تسلیم فاضلی: ایسا فاضل جسے تسلیم کیا جا چکا


اظہار انور المعروف تسلیم فاضلی نے 1947 میں دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے تذکروں میں تاریخ پیدائش 1941 بھی ملتی ہے۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی آنکھ کا تارہ اور لاڈلے تھے۔ والد سید مرتضیٰ حسین دعاؔ ڈبایؤی اور دو بڑے بھائی صباؔ فاضلی (یہ جوانی میں ہی انتقال کر گئے) اور نداؔ فاضلی شاعر اور ادیب تھے۔ اس طرح گویا لکھنا لکھانا اور شعر گوئی تسلیم ؔفاضلی کی گھٹی میں تھی۔

ابھی یہ کافی چھوٹے تھے جب ان کو اس وقت کے جید اہل قلم کے پاس اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا؛ جیسے شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔمرادآبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ۔ یہ اور دیگر نامور ادبی شخصیات تسلیم ؔ فاضلی کے والد کے پاس آیا کرتی تھیں۔ گھر کی بیٹھک کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے والد اور بھائیوں کے ہمراہ چھوٹے بڑے مشاعروں میں بھی جانا شروع کر دیا۔ اس سب کا بہت خوشگوار اثر ہوا اور تسلیم ؔ فاضلی نے کم عمری ہی میں شعر کہنے شروع کر دیے۔ وہ میٹرک کا امتحان دینے کے فوراً بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔

تسلیم ؔفاضلی نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی سے انٹر سائنس پھر اسلام آباد سے فنون میں بی اے کیا۔ ان کی والدہ کی شدید خواہش تھی کی ان کا کوئی بچہ تو ڈاکٹر یا انجینئر بنے لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تمام عرصے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا البتہ اسلام آباد میں شاعری پر بھرپور توجہ دی اور فلمی دنیا میں جا داخل ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابرپیدا کیا لیکن کچھ لوگوں کو اللہ کی طرف سے خاص صلاحتیں عطا ہوتی ہیں پھر کامیابی کے لئے اگر قسمت کی یاوری حاصل ہو جائے تو معاملہ سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔ تسلیم ؔفاضلی کے ساتھ یہ سب رہا۔ قسمت جو مہربان ہوئی تو یہ فلمی دنیا کے کرتے دھرتوں کی نظروں میں آ گئے یوں محض 21 سال کی عمر میں 1968 میں تسلیم ؔ فاضلی کی قسمت کا تارہ دن بہ دن، ماہ بہ ماہ ترقی اور شہرت کی جانب رواں ہو گیا۔

انہوں نے سب سے پہلے سید شوکت حسین رضوی کی فلم ”عاشق“ ( 1968 ) کے گیت لکھے۔ اس میں موسیقار ناشاد کی دل پذیر موسیقی میں رونا لیلیٰ اور مہدی حسن کی آوازوں میں یہ گیت۔ : ’اے گل نو بہار جھوم، اے دل بے قرار جھوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی دھن میں رونا لیلیٰ کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح خوشی کا تاثر چھلکتا ہے جب کہ اسی دھن میں مہدی حسن کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح غم ہے۔ اس قسم کا کام میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔ اس گیت کی مقبولیت کے با وجود یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی۔ اور اس کے بعد سید صاحب نے پھر کوئی فلم نہیں بنائی۔

بانسری کے استاد، سلامت حسین بھائی خاکسار سے بہت شفقت کرتے ہیں۔ ملاقاتیں بھی رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں موسیقار اے حمید، موسیقار ناشاد اور گیت نگار تسلیم ؔ فاضلی صاحبان کا ذکر ہوا۔ کہنے لگے :

” میری فیملی ان دنوں کراچی ہی میں تھی۔ میں اکیلا لاہور آیا تھا۔ میں، ناشاد صاحب اور تسلیمؔ فاضلی ہم تینوں کافی عرصہ چوبورجی کے پاس ایک مکان میں رہتے رہے۔ چھت پرراتوں کو کھلے آسمان کے نیچے اچھے موسم میں چارپایاں لگ جاتیں اور ہم تینوں گپ شپ کیا کرتے۔ تسلیم ؔ ابھی نووارد تھا البتہ ناشاد صاحب کا بھارتی فلمی دنیا میں خاصا مقام تھا۔ دیکھنے میں تسلیمؔ سنجیدہ نظر آتا تھا لیکن برمحل چٹکلوں کا ماہر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

اللہ نے تسلیم ؔ فاضلی کو دولت و شہرت سے مالا مال کر دیا۔ ان کے لکھے گیتوں نے مقبول عام ہو کر ایسا جادو کیا کہ فلم نگری کے پنڈت ان کے پیچھے ہو لئے۔ ہر ایک فلم ساز کی کوشش ہوتی کہ تمام نہیں تو کچھ گیت تو ان سے ضرور لکھوائے جائیں۔ پھر بہت جلد ایسا بھی ہوا کہ کیا اداکار اور کیا اداکارائیں ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ تسلیم ؔ فاضلی کا لکھا ایک گیت اس پر بھی فلمایا جائے۔ میری اس بات کی دلیل خود وحید مراد ( 1938 سے 1983 ) کی زندگی کی آخری سلور جوبلی فلم ”ہیر و“ ( 1985 ( ہے۔ وحیدمراد نے بہت چاؤ سے تسلیم ؔ فاضلی سے مذکورہ فلم کے گیت لکھوائے تا کہ فلم کو قبول عام حاصل ہو سکے۔ لیکن صد افسوس! کہ وحید مراد کے دنیا سے جانے کے بعد یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی۔

تسلیم ؔفاضلی کو تین مرتبہ بہترین گیت نگار کے نگار ایوارڈ حاصل ہوئے :

پہلا ایوارڈ فلم ”شبانہ“ ( 1976 ) ، ’تیرے سوا دنیا میں کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مہدی حسن اور موسیقار ایم اشرف۔ دوسر ا نگار ایوارڈ فلم ”آئینہ“ ( 1977 ) ، ’مجھے دل سے نہ بھلانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ موسیقار روبن گھوش ؛یہ گیت فلم میں 4 مرتبہ ان آوازوں میں ریکارڈ ہوا: نیرہ نور، مہدی حسن اور مہناز کا دوگانا، عالمگیر اور مہناز کا دوگانا اور مہدی حسن کی آواز۔ تیسرا نگار ایوارڈ فلم ”بندش“ ( 1980 ) ، ’تجھے دل سے لگا لوں، پلکوں میں چھپا لوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ موسیقی روبن گھوش اور آواز مہناز۔

مجھے مشہور فلمی شخصیت علی سفیان آفاقی ؔنے بتایا کہ وہ اپنی ذاتی فلم ”آس“ ( 1973 ) بنا رہے تھے۔ نثار بزمی موسیقار اور مسرورؔ انور گیت نگار تھے۔ کسی وجہ سے مسرورؔ بھائی مصروف ہو گئے تو باہم رضا مندی سے تسلیم ؔفاضلی کو بلوایا گیا اور منٹوں میں یہ گیت تیار ہو گیا:

میری مرضی میں تو گاؤں گی
میں پائل چھنچھناؤں گی
دن ہو نہ سکے گا ہائے
کوئی سو نہ سکے گا ہائے
رت جگا ایسا مناؤں گی

اس گیت کا پس منظر یہ تھا کہ ہیروئن رات کو گھر والوں کو تنگ کرتی ہے نہ سوتی ہے نہ سونے دیتی ہے۔ تسلیم ؔفاضلی نے عملاً یہ سین سن کر محض چند منٹوں میں پورا گیت بزمی صاحب کے سامنے بیٹھ کر ان کے مشورے سے لکھ ڈالا۔ یہ گیت انٹر نیٹ پر دستیاب ہے، آپ بھی دیکھئے۔ تسلیم ؔفاضلی کی ان ہی خصوصیات کی بنا پر مسرور ؔ بھائی کہا کرتے تھے : ”تسلیم ؔ فاضلی ایسے فاضل ہیں جنہیں تسلیم کیا جا چکا ہے“ ۔

موسیقار خلیل احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے استاد امانت علی خان کی آواز میں ابن انشاء ؔ کے گیت : ’انشاء ؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ کی دھن بنائی تھی۔ یہ گیت بہت زیادہ مقبول ہو ا۔ فلمسازایس سلیمان کی فلم ”طلا ق ’‘ ( 1976 ) میں اسی میٹر، اسی دھن پر موسیقار خلیل احمد نے تسلیم ؔفاضلی سے یہ گیت لکھوایا: ’قدموں میں تیرے جینا مرنا اب دور یہاں سے جانا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’اسے ملکہ ترنم نورجہاں نے صدا بند کروایا۔ اتفاق دیکھئے کہ یہ گیت بھی ٹیلی وژن والے گیت کی طرح عوام میں مقبول ہوا۔

اس پر ابن انشاء ؔ بہت ناراض ہوئے اور روزنامہ جنگ کراچی میں اپنے کالم میں یہ شعر لکھ کر دل کا حال بیان کیا: ”اے یار، یار جانی یہ دیس ہے ٹھگوں کا، یاں اک نگاہ چوکی اور مال دوسرے کا“ ۔ فلمی حلقوں میں بھی یہ بحث چھڑی۔۔۔ ۔ ۔ کہ یہ صحیح ہوا یا غلط! میری رائے کے مطابق گیت ’انشاء ؔ جی اٹھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ جتنا ابن انشاء ؔ کا ہے اتنا ہی موسیقار خلیل احمد کا بھی ہے۔ اگر گیت کے بول ابن انشاء ؔ کے تھے تو دھن خلیل احمد کی تھی۔

رہی بات بالکل اسی ”میٹر / بحر“ پر دوسرے شاعر سے بول لکھوانے کی تو یہ لکھوایا جا سکتا تھا کیوں کہ موسیقار ایک ہی تھا۔ اسی ایک کالم کے بعد ابن انشاءؔ نے شاید دوبارہ اس بات کا شکوہ نہیں کیا۔ اس تمام قصے میں کسی کی جرا ت نہیں ہوئی کہ وہ مادام نورجہاں سے پوچھتا کہ انہوں نے تسلیمؔ ؔفاضلی کا یہ گیت کیوں صدا بند کرایا؟

فلم ”میرا نام ہے محبت“ ( 1975 ) ، ’یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، ’گلوکار: مہدی حسن، موسیقار ایم اشرف، فلم ”آئینہ“ ( 1977 ) ،‘ مجھے دل سے نہ بھلانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، آوازیں : نیرہ نور، مہدی حسن، مہدی حسن اور مہناز، مہناز اور عالمگیر، موسیقی روبن گھوش، فلم ”افشاں“ ( 1971 ) ،‘ خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے، کسی کا نام لوں لب پر تمہارا نام آئے ’آواز مہدی حسن اور نورجہاں کے الگ الگ گیت، موسیقار ناشاد، فلم ”زینت“ ( 1975 ) ،‘ رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا سامان ہو گئے، پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے ’، آواز مہدی حسن، موسیقار ناشاد، فلم ”بندش“ ( 1980 ) ،‘ سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کو میں دے سکوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، آواز اخلاق احمد، موسیقار روبن گھوش، فلم

” انصاف اور قانون“ ( 1971 ) ، ’سو برس کی زندگی میں ایک پل تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز مہدی حسن، موسیقار ایم اشرف، فلم ”من کی جیت“ ( 1972 ) ، ’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، آواز رونا لیلیٰ، موسیقار ایم اشرف، فلم ”میرے حضور“ ( 1977 ) ،‘ ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، اسے مہدی حسن اور نورجہاں نے الگ الگ گایا، موسیقار ایم اشرف، فلم ”دامن اور چنگاری“ ( 1973 ) ،‘ ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، آواز مہدی حسن، موسقار ایم اشرف، فلم ”تم ملے پیار ملا“ ( 1969 ) ،‘ آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’، نورجہاں اور مہدی حسن کی آوازوں میں دوگانا، موسیقار ناشاد، فلم ”شمع“ ( 1974 ) ،‘ کسی مہربان نے آ کر میری زندگی سجا دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’آواز ناہید اختر، موسیقار ایم اشرف۔
مقبولیت کا اہم موڑ اور عاجزی:

میری تحقیق کے مطابق فلم ”من کی جیت“ ( 1972 ) کے فوراً بعد کیا چھوٹے کیا بڑے فلمساز، سب تسلیم ؔ فاضلی سے اپنی فلموں میں گیت لکھوانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ شبابؔ پروڈکشن کی فلموں میں ان کے گیتوں نے چار چاند لگا دیے اور فلم ”میرا نام ہے محبت“ کے گیتوں نے تسلیمؔ ؔفاضلی کو صف اول کے گیت نگاروں میں شامل کروا لیا۔ بیشک یہ اللہ کی عطا تھی اور ان کی عاجزانہ فطری انکساری بھی اللہ کی ودیعت تھی جس کی بدولت انہوں نے 1968 سے 1982 تک کے فلمی سفر میں ایک خصوصی مقام پایا۔ فلم نگری میں دولت اتنا دماغ خراب نہیں کرتی جتنا شہرت کرتی ہے۔ فلمی نگار خانوں میں ان کا طوطی بولتا تھا اور عوام کے دلوں میں یہ مقبول ترین تھے لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ تسلیم ؔ فاضلی کی عاجزی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

چونکہ تسلیم ؔفاضلی کا شعبہ شاعری تھا لہٰذا فلم سے ہٹ کر بھی کچھ نمونۂ کلام پیش ہے :

آؤ جانچ لیتے ہیں درد کے ترازو پر
کس کا غم کہاں تک ہے شدتیں کہاں تک ہیں
کچھ عزیز لوگوں سے پوچھنا تو پڑتا ہے
آج کل محبت کی قیمتیں کہاں تک ہیں
گزر چلی دبے پاؤں شام عید
خیال یار جو آیا تو آنکھ بھر آئی
لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے
مر گئے ہم تیرے معیار تک آتے آتے
ہم سمجھتے تھے کہ کچھ وقت لگے گا شاید
اک انکار کو اقرار تک آتے آتے
ایک لمحے کی مسافت بھی بڑی ہوتی ہے
ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے
میری تباہیوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
میں سب سے کہہ رہا ہوں مقدر کی بات ہے
اپنے ہی سائے سے ہر دم لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں تیرے بھولنے والے کہ تجھے
یاد کرنے کے لئے عمر پڑی ہو جیسے

مجھے بھی گانے اور بجانے کا شوق ہے۔ یہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ کیا پاکستان، کیا افریقہ اور کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ، میں نے جہاں جہاں موسیقی کے پروگرام کیے وہاں ایک بھی ایسا پروگرام نہ تھا جہاں کسی نے مجھ سے مندرجہ ذیل گیت کی فرمائش نہ کی ہو۔ اور تو اور جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے افراد کی گھریلو محافل جیسے فیملی گیٹ ٹو گیدر، سالگرہ، ڈھولکی یا مہندی کے موقع پر لڑکیاں اور مقبول گیتوں کے ساتھ یہ ضرور گاتی تھیں :

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جاں، پھر جان جاں پھر جان جانا ں ہو گئے
پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے
آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے

پاکستانی فلمی صنعت کی ایسی کئی معروف شخصیات ہیں جن سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ لیکن یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ رہا۔ اس طرح ان گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے سے خود ان ہستیوں کے ساتھ بھی خاصی شناسائی پیدا ہو گئی۔ ایک ایسا ہی معلومات کا سرچشمہ علی سفیان آفاقی ؔ بھی تھے۔

میں 2009 سے 2011 کے درمیان لاہور کے ایک ٹیلی وژن چینل سے منسلک رہا۔ اتفاق سے یہ نوائے وقت گروپ کے ہفت روزہ فیملی میگزین کے دفتر کے قریب واقع تھا اور علی سفیان آفاقیؔ اس کے انچارج تھے۔ جس روز پرچہ پریس میں جاتا اس روز انہیں کچھ فرصت ہوتی۔ لہٰذا میں اس دوپہر ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دلچسپی سے ان کی باتیں سنتا۔ تسلیم ؔ فاضلی اور اداکارہ نشو کی شادی، پھر اس کی ناکامی پر بھی کافی گفتگو ہوئی؛ لیجیے میں اس کا نچوڑ پیش کرتا ہوں :

شعری ذوق اور تاش کا کھیل ’بریج‘ اداکارہ نشو اور تسلیم ؔفاضلی کے مشترک شوق تھے۔ فرصت کے اوقات میں کبھی کبھار محفل جم جاتی۔ لیکن جب بات مزید آگے بڑھی تو تسلیم ؔکے مخلص ساتھیوں نے آنے والے حالات سے انہیں خبردار کر دیا۔ نشو کے پہلے شوہر انعام ربانی، اپنی بیوی اور بچی ( صاحبہ) کو پاکستان میں چھوڑ کر ملک سے باہر تھے۔ مقدور بھر کوشش کے بعد بالآخر نشو نے ان سے طلاق لے لی۔

اب جب تسلیم ؔفاضلی نے نشو سے شادی کا سوچا تو تسلیمؔ فاضلی کے خاندان نے فلمی خاتون کے ساتھ شادی کی سخت ترین مخالفت کی۔ عجیب نا قابل فہم بات تھی! ایک طرف فلمی خاتون سے شادی کی مخالفت تو دوسری طرف خود تسلیم ؔ ؔفاضلی اور ان کے بڑے بھائی، بھارتی فلمی صنعت کے معروف گیت نگار ندا ؔفاضلی کا اوڑھنا بچھونا ہی فلمی صنعت تھی۔ بالآخر تسلیمؔ فاضلی نے اس سے شادی کر لی۔ لیکن تسلیم ؔ کے خاندان نے اس شادی کو قبول نہیں کیا۔ فلمی صنعت سے وابستگی جتنی نشو کے لئے باعث نفرت اور بری تھی منطق کے لحاظ سے تسلیم ؔ اور نداؔ کے لئے بھی اتنی ہی بری اور قابل نفرت ہونا چاہیے تھی۔ جو چیز نشوکے لئے بری وہ ان کے لئے کیسے اچھی ہو گئی؟ یہ تو کھلی منافقت تھی۔

جب ان کی بیٹی ( مدیحہ) پیدا ہو ئی تو بجائے امن کے، مخالفت مزید بڑھ گئی۔ یہاں دو پہلو بہت اہم ہیں :

پہلا پہلو یہ کہ نشو اداکارہ کی حیثیت سے ایک فلمی شاعر سے بہت زیادہ معاوضے پر کام کرتی تھی۔ نشو کا ہاتھ اور اخراجات بھی اسی حساب سے لمبے چوڑے تھے۔ دوسرا پہلو یہ کہ تسلیم فاضلیؔ اپنے خاندان والوں کو بہتر سمجھتے تھے۔ انہیں یا تو یہ شادی کرنا ہی نہیں چاہیے تھی اور جب کر ہی لی تھی تو پھر ہر قیمت پر نشو سے نبھانے کی کوشش کرتے اور خاندانی دباؤ برداشت کرتے۔ لیکن لگتا ہے کہ وہ شاید سب کو خوش رکھنے کے چکر میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے۔

ا س کہانی کا جوانجام ہوا وہ تو ہونا ہی تھا۔ اس ناکام شادی میں نشو کو قصور وار ٹھہرانا بالکل غلط ہے۔ خود تسلیم ؔ ؔفاضلی نے اپنی خاندانی پیچیدگیوں کے سامنے پسپائی اختیار کی۔ اس طرح نشو اپنی بچی ( مدیحہ) تسلیم ؔ فاضلی کے خاندان کے حوالے کر کے واپس گجرات چلی گئی۔ کون جانتا تھا کہ 1969 میں لکھے گئے یہ اشعار آخر زمانے میں خود تسلیمؔ فاضلی کے حالات پر صادق آئیں گے :

آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں
آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں
ہم تو سمجھ رہے تھے یہ تم ملے پیار مل گیا
اک تیرے درد کے سوا ہم کو تو کچھ ملا نہیں
شیشۂ دل کو توڑنا ان کا تو ایک کھیل تھا
ہم سے ہی بھول ہو گئی ان کی کوئی خطا نہیں
کاش وہ اپنے غم مجھے دے دے تو کچھ سکوں ملے
وہ کتنا بد نصیب ہے غم ہی جسے ملا نہیں
جرم ہے گر وفا تو کیا، کیوں بے وفا کو چھوڑ دوں
کہتے ہیں اس گناہ کی ہوتی کوئی سزا نہیں

وہ ان کی زندگی سے تو چلی گئی لیکن دل سے نہ جا سکی۔ دل بھی کس کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاعر کا! ! اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مزید دل کو نہ سنبھال سکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں اور محض 35 سال کی عمر میں اپنی مقبولیت اور فلمی سفر کے عین عروج میں یہ حقیقی واردات قلبی برداشت نہ کر تے ہوئے 17 اگست 1982 کو راہی عدم ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments