردوں کہ اُس کا بابا دور تتلیوں کو پکڑنے گیا ہے، یا ہانی کو میں یہ نظم ہی سنا دوں کہ

ثمر فروش کی نگاہِ دوربین میں\"hani-wahd-baloch\"

اندھیرا درمیاں سے پھٹا

بہت سے سبز پوش تھے

کہ جن کا ریشمیں لبادہ سرخ تھا

گلِ انار سرخ ہونٹوں سے زیادہ سرخ تھا

پکے ہوئے پھلوں کی خوش بوئیں تھیں مجتمع

گھلی نہ تھی ابھی احاطہ سیاہ میں ہوا

مہک ابھی اُڑی نہ تھی

مقام متصل سے بے خبر

نقاب در نقاب مختصر سی بیل

تھی چھپی ہوئی دُلہن کی طرح اپنے آپ میں\"han-wah-bal\"

ابھی ہلے نہیں ہیں شاخچے

لزرتی ہے ابھی نوائے خوش موج زنِ جواں کی

ابھی طیور تک خموش ہیں

نہ جو کسی بھی ذوفنون سمت سے بڑھے

نہ جو کسی کے تازہ جسم و جان سے اُٹھے

دبیز خاموشی میں بولتا

دبیز خامشی کو چیرتا ہوا سروش ہے

چھڑک دیا کسی نے آبِ رز فشاں جھنڈ پر

چمک اُٹھا سفید دن

کھِلا ثمر فروش خوش بوؤں میں بند باغ دیکھ کر\"hani-wahid-baloch\"

ہزار رنگ والی تتلیاں

جو اک نحیف شاخچے سے لگ کے سورہی تھیں

جاگنے لگیں

سہاگنیں دورنگ توڑتی

سیاہ سے سفید ہوتی رات

عین آدھی رات کے دمکتے خواب کو

تیاگنیں لگیں

سیاہ بادلوں کی نرم اور مہین چادروں سے

باغ ڈھانپنے لگی

ثمر فروش کی نگاہ دُوربیں!

اِس نظم سے ہانی پر کیا اثر ہوگا! کچھ بھی تو نہیں۔ جب دل کو درد گھیر لیں تو ہمارے پاس اور رہ بھی کیا جاتا ہے؟ ہانی کی اِس وقت ایسی حالت ہے جیسا کہ کسی عرب شاعر نے کہا تھا کہ

صبت علی المصائب لو انھا

صبت علی الا یام صرن لیا لیا!

معنی: مجھ پر مصائب کے ایسے پھاڑ گرے ہیں۔ اگر یہ دن کی روشنی پر گرتے، تو یہ دن کی روشنی کالی رات میں بدل جاتی!

ہانی ان مصائب کے ساتھ اپنے بابا کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُس کے چلنے سے راہ میں دراڑیں پڑ گئیں ہیں۔ وہ دراڑیں کسے نظر آتی ہیں، اور اُن دراڑوں کو کون دیکھتا ہے۔ جب کہ وہ راستے خود اُن دراڑوں کی چغلی کھا رہے ہیں۔ آپ ذرا اُن راستوں کی لکیروں پر نگہ ٹکائیں، کان لگائیں؛ اُن دراڑوں سے آتی ہوئی آواز کو تو سنیں کہ وہ کیا کہتی ہیں۔

ایں سطرے جادہ پا کہ بصحرا نوشتہ اند

احوالِ رفتہ ایست کہ از پا نوشتہ اند!

معنی: راستوں کی یہ سطریں کہ ویرانے میں لکھی ہوئی ہیں۔ ہمارے گزرے دنوں کی روداد ہے، جو پاوں سے لکھی گئیں ہیں۔

\"wahid-baloch-family-at-kpc\"صرف یہی نہیں ہانی کا درد تو اِس سے بھی بہت آگے کا ہے، اور پانی بھی اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اِس بیٹی نے اپنے بابا کو تلاش کرنے کے واسطے، پانی پر بھی اپنے نشان چھوڑے ہیں۔

ایں سطرموج پا کہ بدریا نوشتہ اند

احوالِ گریہ ایست کہ ازھا نوشتہ اند

معنی: موجوں کی یہ سطریں کہ دریا پر لکھی ہوئی ہیں۔ ہمارے گریے کا احوال ہے جو پانی پر لکھا ہوا ہے۔

ہانی نے بہت گریہ کیا ہے پر درد کا کیا گریہ اور کیسا گریہ؟

اِس لیے ہانی کیا کرے سوائے گریہ کرنے کے یا تلاش کرنے کے!

میری نگاہیں پھر بلی کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ وہ بہت ہی غمگین ہے؛ اُداس ہے۔ تو ہانی کتنی اداس ہوگی اور کتنی دکھی ہوگی، جب کہ ہانی دل بھی رکھتی ہے اور درد بھی!

اگر درد کا کوئی دامن ہوتا تو درد اُس دامن میں سما جاتا، اور وہ بلی اپنا دامن جھاڑ کر اپنی زندگی کی طرف لوٹ آتی۔ جب درد کا کوئی دامن ہی نہیں تو وہ بلی اپنا دامن اُس درد سے کیسے چھڑائے؟ جس درد نے اُس بلی کو گھیرے ہوا ہے۔ بلی خاموش ہے، بچے کہاں ہیں؟ نہ میں جانتا ہوں نہ وہ بلی۔ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ وہ بلی اُن بچوں کے نہ ہونے سے بہت دُکھی ہے۔ اِس دُکھ نے اُس بولتی بلی کو اُس چیختی بلی کو، اُس رونے والی بلی کو ایسی خاموشی بخش دی ہے، کہ یہ لفظ خود بول رہے ہیں کہ \’\’درد کا کوئی دامن نہیں ہوتا!\’\’

کاش درد کا بھی کوئی دامن ہوتا۔ جسے جھاڑا جاسکتا۔ جس سے سارے درد نیچے گر جاتے۔ دکھ کا احساس کیے بغیر جیا جائے، اور خوب جیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments