امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کی زد میں آنے والی تنظیم ’اینٹی فا‘ کیا ہے؟


امریکہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فسطائیت مخالف گروپ ‘اینٹی فا’ کو ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔

ٹوئٹر پر انھوں نے اس فیصلے کا پیغام دیا تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب اور کیسے اینٹی فا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں گے۔

صدر ٹرمپ نے تنظیم کو امریکہ میں جاری ہنگامے شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی موت کے بعد شروع ہو گئے تھے اور ان کے نتیجے میں کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ 46 سالہ جارج فلائیڈ کو پولیس افسر نے 25 مئی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس کے بعد امریکہ میں مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

وکیل: جارج فلائیڈ کو ’سوچ سمجھ کر قتل کیا گیا‘

قتل بڑا مسئلہ یا اس کے خلاف احتجاج، امریکہ میں بحث

سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں مظاہرے، انصاف کا مطالبہ

ان واقعات کو دیکھتے ہوئے امریکی کی 15 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ نیم فوجی فورس ہے جو مقامی ایمرجنسیوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کا واقعہ گذشتہ پیر کو پیش آیا تھا جب ایک سفید فام پولیس افسر نے اپنا گھٹنا جارج فلائیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ سے زیادہ دیر تک رکھ دیا تھا۔

امریکی حکام نے ان ہنگاموں کی ذمہ داری کے حوالے سے متضاد بیانات دیے ہیں اور عندیہ دیا ہے کہ ‘غیر ملکی عناصر’ بھی اس میں ملوث ہیں۔

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1267129644228247552

ہفتے کے روز ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے منی سوٹا کے گوررنر ٹم والٹز نے الزام لگایا کہ غیر ملکی عناصر، سفید فام نسل کی بالا دستی پر یقین کرنے والے گروہ اور ڈرگ مافیا ان ہنگاموں کے پیچھے ہیں لیکن زیادہ تفصیلات نہیں دیں۔

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘اینٹی فا کی سربراہی میں چند انتشار پسند’ اور ‘انتہائی بائیں بازو کے انتشار پسند’ عناصر امریکی شہروں میں ہنگاموں کے ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے بھی مزید تفصیلات اور ثبوت نہیں دیے۔

امریکہ

کیا صدر ٹرمپ کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں؟

امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی انفرادی شخص یا کسی گروہ کو غیر ملکی دہشت گرد قرار دے سکیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ قانون بھی بنا سکتے ہیں اور صدارتی حکم بھی جاری کر سکتے ہیں۔

تاہم قانونی ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا صدر ٹرمپ کے پاس کسی ملکی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے کے اختیارات ہیں یا نہیں۔

امریکہ کے محکمہ قانون کی سابق اعلی عہدے دار میرے میککورڈ نے کہا کہ ‘موجودہ وقت ایسا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے جس کے تحت ایک ملکی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا: ‘ایسا کرنے کی کوئی بھی کوشش امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے حوالے سے خدشات پیدا کرے گی۔’

امریکی آئین کی پہلی ترمیم یا فرسٹ امینڈمنٹ کے تحت ملک بھر میں ہر فرد کو اظہار خیال، مذہب اور جمع ہونے کے حوالے سے آزادی ہے۔

گذشتہ برس ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹرز نے ایوان بالا میں ایک قرار داد پیش کی تھی جس میں ‘اینٹی فا’ کو ‘مقامی دہشت گرد’ قرار دینے کا مطالبہ تھا۔

امریکہ

اب تک ان ہنگاموں کے الزام کس پر لگایا جاتا رہا ہے؟

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شروع میں پر امن تھے اور ان میں جارج فلائیڈ اور حال میں دیگر اسی نوعیت کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

وقت کے ساتھ لوگوں کا غصہ بڑھتا گیا مگر یہ واضح نہیں ہے کہ کب اور کیسے یہ احتجاج ہنگاموں میں بدل گئے۔

لیکن حالیہ دنوں میں حکام کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں مگر ان کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں دیے گئے۔

‘صدر ٹرمپ نے ہفتے کو ٹویٹ کی: ‘یہ اینٹی فا اور انتہائی بائیں بازو والے ہیں۔ کسی اور پر الزامات مت لگائیں۔’

امریکہ کے اٹارنی جنرل ولیم بار نے اتوار کو صدر کے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے اینٹی فا کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ دوسرے ‘شر پسند عناصر’ نے ان مظاہروں پر غلبہ پا لیا ہے۔

‘یہ ہنگامے شروع کرنے والے اینٹی فا اور ان کے جیسے گروہ ہیں اور یہ مقامی دہشت گردی ہے اور ہم اس کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔’

اس سے قبل سیکریٹری سٹیٹ مائیک پومپیو نے قدرے احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہنگامہ کرنے والے ‘اینٹی فا کی طرح تھے’ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ پر امن احتجاج ہنگامہ آرائی میں کیسے تبدیل ہوا۔

منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ الیسن نے کہا کہ ان کے پاس شواہد ہیں کہ منی سوٹا کی ریاست کے باہر کے لوگ ان ہنگاموں میں ملوث تھے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان کا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے تھا۔

دوسری جانب شہر منیاپولس کے میئر جیکب فرے نے الزام عائد کیا کہ یہ ہنگامہ کرنے والے دائیں بازو کے لوگ تھے۔

اپنی ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ‘اب ہمیں سفید فام نسل پرست لوگوں کا سامنا ہے۔ یہ ریاست سے باہر سے آنے والے لوگ ہیں، شاید غیر ملکی بھی ہو سکتے ہیں، جو ہمارے شہر کا اور ہمارے علاقے کا امن خراب کرنے آ رہے ہیں۔’

اینٹی فا کیا ہے؟

امریکہ

اس تحریک کا نام امریکہ میں بڑے پیمانے پر دوبارہ 2017 میں آیا جب انھوں نے ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں سفید فام نسل کی بالادستی کے لیے نکالی جانے ریلی کی مخالفت کی تھی

اینٹی فا فسطائیت کے خلاف قدم لینے والی ایک احتجاجی تحریک ہے جو نازی خیالات، سفید فام نسل پرستی کی بالا دستی کے پیرو کار اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔

اس تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی مرکزی رہنما نہیں ہے اور وہ آزدانہ طور پر کام کرتی ہے۔

اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے نسل پرستانہ رویے اور جنس پر مبنی تعصب کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک تارکین وطن اور مسلمان مخالف پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہے جو صدر ٹرمپ کے دور میں نافذ کی گئی ہیں۔

حکومت مخالف اور سرمایا دارانا نظام مخالف خیالات رکھنے والی تحریک کے اراکین کے بارے میں کہا جاتا وہ انتشار پسندوں سے زیادہ متاثر ہیں بجائے بائیں بازو کی جماعتوں کے۔

اس تحریک کا نام امریکہ میں بڑے پیمانے پر دوبارہ تین سال قبل آیا جب انھوں نے ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں سفید فام نسل کی بالادستی کے لیے نکالی جانے ریلی کی مخالفت کی تھی۔

صدر ٹرمپ پر اس وقت بھی شدید تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے کہا تھا کہ ‘کئی جانب سے تشدد کا مظاہرہ ہوا ہے اور سفید فام نسل پرستوں کی کھل کر مذمت نہیں کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp