1857 کے مجاہد یا انگریز کے بابا لوگ


آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوں گردش کر رہی ہے۔ اس میں پنجاب اور بلوچستان کے کئی معروف سیاسی گھرانوں پر پھبتیاں کسی گئی ہیں۔ اور ایک الزام بار بار لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ یہ سیاستدان تو ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے دوران ”مجاہدین“ کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ اور ان کے بزرگوں کے ہاتھ 1857 کے ”مجاہدین“ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اور اس وڈیو میں خاص طور پر ان مجاہدین کا ذکر کیا گیا ہے جو دہلی اور اس کے گردو نواح میں بر سر پیکار تھے۔

پاکستان کے کئی اہم سیاسی خاندانوں کے بارے میں یہ الزامات بار بار سننے کو ملتے ہیں۔ جو محترمہ اس ویڈیو میں اظہار خیال فرما رہی تھیں انہیں اظہار رائے کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن یہی حق ہمیں بھی حاصل ہے۔ پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر کوئی صاحب آج کل سیاست میں سرگرم ہیں، تو کیا ہمیں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے اپنے نظریات کیا ہیں؟ اور اگر وہ کسی عہدے پر فائز رہے ہیں تو ان کی اپنی کارکردگی کیسی تھی؟ یا یہ بحث کرنی مناسب ہو گی کہ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل ان کے آباء و اجداد نے کس کا ساتھ دیا تھا؟

جب ان سب گھرانوں کی تاریخ کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں تو مناسب ہو گا کہ کچھ حقائق پیش کیے جائیں کہ 1857 کے مجاہدین خود کون تھے؟ اور اس جنگ میں انہوں نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ لیکن اس کالم میں صرف ان مسلمانوں کے گواہیاں پیش کی جائیں گی جو اس موضوع پر سند سمجھے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی اصحاب ان واقعات کے عینی شاہد گواہ تھے۔ یہ مجاہدین جنگ کے آغاز سے ایک دن پہلے تک انگریزوں کے تنخواہ دار ملازم تھے۔ اور جب وہ نام کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے حضور حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا

”خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی کا۔ انگریز لوگ آپ کی طرف سے مالک و مختار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم لوگ ملازم انگریزی ہیں۔ ہمیں لوگوں نے اپنی جانیں بیچ کر اور سر کٹوا کر کلکتہ سے لگا کر کابل کے ڈیرے تک فتح کر کے چودہ سو کوس میں عملداری انگریزی قائم کرا دی اور ہمیں لوگوں کی استعانت و امداد سے تمام ہندوستان پر تسلط ہو گیا۔ یہ ولایت سے کوئی فوج ہمراہ لے کر نہیں آئے تھے۔ سب ہندوستانی فوج کی کارگزاری ہے۔ شہادت کے واسطے ہمارے پاس تمغے موجود ہیں۔“ [ داستان غدر از ظہیر دہلوی ص 46 ]

تو یہ ”مجاہدین“ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کا خون بہا کر ہندوستان میں برطانوی راج قائم کیا تھا۔ اس کے بعد انگریز ریزیڈنٹ جب باغی فوج کے سامنے آیا تو اس نے کہا

”کیوں بابا لوگ! یہ کیا فتنہ و فساد تم نے برپا کر دیا۔ ہم لوگوں نے تم لوگوں کو رومال سے پونچھ کر تیار کیا ہے۔ ۔ ۔ یہ خبر نہ تھی کہ ہماری فوج ہمارے ہی مقابلہ کو تیار ہو گی۔ کیوں بابا لوگ! شرط نمک خواری یہی تھی کہ آج تم ہمارے مقابلہ کو تیار ہو۔“ اور ان فوجیوں نے کہا کہ حضور سچ کہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی پرورش آپ نے ہی کی اور ہم حق نمک کبھی نہیں بھولیں گے۔ [داستان غدر ص 50 ]

ظاہر ہے کہ یہ فوجی خود انگریز کے سب سے بڑے نمک خوار تھے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ دلی پر قبضہ کے بعد اس فوج نے کیا کارنامے کیے کہ خود گردو نواح کے مسلمان ان کے خلاف ہو گئے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب اپنی کتاب ”دہلی کی سزا“ میں لکھتے ہیں

”اس روز سے ان کم بختوں نے یہ ظلم اختیار کیا کہ جس کے گھر میں چاہتے گھس پڑتے تھے اور بہانہ یہ کرتے تھے کہ تمہارے گھر میں انگریز چھپے ہوئے ہیں۔ اس بہانہ سے لوگوں کے گھروں میں گھس کر تمام مال و اسباب لوٹ لاتے تھے۔“ [ 1857 مجموعہ خواجہ حسن نظامی ص 680 ]

دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد اس فوج کی علم دوستی کس طرح ظاہر ہوئی؟ اس کے متعلق مرزا غالب لکھتے ہیں

” میں نہیں جانتا 11 مئی 1857 کو پھر دن چڑھے وہ فوج باغی میرٹھ سے دلی آئی تھی یا خود قہر الہیٰ کا پے در پے نزول ہوا تھا۔ ۔ ۔ کتاب کوئی سی ہو اس کا پتہ کیوں کر لگے لوٹ کا مال کھتریوں میں بک گیا۔ اگر سڑک پر بکا تو میں کہاں جو دیکھوں۔“ [ 1857 مجموعہ خواجہ حسن نظامی ص 453 ]

اور ان حملہ آور فوجیوں نے عورتوں سے کیا سلوک کیا؟ اس کے متعلق مرزا غالب ”دستنبو“ میں لکھتے ہیں

”ساری نازنینان شہر کا زیور بزدل اور سیاہ کار رہزنوں کے قبضے میں ہے۔ [زیور و آرائش سے معریٰ ہونے کے بعد ] ان نازنینوں میں جو ہلکا سا نداز باقی رہا تھا۔ اس کو ان نو دولت گدا زادوں نے چھین لیا۔“ [ 1857 مرتبہ محمد اکرم چغتائی ص 53 ]

ان واقعات کے گواہ حکیم احسن اللہ خان نے دہلی پر قبضہ کرنے والی فوج کا یہ کارنامہ ان الفاظ میں بیان کیا

”جب یہ کارواں واپس ہوا تو پتہ چلا کہ مقامی افراد کو لوٹا اور مارا گیا۔ اور ان کی عورتوں نے عزت بچانے کی خاطر خود کشی کرنا پسند کی۔“ [ 1857 مرتبہ اکرم چغتائی ص 201 ]

انگریزوں کی جس فوج نے ان سے برگشتہ ہو کر دلی پر قبضہ کیا، ان کی بڑی تعداد ہندو تھی۔ اور انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے؟ اس کے بارے میں عبد الطیف صاحب اپنے روزنامچہ میں لکھتے ہیں

” اسلامی طریقہ کو بند کر نے کے لئے سرگرمی دکھائی گئی۔ ۔ ۔ یہ لوگ اپنے ہم مذہب مفسدوں کی راہنمائی میں شہر کے قصائیوں سے دست و گریبان ہوئے اور چار قصائیوں کا خون بہا دیا۔ جو مسجدیں سر بازار ہیں ان میں اذان کو منع کرتے ہیں۔“ [ 1857 مرتبہ محمد اکرم چغتائی ص 159 ]

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو کیا کسی کو سزا بھی ملتی تھی؟ یہ گواہی ملاحظہ کریں

” 9 جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا گیا جو شخص گائے ذبح کرے گا۔ وہ توپ کے منہ اڑایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ حکم صادر ہوا کہ بقر عید کے موقع پر بھی کوئی شخص گائے کی قربانی نہ کرنے پائے۔“ [ 1857 مجموعہ خواجہ حسن نظامی ص 531 ]

اور خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ جب انگریزوں نے دلی کا محاصرہ کیا تو دلی پر قابض فوج نے یہ نمونہ دکھایا

” شہزادوں نے جو فوج کے افسر تھے فوج سے ہر چند کہا کہ ہمت کرو اور مرد بنو۔ لیکن نمک حرام تلنگوں نے بھوک اور رسد نہ ملنے کا بہانہ کر کے جو کچھ دکانیں وغیرہ باقی رہ گئی تھیں۔ لوٹ کھسوٹ کر بھاگنا شروع کیا۔ سب سے پہلے تلنگوں کی تین پلٹنیں جو سلیم گڑھ اور جھروکہ قلعے میں متعین تھیں بھاگیں۔ پھر کیا تھا پھر تو ان کی دیکھا دیکھی بھاگڑ پڑ گئی اور جتنی باقی فوج تھی سب بھاگ گئی۔“ [ 1857 مرتبہ محمد اکرام چغتائی ص 694 ]

ان ”مجاہدین“ نے اپنے بادشاہ کو تنہا چھوڑا اور دلی لوٹ کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد بادشاہ ننگے سر ہمایوں کے مقبرے میں چھپ گیا۔ ہندوؤں نے سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر انہیں انگریز کے انتقام کا نشانہ بنایا۔ اب اگر آپ ان تمام سیاسی خاندانوں سے اس بات کا انتقام لینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ان ”مجاہدین“ کا ساتھ کیوں نہیں دیا تو آپ کی مرضی۔ شاید وہ اپنے اموال کا اپنی عورتوں اور اپنا کا وہ حشر نہیں کرانا چاہتے تھے جو دلی میں رہنے والے مسلمانوں کا ہوا تھا۔

(برادر محترم، اس میں ایک گواہی ڈپٹی نذیر احمد کی بھی ایزاد ہو سکتی ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے “مولوی نذیر احمد کی کہانی” میں تفصیلی روایت دی ہے۔ اس مضمون کا نصابی ٹکڑا منتخب کرتے ہوئے نجانے کیوں یہ حصہ حذف کر دیا جاتا ہے۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments