وبا کے موسم میں سیاسی کم ہمتی اور معاشی بے بصیرتی کا دردناک مظاہرہ


وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن مکمل طور سے ختم کرنے، شمالی علاقوں اور خیبر پختون خوا کو سیاحت کے لئے کھولنے اور غریب کو روٹی کمانے کا مکمل موقع دینے کا اعلان کیا ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے جو باتیں کی ہیں وہ ایک مقبولیت پسند لیڈر کے معیار پر پوری اترتی ہیں جو نعروں، متعصبانہ تقسیم کرنے والی سوچ اور عام فہم میں قبول ہونے والی باتیں تو کرسکتا ہے لیکن اس کے پاس مسائل کا حل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی ملک کو بحران سے نکالنے کی بصیرت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت بھی بدستور کورونا وائرس کی صورت حال میں عوامی صحت یا ملکی معیشت کی بہتری کے کسی منصوبہ کا اعلان کرنے میں ناکام ہے۔
حسب سابق اس تقریر میں بھی وزیر اعظم نے اٹھارویں ترمیم کو وفاقی حکومت کی راہ میں ’رکاوٹ‘ بتایا اور خود کو کسی مسیحا یا خدائی فوجدار کے طور پر پیش کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے مد مقابل رکھنے کی افسوسناک کوشش کی۔ کسی بحران میں قومی لیڈر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور باہم مشاورت سے ایسے فیصلے کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو جس سے عوام کے سب طبقات کو فائدہ پہنچ سکے۔ عمران خا ن کا طرز تکلم اور انداز گفتگو ’میں‘ سے شروع ہو کر میں پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ بہ زعم خویش ہر مسئلہ کا حل جانتے ہیں ۔ اس لئے فیصلے کرنے میں انہیں کسی ماہر کے مشورہ یا تحقیق کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ ’میں پہلے ہی یہ جانتا تھا‘۔ جیسا کہ آج کی تقریر میں ا نہوں نے واضح کیا کہ وہ روز اوّل سے لاک ڈاؤن کے خلاف تھے اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لاک ڈاؤن سے کورونا کو نہیں روکا جاسکا۔
گویا وزیراعظم نے یہ تھیسس پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا بھر میں کیا جانے والا لاک ڈاؤن دراصل دھوکہ تھا اور وہی بات درست تھی جو وہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہوجائے گی اور غریب خاندان بھوکے مر جائیں گے۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے البتہ عمران خان یہ بتانے یا جاننے کی خواہش نہیں رکھتے کہ اگر لاک ڈاؤن اور سماجی دوری سے کورونا کی روک تھام ممکن نہیں تھی تو دنیا کے بیشتر ممالک نے اس طریقہ کو کامیابی سے کیسے استعمال کیا اور ایشیا و یورپ کے بیشتر ممالک کیوں لاک ڈاؤن، سماجی دوری اور ٹیسٹس کے ذریعے وائرس کے رجحان کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ اب بیشتر ممالک اپنی معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو اس کامیاب حکمت عملی کے بعد اس امید کے ساتھ کھول رہے ہیں کہ انہوں نے آبادی کے بڑے حصوں کو وائرس سے محفوظ کرلیا ہے اور اب حکومتوں کے پاس طبی لحاظ سے اتنے وسائل اور سہولتیں موجود ہیں کہ جب وائرس کا دوسرا دور آئے گا تو اس کا مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔
عمران خان کی اس بات کا کوئی سائنسی جواز موجود نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن سے وائرس کو روکا نہیں جاسکتا بلکہ صرف سست کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی سائنسدان یا ماہر کورونا وائرس کے بارے میں اتنے دعوے اور اتھارٹی سے یہ بات نہیں کہتا جس قطعیت کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم اعلان کررہے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے صرف کورونا کے پھیلاؤ کو سست کیا جاسکتا ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ جن ملکوں نے وائرس کی ہلاکت کو سمجھتے ہوئے مؤثر طریقے سے لاک ڈاؤن کیا اور ٹیسٹس کرنے کے بعد ان لوگوں کو علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے وائرس پھیل سکتا تھا، وہاں وائرس سے متاثرین کی تعداد بھی کم رہی، ہلاکتیں بھی محدود رہیں اور سماجی شعور بھی اجاگر کیا جاسکا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ایشیا اور یورپ کے ان ممالک میں زندگی معمول پر لائی جارہی ہے جبکہ امریکہ کا حشر بھی پاکستان جیسا ہی ہے۔ اپنی تمام تر دولت اور عقل و دانش کا مرکز ہونے کے باوجود وہاں بھی قیادت کے بحران اور وبا کے مقابلے میں سائنسی حکمت کی بجائے سیاسی ڈھکوسلوں سے کام لیا جاتا رہا۔ صدر ٹرمپ نے بروقت فیصلے کرنے اور کورونا وبا کے معاملہ میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے کبھی ریاستوں کے ڈیموکریٹک گورنروں کو مورد الزا م ٹھہرایا، کبھی عالمی ادارہ صحت کو ناکام بتایا اور کبھی یہ کہا گیا کہ چین نے چونکہ اس وائرس کو شروع میں ہی ختم نہیں کیا ، اس لئے امریکہ میں ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں کورونا کے ساڑھے اٹھارہ لاکھ مریض ہیں اور مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم امریکہ کی مثال دے کر اہل پاکستان کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسی کامیاب رہی ہے۔ ابھی یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ ایشیا کے گرم مرطوب خطوں میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ سست کیوں رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے متعدد ملکوں میں چونکہ کورونا ٹیسٹ بہت کم تعداد میں کئے گئے ہیں اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ جو رفتار سست دکھائی دیتی ہے وہ دراصل سست نہ ہو بلکہ وائرس کے متاثرین کا اصل حجم معلوم تعداد سے کہیں زیادہ ہو۔ پاکستان کی حد تک یہ بات سو فیصد یقین سے کہی جاسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری طور سے تصدیق شدہ متاثرین کی تعداد 74 ہزار ہے۔ ان میں سے 54ہزار کا سراغ مئی کے دوران لگایا گیا ہے کیوں کہ اس مدت میں چھ سے دس ہزار ٹیسٹ روزانہ کئے گئے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد چونکہ بہت کم ہے اور ہسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش ہی نہیں ہے لہذا کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں یا اس کے اثرات لئے دوسروں کو وائرس منتقل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
ملک کے ’با خبر‘ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ وبا سے لاحق ہونے والا عارضہ کسی آبادی میں معذوری یا طویل المدت تکلیف کا سبب بن سکتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ کووڈ۔19 کے بارے میں بے یقینی اور پریشانی کی وجہ ہی یہ ہے کہ اس وائرس کے بارے میں ابھی تک کوئی مکمل تحقیق سامنے نہیں آسکی جس سے یہ پتہ چل سکے کہ انسانی صحت پر اس کے طویل المدت کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی لئے دنیا بھر کے ماہرین کی ہدایت پر بیشتر ممالک کے لیڈروں نے اپنے لوگوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی طرح عمران خان بھی ایسے لیڈر ہیں جو وائرس کے پھیلاؤ کے عین بیچ ہر طرح کی پابندیاں ختم کرکے اسے اپنی عوام دوستی اور سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ وہ اپنی باتوں میں جن غریبوں کا مقدمہ پیش کرتے ہیں، وائرس کے منفی اثرات اور ہلاکت خیزی سے وہی طبقات متاثر ہوں گے کیوں کہ عمران خان ہو ں یا کوئی دوسرا طرم خان ، پاکستان کے نظام صحت کو کسی نے بھی عوام دوست اور غریب نواز بنانے کی کوشش نہیں کی۔
لاک ڈاؤن کے حوالے سے عمران خان کی باتیں کئی حوالوں سے غلط اور حقائق کے برعکس ہیں۔ اگر اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے صوبے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے تو پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں لاک ڈاؤن کیوں کیا گیا تھا؟ کیا عمران خان کا اپنی ہی پارٹی پر اتنا بھی کنٹرول نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتوں کو اپنے نام نہاد ’ویژن‘ کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی ہدایت کرسکتے۔ اس کے باوجود اگر تحریک انصاف میں صوبائی قیادت کو اس قدر ’خود مختاری‘ دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرسکیں تو سندھ حکومت کے خود مختارانہ فیصلوں پر تحریک انصاف کی قیادت کیوں مسلسل چین بچیں رہی ہے؟ اور وزیر اعظم خود کیوں مستقل لاک ڈاؤن کو ناکام بنانے کی مہم جوئی کرتے رہے تھے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ عمران خان نے کیا تھا اور نہ عثمان بزدار یا محمود خان کی حکومتیں اس کی اہل تھیں۔ اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر بٹھانے والوں نے شروع میں لاک ڈاؤن ضروری سمجھا اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر بناکر اس کا انتظام سنبھال لیا۔ اب شاید اس اعلیٰ ترین قیادت کی سطح پر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ملک لاک ڈاؤن کا ’متحمل‘ نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے پرانے نعرے نئے جوش و جذبہ سے فروخت کرنے کے لئے آج پھر قوم سے مخاطب تھے۔ جس بات کو ہوشمندی اور سیاسی ویژن کہا جارہا ہے ، وہ دراصل عوام دشمنی اور ایک وبا کے مقابلے میں کم علم اور ناواقف آبادی کو بے آسرا چھوڑنے اور چند ہزار یا چند لاکھ لوگوں کی ہلاکت کو اللہ کی رضا قرار دینے کی بھونڈی کوشش ہے۔
عمران خان نے واضح کیا ہے کہ اگر عوا م نے احتیاط نہ کی تو نتائج کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوگی۔ یعنی حکومت نہ تو احتیاط کروا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا اہتمام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے پاس لوگوں کا علاج کرنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اسی لئے اب یہ کہہ کر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے کہ ملک کے پچاس لاکھ غریبوں کو کام کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے البتہ یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کیا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ملکی صنعت و حرفت میں مندی کے رجحان میں ان غریبوں کو کام کون فراہم کرے گا جنہیں سماجی انصاف کا نعرہ لگاتے ہوئے اللہ کے نام پر کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے گھروں سے نکلنے کا پیغام دیا گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments