تعلیمی اور سیاسی صورتحال


کسی بھی معاشرہ کی نشو و نما میں علم و تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو نہ صرف انسان کا کردار سنوارتی ہے بلکہ ترقی و خوشحالی میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ نہ صرف عوام کے لئے بنیادی تعلیمی سہولیات مہیا کرے بلکہ اساتذہ کے لئے بھی قابل عزت روزگار کا بندوبست کرے۔

عمران خان باتوں کی حد تک تو تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گزشتہ کالم میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کے مسائل کے حوالے سے لکھا تھا۔ اس پر بہت سے طلبہ اور بیروزگار پی ایچ ڈی ڈاکٹرز نے درپیش مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔ خیبر پختونخوا میں تو گھوسٹ سکول ہیں ہی مگر عمران خان کے آبائی علاقہ میانوالی میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔

یونیورسٹی آف میانوالی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل موجودہ حکومت نے ’یونیورسٹی آف سرگودھا‘ کے سب کیمپس کو یونیورسٹی آف میانوالی کا درجہ دیا تھا مگر باقی سہولیات دینا بھول گئے۔ ابھی تک ریگولر وائس چانسلر بھی نہیں لگایا گیا اور نہ ہی اساتذہ کو تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ چھوڑ کر جا رہے ہیں اور طلبہ کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ عمران کی توجہ اپنے ادارے نمل پر تو ہے مگر غریب طلبا کی درس گاہ پر نظر ڈالنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ان طلبا کے مسائل حل کیے جائیں تاکہ وہ اپنی پڑھائی یکسوئی سے مکمل کر سکیں۔

ڈاکٹر عائشہ بٹ صاحبہ نے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو درپیش مسائل کے حوالے سے اپنی تحریر بھیجی ہے۔ وفاقی حکومت سے گزارش ہے ان اعلی تعلیم یافتہ افراد کے مسائل کو حل کریں۔ یہ گزارشات انہی کے الفاظ میں پیش خدمت ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کرنے اور تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا قیام کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ 3600 کے تحت ملک بھر میں ایچ ای سی ویژن 2020 عمل میں لایا گیا۔ اس کمی پورا کرنے کے لیے قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے مختلف سکالرشپ پروگرام شروع کیے گئے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر پر حکومتی اسی لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک خرچ کرتی ہے۔ تاہم انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں اس وقت دو ہزار سے زائد پی ایچ ڈی کے فارغ التحصیل طلباء بے روزگار پھر رہے ہیں۔ اور شدید ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ان پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ یونیورسٹیاں نوکریوں کے لیے جب اشتہارات دیتی ہیں تو ان نوکریوں پر اپلائی کرنے میں ان کا تین ہزار سے پانچ ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے۔ تاہم اپلائی کرنے کے بعد ایک لمبے عرصے تک یونیورسٹیاں انٹرویو کے لیے یا تو بلاتی ہی نہیں ہیں یا یہی نوکریاں دوبارہ مشتہر کر دی جاتی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن خود اپنے ہی بنائے گئے اصول لاگو کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ ہر پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو ایک سالہ کنٹریکٹ کے تحت یونیورسٹیز میں بھیجا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ سلیکشن بورڈ میں انٹرویو دینے کے بعد اسی یونیورسٹی میں ایڈجسٹ ہو سکیں۔ تاہم افسوس کا مقام ہے کہ بیشتر یونیورسٹیاں ان پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کا ایک سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد ان کو سلیکشن بورڈ میں انٹرویو کا موقع دیے بغیر گھر بھیج دیتی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور بین الاقوامی ہونا چاہیے۔

المیہ یہ ہے کہ تمام یونیورسٹیز مختلف کورسز کو پڑھانے کے لیے مختلف اساتذہ کو وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر رکھ لیتی ہیں۔ اب تو صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے۔ کہ ایک ڈیپارٹمنٹ کے اندر دس سے پندرہ اساتذہ وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر کا کر رہے ہیں جس سے معیار تعلیم بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بعض یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو ایک سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر رکھ لیتی ہیں اور ان کے بقایا جات ادا کرنے میں نو ماہ سے بارہ ماہ تک لگا دیتی ہیں۔ جس سے ان کا معاشی استحصال ہوتا ہے۔

یہ معاشرے کا انتہائی پڑھا لکھا طبقہ اپنی روداد سنانے چار دفعہ بنی گالہ جا چکا ہے۔ لیکن ہر دفعہ حکومت وعدے کیے گئے لیکن عملی طور پر حکومت نے کچھ نہ کیا۔

پانچویں دفعہ احتجاج کرنے پر پولیس نے خواتین و حضرات پر بدترین تشدد کیا اور حوالات میں بند کر اور دنیا کی بہترین یونیورسٹی کا گریجویٹ کوئی پکوڑے بیچ رہا ہے، کوئی رکشہ چلا رہا ہے، اور کوئی ہوم ٹیوشنیں پڑھا کر اپنا خرچ پورا کر رہا ہے۔ ان بیروزگار طلباء میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں (مثلاً ہارورڈ اور نیو کاسل یونیورسٹی) کے گریجویٹ شامل ہیں۔

حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کا راگ الاپنا بند کرے اور عملی طور پر ان سائنسدانوں کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرے ورنہ یہی بہترین دماغ نوکریوں کی تلاش میں بیرون ملک نکل جائیں گے۔ جن لوگوں کو ایک سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا ہے حکومت ان یونیورسٹیوں کو پابند کرے کہ وہ ان پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو دوبارہ کنٹریکٹ مہیا کریں اور ان کو سلیکشن بورڈ میں انٹرویو کا موقع فراہم کریں۔

مزید براں حکومت ان بے روز گار پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے لیے چین، امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے وظائف کا انتظام کرے اور دو سال کے اندر اندر ان بیروزگار پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی مختلف تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں میں نوکریوں کا انتظام کرے۔

اب کچھ سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہیں۔ آٹا چینی کمیشن کی رپورٹ ویسی ہی آئی جیسی امید تھی۔ واجد ضیاء نے اصل حکومتی ذمہ داروں کو بالکل اسی طرح بچا لیا جیسے پانامہ کیس میں ملبہ نواز شریف پر گرایا تھا جن کا نام ہی نہیں تھا۔ آٹا چینی کی رپورٹ حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرے گی مگر حکومت کوئی بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔ دو جون کو نیب میں پیشی سے قبل عمران خان اور شیخ رشید کے شہبازشریف کی گرفتاری کے حوالے سے بیانات صرف نیب پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈہ ہیں لیکن شہبازشریف کی گرفتاری کے امکانات نہیں ہے۔ غالب امکان ہے کہ شہبازشریف کورونا وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے پیشی پر نہیں جائیں گے اور معاملہ اگلی پیشی تک ٹل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments