کرونائی قیاس آرائیاں


کرونا وائرس سے زندگی عجیب صورت حال سے دوچار ہے، کسی سے ملنا یا ہاتھ ملانا تو درکنار گھر سے نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ نزلہ زکام یا کھانسی کی صورت میں اس ڈر سے ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے کہ کہیں کرونا پوزیٹیو نہ آ جائے اور لوگ شدید بیماریوں میں بھی گھروں میں مقید ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند دنوں میں میرے ارد گرد کئی ایسی اموات بھی ہوئیں جن کے بارے میں، میں بذات خود بھی کلیئر ہوں کہ ان کو کرونا وائرس نہیں تھا مگر ہسپتال والوں نے ان کی اموات کو کرونا وائرس ہی قرار دیا۔

پھالیہ میں ایک عزیز کے چچا جان کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا اور نازک حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹرز نے ان کا علاج کرنے کی بجائے فوری طور پر کرونا ٹیسٹ کروانے کا آرڈر جاری کیا، کرونا ٹیسٹ پوزیٹیو آ گیا اور ایسے میں وہ انتقال کر گئے۔ اب ان کے گھر والوں سے سمیت اہلیان علاقہ اس بات پر مصر ہیں کہ ان کا انتقال کرونا نہیں ایکسیڈنٹ تھا مگر ہسپتال والوں نے اس موت کو کرونا وائرس ہی قرار دیا۔ ایسے ہی ہمارے ایک محترم دوست کے دادا جان بیمار ہوئے اور ہسپتال میں داخل کروا دیے گئے، دو دن بعد ان کا ٹیسٹ بھی پوزیٹیو آ گیا اور گھر والوں سمیت دادا جان خود بھی چیخیں مارتے رہے کہ مجھے ایسی کوئی بیماری نہیں کہ وینٹی لیٹر پہ رکھا جائے مگر انہیں بھی ایک ہفتہ وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اور یوں وہ بھی جان کی بازی ہار گئے۔

ایسے ہی ہمارے ایک عزیز جو منڈی بہا الدین میں پیشے کے لحاظ سے وکالت کرتے تھے، گزشتہ چار سال سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ انہیں بیس رمضان کو شوکت خانم کچھ ٹیسٹ کروانے کے لیے لایا گیا تو انہیں بھی کرونا وائرس کا شکار کہہ کے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا اور یوں چاند رات کو اس وکیل کا بھی انتقال ہو گیا۔ گھر والوں نے زبردستی ان کی ڈیڈ باڈی وصول کی اور انہیں ہمارے معروف مذہبی اسکالر جناب محمد ضیغم مغیرہ نے جنازہ پڑھا کر دفن کیا۔ ان کے گھر والے بھی حکومت کو مسلسل گالیاں دے رہے ہیں کہ یہ کرونا وائرس محض ایک ڈرامہ ہے۔ کوئی نارمل حالت میں بھی ہسپتال جاتا ہے تو واپس کرونائی وفات کے بعد آتا ہے۔

مزید کئی ایسی قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں جن کی صداقت پر بہت لوگ یقین کرنے لگ گئے ہیں۔ وہ یہ کہ سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں تو کرونا پوزیٹیو آتا ہے اور اگر پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں تو کرونا نیگٹیو یعنی کرونا صرف سرکار سے وابستہ کسی بیماری کا نام ہے جو باہر کی لیبارٹریوں میں کہیں موجود نہیں۔

خیر عوامی کی قیاس آرائیوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ہمارے ہاں یہ چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ کرونا مریض اگر مرتا ہے تو حکومت کو پندرہ ہزار ڈالر ملتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ کرونا مریض پاکستان والے چین کو اور چین والے امریکہ کو بیچتے ہیں (اگرچہ یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں مگر یہ آئے دن بڑھتی جا رہی ہیں ) ۔ ہمارے ایک دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”یہ سب عمران خان ہی کروا رہا ہے کیونکہ یہودی چاہتے تھے پاکستان میں مساجد کو بند کر دیا جائے لہٰذا کرونا لایا گیا۔“ میں نے ان سے سوال کیا کہ جناب پھر مسجد نبوی ﷺ اور مکہ مکرمہ کو کیوں بند کروایا گیا؟ جس پر وہ طنزیہ ہنسے اور خاموش ہو گئے۔

یہ وہ چند واقعات یا قیاس آرائیاں ہیں جو میں گزشتہ ایک ماہ سے سن رہا ہوں۔ دو روز قبل ایک نجی ٹی وی پر بھی ایسا ہی ایک واقعہ دکھایا گیا جس میں ایک مریض کی ڈیڈ باڈی ہسپتال سے اس کے اہل خانہ چھین کر یہ کہتے ہوئے لے گئے ”کہ اسے کرونا نہیں تھا، لیکن اسے خود مار دیا گیا“ ۔ ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں کچھ نہ کچھ سچائی تو ہوتا ہے، پبلک ایسی بھی پاگل نہیں کہ جو غلط شور شرابا کرے، کیا پورے پاکستان کے عوام ہی پاگل ہیں اور صرف حکومت ٹھیک ہے؟

حکومت اس بات پر کیوں خاموش ہے اور عوام کو کیوں نہیں اعتماد میں لیا جا رہا اور حکومت یہ بھی کلیئر کرے کہ اگر کسی کے اہل خانہ کو یقین نہیں کہ ان کے مریض کی موت کرونا وائرس سے ہوئی ہے تو انہیں مکمل آزادی دی جائے کہ وہ جہاں سے چاہیں، ٹیسٹ کروا لیں تاکہ ان کا شک ختم ہو سکے۔ مگر یہاں تو صورت حال ہی عجیب ہے مریض کے مرنے کے بعد بھی ہسپتال انتظامیہ کسی قسم کا واضح ثبوت فراہم نہیں کر سکتی کہ مریض واقعی ہی کرونا وائرس سے انتقال کر گیا ہے یا اسے کوئی اور بیماری تھی۔

بس یہی صورت حال پورے ملک میں ہے اور لوگ سنجیدہ بیماری میں بھی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ ان پر زبردستی کرونا پوزیٹیو ڈال کر باہر کے ملکوں سے فنڈز لیے جائیں گے یا قرضے معاف کروانے کا یہ محض ایک ٹوپی ڈرامہ ہے جس میں حکومت اور حکومتی کے تمام حامی ملوث ہیں۔ میں اگر کہیں کسی محفل میں بیٹھ کر کسی کو کرونا سے بچنے کی تلقین کرنے لگتا ہیں تو ایسے ہی درجنوں واقعات مجھے سنا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے اور یوں میری ساری تبلیغ رائیگاں چلی جاتی ہے۔ یا دوسری صورت میں یہ سننا پڑتا ہے کہ ”آپ تو صحافی ہیں اور آپ بھی جھوٹ ہی بولیں گے“ ۔

اللہ بھلا کرے ہمارے ایک محترم اسکالر کا جنہوں نے اپنی تقریر میں میڈیا کو جھوٹا قرار دے کر عوام کی دیرینہ خواہش کو پورا کر دیا۔ چھوٹے شہروں میں کرونا وائرس اس قدر سنجیدہ نہیں لیا جا رہا جیسے لاہور یا دیگر بڑے شہروں میں لوگ کسی حد تک سنجیدہ ہیں۔ میں گزشتہ کئی دن سے لاہور میں ہوں اور لاہور شام پانچ بجے خوف ناک خاموشی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

کیا خوبصورت اور پررونق شہر تھا میرا سوہنا لاہور جسے کرونا وبا کی نظر لگ گئی مگر خدا ہمیں اس امتحان سے بھی جلدی نکالے گا بس حکومت اور عوام اپنا قبلہ درست کر لیں۔ میں ذاتی طور پر اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ کرونا واقعی مہلک وائرس ہے اور ہمیں اس سے بچنے کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر بروئے کار لانی چاہیں مگر حکومت اس معاملے میں ہسپتال انتظامیہ کو واضح کرے کہ کرونا سے وفات ہو یا ویسے، خدارا لاشوں کی بے حرمتی نہ کی جائے اور مزید یہ کہ حکومت ہسپتالوں میں جتنی تیزی سے ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ڈاکٹرز کا شور بالکل بجا تھا کہ انہیں مکمل احتیاطی کٹس فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے اب یہ بیماری ڈاکٹرز میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔

جہاں تک بات کرونا کی ہے تو ایسے افواہیں بلاشبہ فضول ہیں کہ ڈاکٹرز ہر مریض کو خود ڈیتھ انجکشن لگا کر مار رہے ہیں، صرف کرونا اموات کی تعداد بڑھانے کے لیے۔ مزید جو معلومات حکومت کی جانب سے کرونا اموات کی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں وہ بھی غلط اور فیک ہیں سو ان تمام معاملات کو حکومت سنجیدگی سے لے تاکہ پبلک حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments