مفتی منیب الرحمان بمقابلہ فواد چوہدری: اختلافات اور حقیقت


مفتی منیب الرحمان اور فواد چوہدری کے درمیان قضیے میں پہلی اختلافی بات : رویت ہلال میں اصول مذہب ہے نہ کہ سائنس اور اختلاف کی صورت میں اعتبار مذہبی تعلیمات کا کیاجائے گا نہ کہ سائنس کا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تمام علوم کا حامل ہونے کے باوجود روزے اور عید کا سبب رویت کو قرار دیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے علم دو قسم کا ہوتا ہے ؛ایک قطعی اور یقینی اور دوسرا ظنی اور تخمینی۔ دنیا کے تمام مذاہب کا اتفاق ہے کہ قطعی اور یقینی علم کا منبع اور مصدر ذات الہی ہے جوانبیاء و مرسلین کو بذریعہ وحی حاصل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ تمام ذرائع چاہے وہ سائنسی ہوں یا غیر سائنسی، سے حاصل ہونے والا علم ظنی اور تخمینی ہے جس میں تبدیلی اور تنسیخ کا امکان بہر حال موجود ہوتا ہے۔ خود سائنس بھی اسی اصول کی گواہی دیتی ہے کیونکہ وقت اور تحقیق کے ساتھ ساتھ اس کی کئی تعلیمات اوراصول تبدیل ہوتے رہے ہیں جیسا کہ کسی دور میں زمین چوکور تھی، پھر گول ہوئی اور آج کل بیضوی شکل کی ہے۔ آپ ﷺ کا علم چاہے وہ وحی متلو (قرآن) ہو یا غیر متلو (حدیث) ، چونکہ قطعی اور یقینی ہے لہذا رویت ہلال میں اصول نبی کریمﷺ کا یہی فرمان ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی عید مناؤ۔

فریقین کے مابین دوسری اختلافی بات : سائنس اور مذہب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر بظاہر کوئی اختلاف ہوتا بھی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ دین اور سائنس باہم معارض ہیں بلکہ اس اختلاف کی وجہ انسان کی کم علمی ہے کیونکہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ کسی بھی انسان کی کوئی تحقیق حتمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بہتری اور تصحیح کا امکان موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ دین اسلام کی تمام تعلیمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جن کاغلط ہونا ممکن نہیں ہے لہذا سائنس سمیت دینا کے تمام علوم دین کی تائید تو کر سکتے ہیں لیکن اس کو غلط ثابت نہیں کرسکتے۔ لہذا رویت ہلال کے مسئلے میں سائنس سے مدد لی کا سکتی ہے لیکن فیصلہ بہرحال فرمان مصطفیٰ کو ہی بنایا جائے گا۔

تیسری اختلافی بات : فواد چوہدری صاحب کاکہنا ہے کہ رمضان اور عید کا فیصلہ ان کے سائنسی بنیادوں پر بنائے گئے کیلنڈر پر کیا جائے جبکہ مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ فیصلہ آنکھ سے چاند کو دیکھ کر کیا جائے۔ جہاں تک قمری کیلنڈر کی بات ہے تو اس وقت سے بن رہے ہیں جب دنیا باضابطہ طور پر سائنس کے نام سے واقف بھی نہیں تھی۔ علم تقویم صدیوں پہلے سے اسلامی مدارس کے نصاب کا حصہ رہا ہے بلکہ آج بھی مدارس میں پڑھانے والے کئی افرادبغیر کسی سائنسی سپورٹ کے قمری کیلنڈربناتے ہیں۔

فوادچوہدری صاحب کسی بھی دارالافتاء سے ایسا کیلنڈر لیں اور پھر اس کا موازنہ اپنے بنائے گئے سائنسی کیلنڈر سے کریں اور بتائیں کہ فرق کہاں ہے؟ اگر فرق نہ ہوتوسوچیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کیلنڈرکے چاند کے وجود میں آنے کے بتائے گئے وقت ہی کو روزوں اور عید کی علت قرار دیاجائے۔ یہ بات خود سائنسی نظریے کے بھی متصادم ہے کیونکہ اس بات کو سائنس خود بھی تسلیم کرتی ہے کہ چاندکے وجود میں آنے اور مطلع پر آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ مطلع پر آنے سے پہلے ہی غروب ہو جائے۔ کسی چیز کا وجود میں آنا اور کسی چیز کا دیکھے جانادو مختلف امرہیں۔ اسلام نے روزے اور عید کے باب میں جس چیز کو علت قرار دیا ہے وہ چیز چاند کی رویت (یعنی چاند کوآنکھ سے دیکھنا) ہے نہ کہ اس کاوجود میں آنا۔ آپ چاند کے وجود میں آنے کو نقطہ اول سمجھ لیں اور اس کے نظر آنے کو نقطہ دوم سمجھ لیں۔ دونوں نقطوں کے درمیان فاصلے کو زمانہ شک کہاجائے گا جس میں چاند کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی اوریہی کام مفتی منیب الرحمان اپنی کمیٹی کے ہمراہ کر رہے ہوتے ہیں جس پر فوادچوہدری کو اعتراض ہے۔

فواد چوہدری اوران کا طبقہ نقطہ او ل کو روزے اور عید کا سبب قرار دیتا ہے جبکہ اسلام نقطہ ثانی کو علت قرار دیتا ہے۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کریں کہ آپ شادی شدہ انسان ہیں اور آپ کو جنوری میں خوشخبری ملتی ہے لیکن جب تک وہ خوشخبری ماں کے پیٹ میں ہے آپ باپ کہلاسکتے ہیں اور نہ ہی آپ کی زوجہ ماں۔ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی معاشرہ اپنی یونین کونسل میں آپ کے بچے کو اس وقت تک رجسٹرڈ نہیں کر سکتا جب تک وہ پیدا ہو کر نظر نہیں آ جاتا۔

جس طرح ایک بچہ ماں کے پیٹ میں وجود میں آ جاتا ہے تو سب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ بچہ ہے اسی طرح جب نیاچاند وجود میں آ جاتا ہے تو سب کو علم ہوجاتا ہے کہ چاند وجود میں آ گیا ہے لیکن جس طرح ولادت اوروراثت سمیت تمام قانونی احکام اس بچے پر تبھی لاگو ہو سکتے ہیں جب وہ دنیا کے مطلع پر ظاہر ہواور سب اسے دیکھ لیں اسی طرح روزے اور عید کے تمام احکام بھی اس وقت لاگو ہوں گے جب چاندآسمان کے مطلع پر ظاہر ہواوردیکھ لیا جائے۔

چوتھی اختلافی بات : یہاں جاوید غامدی مذکورہ طبقے کی مدد کو آئے اور فرمایا کہ مذکورہ حدیث میں رویت، علم کے معنی میں ہے۔ یعنی چاند کا آنکھ سے دیکھنا ضروری نہیں بلکہ اس کا علم ہونا ہی کافی ہے۔ بغیر کسی قرینے کے حدیث میں لفظ ”رویت“ کو علم کے معنی میں لینا سوائے ہٹ دھرمی کے کچھ نہیں۔ آخر حدیث میں کون سا عارضہ ہے کہ حقیقت کو مجاز کی طرف پھیرا جائے؟ مزید یہ کہ علم نحو کی رو سے ”رویت“ خود افعال یقین سے ہے اور یقین محض علم سے حاصل ہوتا ہے یا آنکھ سے دیکھ کر؟

چاند کا علم اس وقت تک ظنی رہے گا جب تک اسے آنکھ سے دیکھ نہ لیا جائے اور جب اسے آنکھ سے دیکھ لیا جائے گا تو وہ یقین کے درجے میں داخل ہو جائے گا۔ لہذا سمجھ نہیں آتی کہ جب معاملہ اس طرح ہو اورحدیث میں موجود لفظ ”رویت“ پر لال تعلیل بھی داخل ہو تو غامدی صاحب ایسا فتویٰ کیسے دے سکتے ہیں کیونکہ جدید نظام قضا (یعنی جدید عدالتوں ) میں بھی ظنی اور تخمینی دلیل پر قطعی اور یقینی فیصلے انفرادی طور پر بھی لاگو نہیں کیے جا سکتے چہ جائیکہ رمضان المبارک اور عید جیسا اجتماعی فیصلہ سنایا جائے۔

پانچویں اختلافی بات : مفتی منیب الرحمان جس سائنس کی مخالفت کرتے ہیں اسی کی بنائی گئی دوربینوں اور چشمہ کی مدد سے چاند کو کیوں دیکھتے ہیں؟ عرض ہے کہ مفتی صاحب نے آج تک نہیں کہاکہ وہ سائنس کے مخالف ہیں اورجہاں تک ان کے چشمے اور دوربینوں کا تعلق ہے توعرض ہے کہ وہ فقط دیکھنے کے ذرائع ہیں۔ دیکھنے کے باب میں اصل پھر بھی ان کی آنکھ ہی ہے۔ اگر کسی بندے کی آنکھ ہی نہ ہو تو کیا وہ محض چشمے یا دوربین کی مدد دے دیکھ سکتا ہے؟ لہذا یہ اعتراض کرنا مخالفین کے علمی قحط کی دلیل ہے کیونکہ حدیث میں مطلقاً چاند کی رویت کا ذکر ہے۔ کسی بھی آیت یا حدیث کے متن یا ان کی تشریحات میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں جو ذرائع کے استعمال کے منافی ہو۔

چھٹی بات : اختلاف کا باعث مفتی منیب الرحمان نہیں بلکہ پوپلزئی صاحب ہیں کیونکہ مفتی منیب الرحمان حکومت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا فیصلہ انفرادی نہیں ہوتا بلکہ اس پر پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء اورمحمکہ فلکیات کے ماہرین کے دستخط ہوتے ہیں۔ مفتی منیب اور ان کی بنائی گئی کمیٹی کل کی بات ہے موصوف اور ان کے والد قیام پاکستان سے قبل بھی چاند ایک دن پہلے ہی چڑھاتے تھے اور ان کی مخالفت کی وجہ شاید مفتی منیب الرحمان کا بریلوی ہونا بھی نہیں کیونکہ ان کا یہی معمول اس وقت بھی تھا جب رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا محمد شفیع، احترام الحق تھانوی اور مولانا عبداللہ (لال مسجد کے بانی) تھے۔ لہذا ان کے چاند ایک دن پہلے چڑھانے کو ان کی عادت سمجھا جائے نہ کہ شرعی فیصلہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments