بے بس مسیحا


مہلک وبا سے متاثرہ افراد کی کہانیاں بہت زیادہ پڑھنے سننے میں آ رہی ہیں، اس میں طبی شعبے سے واسبتہ لوگوں کی ہلاکت بھی پریشان کن ہے، انسانوں کی زندگیوں میں تہلکہ مچا دینے والا وائرس لاکھوں جانیں لے چکا ہے، پوری دنیا اس کے چنگل میں آچکی ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے، مریض کا علاج ہوتا ہے، مگر اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے۔

ڈاکٹر ابھی تک صرف گرتے کو سہارا دینے تک اپنافرض نبھا رہے ہیں۔ انہیں کن مشکلات کا سامنا ہے، یہ بھی سامنے آتا جا رہا ہے، طبی عملہ اپنی زندگیوں کو اس جان لیوا وائرس سے محفوظ رکھتے ہوئے، مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، انہیں اپنے اور اہل وعیال کا بھی فکر لاحق رہتا ہے، ہسپتالوں سے جب گھروں میں جاتے ہیں، تو خاندان والوں سے خود کو الگ تھلگ رکھنا پڑتا ہے، ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے اپنے ہی گھر میں اجنبی کے طور پر رہنا پڑتا ہے، جب سے کورونا بحران شروع ہوا ہے، میرے معمولات بہت بدل گئے ہیں۔

”میں سارا دن ہسپتال میں مریضوں کے درمیان رہتا ہوں جہاں مشتبہ مریض ابتدائی سکریننگ کے لیے لائے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا احساس رہتا ہے کہ کہیں میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران خود ہی وائرس کا شکار نہ ہو جاؤں۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنے آپ کو گھر میں تقریباً آئسولیٹ کر رکھا ہے۔ میں گھر کے ایک الگ کمرے میں رہتا ہوں۔ مجھے باقاعدگی سے گھر، گاڑی اور اپنے آپ کو ’ڈس اینفیکٹ‘ کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا سربراہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے گھر سے باہر بھی نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال میں بھی میں باقاعدگی سے ہسپتال جاتا ہوں، وارڈز کے راؤنڈ کرتا ہوں۔ ایمرجنسی کالز پر بھی بار بار وزٹ کرتا ہوں۔ ہم اس کام میں کوتاہی نہیں کر سکتے۔

اب 31 مئی کو سروسز ہسپتال کی ڈاکٹر نے سوشل میڈیا پر کورونا کی صورتحال بیان کی، جس سے ڈاکٹرز اور متاثرہ افراد کے حالات کا کچھ اندازہ ہوتا ہے، ڈاکٹر نے اس تاثر کو

واضح طور پر مسترد کر دیا کہ کورونا نہیں، یا ہسپتالوں میں کسی بھی مرض میں جان سے جانے والوں کو کورونا سے منسلک کیے جانے کی بات بھی غلط ہے۔ مئی کے اختتام میں زیادہ لوگ آئے اور زندگی کی بازی ہارنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

اس ساری صورتحال میں سب سے پہلے تو مریض کی حالت ہے، وہ سانس نہ آنے کی شکایت تو کرتا ہے لیکن آخری دم تک ہوش و حواس میں ہوتا ہے، وہ تکلیف میں چیختا اور کراہتا ہے، اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی ہوتی، ایسے میں مصنوعی تنفس وینٹی لیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے، اب وہ بھی کم پڑتے جا رہے ہیں۔ مریض کی حالت دیکھتے ہوئے، لواحقین ڈاکٹرز کو گالیاں اور بددعائیں دیتے ہیں۔

لیڈی ڈاکٹر نے بڑے جذباتی انداز میں بتایا کہ ہمیں یہاں تک بھی سننا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر پیسے لے کر بندے مار رہے ہیں، ایسے الفاظ ہم لوگوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ موت کے منہ میں جاتے انسان کے اپنوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن کوئی یہ بھی دیکھے ہسپتالوں میں موجود ہم سب اپنی زندگیاں بھی داؤ پر لگاکر فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں، جبکہ سب کو معلوم ہے ڈاکٹرز بھی اس وائرس کا شکار بن رہے ہیں۔

اس ڈاکٹر کی گفتگو کا ایک ہی مقصد تھا کہ ذہنوں سے یہ بات نکال دیں کہ کورونا نہیں ہے، یا کسی کو متاثر نہیں کر سکتا، جس کے نتیجے میں ہماری اکثریت کسی قسم کی احتیاط نہیں برت رہی، دوسرے یہ کہ طبی شعبے سے وابستہ افراد کے بارے میں بدگمانی ترک کردیں۔ یہ ہمارے مسیحا ہیں، کیا کریں، مرض ایسا ہے کہ ان کے پاس کوئی تریاق نہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں مگر بے بس ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments