کوئٹہ ہزارہ ٹاؤن میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل: ’وجوہات جو بھی ہوں، ایسے ہہیمانہ جرم کا کوئی جواز نہیں‘


ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ نے کہا ہے کہ جمعے کو ہزارہ ٹاﺅن میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن اس بہیمانہ جرم کا کسی بھی معاشرے میں کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں۔

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق کوئٹہ میں پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تحقیقات کے علاوہ اس واقعے کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی بنائی گئی ہے جس نے پیر کو 12 بجے سے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاﺅن میں 29 مئی کی شب ایک ہجوم نے ایک حجام کی دکان میں تین افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جن میں سے بلال نامی نوجوان ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔

بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے ملزمان سے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے بتایا تھا کہ حملہ آوروں کو مبینہ طور پر اس بات پر اشتعال آیا کہ جن پر انھوں نے حملہ کیا وہ لوگ مبینہ طور پر علاقے کی خواتین کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کا ‘مشتعل ہجوم’

کیا پولیس افسر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہوئے؟

توہینِ مذہب کا الزام، مردان کی یونیورسٹی میں طالب علم ہلاک

کوئٹہ: مشتعل ہجوم کے تشدد سے نوجوان کی ہلاکت، 12 گرفتار، پانچ اہلکار معطل

تاہم زخمی ہونے والوں میں سے ایک شخص نیاز محمد بادیزئی نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ وہ حجام کی دکان پر پیسوں کی وصولی کے لیے گئے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک وٹز گاڑی دکان کے مالک کو دی تھی اور اس کے چار لاکھ 20 ہزار روپے اس نے دینے تھے۔ ان کے مطابق اس پر ان کا جھگڑا ہوا جس کے بعد ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن بعد میں اس واقعے کو غلط رنگ دیا گیا۔

ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ زخمیوں کو بہتر علاج کے لیے آغا خان ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ویڈیوز اور دیگر شہادتوں کی بنیاد پر 12 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے جواد اور ذوالفقار نامی افراد کو سب سے پہلے گرفتار کرنے کے علاوہ ’جواد کے گھر سے وہ گاڑی بھی برآمد کی گئی جس کا ذکر زخمی شخص نے اپنے بیان میں کیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان دونوں ملزمان کا چار روز کا ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے جبکہ 12 میں سے مزید تین افراد کی گرفتاری پیر کو عمل میں لائی گئی جن کا ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے منگل کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے مدعی نے بتایا کہ ان کو جب تک ہوش تھا تو انھوں نے دیکھا کہ ان پر تشدد کرنے والے لوگ تعداد میں 10 سے 15 تھے۔

ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ نے بتایا کہ پولیس کی ٹیمیں دو قسطوں میں جائے وقوعہ پہنچی تھیں اور وہاں پہنچنے والے پولیس کے اہلکاروں کے مطابق وہاں پر 400 سے 500 مشتعل افراد موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے الگ سے پولیس کی تین تحقیقاتی ٹیمیں بھی بنائی ہیں۔ ’ہماری یہ کوشش ہے کہ اس واقعے میں جتنے لوگ ملوث ہیں، خواہ وہ ایک ہے یا دو ہیں، سو ہیں یا چار سو ہیں، ان کا چالان جلد مکمل کر کے عدالت میں پیش کریں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق پہلا چالان 15 یوم کے اندر اندر جمع ہو۔‘

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جھگڑے کی وجہ جو بھی تھی، اس کے حوالے سے دونوں طرف سے باتیں آئیں گی اور جو باتیں آئیں گی پولیس ان کی تصدیق بھی کرے گی، ’لیکن بعد میں جو ایکشن لیا گیا اس کا کسی بھی طرح اخلاقی اور قانونی طور پر کسی معاشرے میں کوئی جواز نہیں۔‘

اے آئی جی نے بتایا کہ پولیس کے ایک کانسٹیبل پر سول ہسپتال کے قریب تشدد کیا گیا، جسے دوسرے پولیس والوں نے بچایا۔

’اس واقعے کی بھی ہم اسی طرح مذمت کرتے ہیں جس طرح پہلے والے واقعے کی۔ قانون ہاتھ میں لینا کسی کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔ اس واقعے کے ملزمان کے خلاف ہم اسی طرح کارروائی کریں گے جس طرح پہلے واقعے کے بارے میں کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس کانسٹیبل پر تشدد کے علاوہ ہزارہ ٹاﺅن واقعے کے حوالے سے شہر میں کوئی اور واقعہ پیش نہیں آیا جبکہ سوشل میڈیا پر افواہیں چل رہی ہیں جن کے خلاف کارروائی کے لیے انھوں نے ایف آئی کو خط لکھ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp