پاکستانی ڈاکٹرز، کچھ چشم کشا حقائق


\"hafeez

لاہور میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے دو لوگوں کی جان چلی گئی۔ ایک باپ نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں میں دم توڑا اور بیٹا رونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ ایک ڈیڑھ سالہ ثنا ء نامی جھلسی ہوئی بچی مرہم کے لئے ترستے ہوئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئی لیکن کسی کو مسیحائی کا خیال نہ آیا۔ ننھی ثناء کی تصویر دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اس وقت میری گود میں میری گیارہ ماہ بیٹی موجود تھی اور میں اسے بازوؤں میں بھینچ کر نم آنکھوں سے ٹی وی دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنے کسی پیارے یا اولاد کو ان مرنے والوں کی جگہ رکھیں اور چشم ِ تصور سے اس معاملے کی سنگینی کو دیکھیں۔ جب یہ لوگ دم توڑ رہے تھے تو کسی بھی ینگ یا اولڈ ڈاکٹر کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کیا ان ڈاکٹروں کے لئے انسانی جان کا چلے جانا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، روز تو ان کے سامنے کئی عام اور غریب لوگ مرتےہیں۔

میں نے غریب اس لئے کہا کیونکہ امیر سرکاری ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے۔ ایسے میں ان ڈاکٹرز کا بے حس ہونا معمول کی بات ہے۔ لیکن پاکستان میں اب ڈاکٹروں نے حرص اور بے حسی کی حدیں پار کرنا شروع کردیں ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ ان کے بارے میں ان حقائق پر بھی روشنی ڈالی جائے جو ابھی تک اکثریت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔

سفید گاؤن میں ملبوس اور لوگوں کو جھڑکتے، ڈانٹتے ڈاکٹروں کے بارے میں عمومی خیال یہی ہے کہ یہ مسیحا ہیں اور لوگوں کو شفا دیتے ہیں۔ ان کے اس منصب کی وجہ سے انہیں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کےعلاوہ ڈاکٹری کو پاکستان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والا پیشہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ڈاکٹر بنے۔ جس بندے کا بچہ یا بچی ڈاکٹر بن جائے تو وہ فخر سے پھولے نہیں سماتا۔ اس کے علاوہ کچھ والدین اپنی بیٹیوں کو فقط اس لئے ڈاکٹر بناتے ہیں تاکہ ان کا کسی اچھی جگہ رشتہ ہوجائے۔ آسان لفظوں میں کسی موٹی اسامی کو پھا نسنے کے لئے والدین ڈاکٹری کے پیشے کو استعمال کرتے ہیں۔ اپنے اتنے سخت لفظوں کے استعمال پر میں کسی قسم کی معذرت کا طلب گار نہیں۔ کیونکہ اب میں جو حقائق آپ کے سامنے رکھنے جارہا ہوں اس کے بعد آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے اور ان سے زیادہ سخت لفظ استعمال کریں گے۔

\"young-doctors-strike\"

سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک ڈاکٹر بننے پر کتنا خرچہ آتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ایک میرٹ پر آئے ہوئے امیدوار کوپانچ سال کی کالج اور ہاسٹل فیس کی مد میں اڑھائی لاکھ روپے ادا کرنےپڑتے ہیں۔ باقی کا سارا خرچ حکومت برداشت کرتی ہے۔ اور حکومت ایک ڈاکٹر پر کتنا خرچ کرتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر پرپانچ سال میں 25 لاکھ روپے لگائے جاتے ہیں۔ یہ حقائق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ہیں۔ اس کے چئیرمین مسعود حمید نے 2014 میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں بتایا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 14 ہزار نئے ڈاکٹر کالجوں سے نکلتے ہیں۔ جس میں 70 فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پانچ ہزار کے قریب خواتین شادی رچا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہ ہردل عزیز ڈاکٹر ہرسال عوام کے ٹیکسوں میں سے سالانہ ساڑھے 12 ارب ضائع کرتے ہیں۔ صرف اس چکر میں کہ کسی خاندان کو ڈاکٹر بہو ملے۔ میری اپنی ایک رشتہ دار ڈاکٹر ہے لیکن ایک میجر صاحب سے بیاہ کرنے کے بعد ان کو لگتا ہے کہ ان کی محنت وصول ہوگئی ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بہو عوام کے خرچے پر ڈاکٹر بنتی ہے اور ایک ٹکا بھی اس معاشرے کو واپس نہیں لوٹاتی۔ 14 ہزار میں سے باقی جو نو ہزار ڈاکٹر بچتے ہیں ان میں سے چالیس فیصد ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور باقی ماندہ ہاؤس جاب شروع کردیتے ہیں اور ساتھ کےساتھ ایف سی پی ایس کرنے لگتےہیں۔

پاکستان میں خواتین ڈاکٹروں کے گھر بیٹھنے، دیگر ڈاکٹروں کے باہر چلے جانے کی وجہ طلب اور رسد میں ایک بڑی خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ پی ایم ڈی سی کے مطابق اس وقت پاکستان میں جنرل فیزیشنز کی تعدا د 60 ہزار کے قریب ہے۔ جبکہ ضرورت چھ لاکھ ڈاکٹروں کی ہے۔ اس کے علاوہ کالج آف فیزیشنز اینڈ سرجنز نے اب تک 33 ہزار تک سپیشلسٹ پیدا کیےہیں۔ لیکن ان میں سے بھی چالیس فیصد یعنی 13ہزار سے زائد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ پاکستان جیسا غریب ملک ان کو پڑھتا ہے، ان پر پیسہ اور وقت صرف کرتا ہے اور آخرمیں فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے۔ یعنی دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔

\"young-doctors-protest-in-lahore-and-faisalabad\"

ہاؤس جاب کے دوران ایک نئے ڈاکٹر کو 50 ہزار ماہانہ دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے پنشن، ہیلتھ اور ہاؤسنگ کی سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ اگر نئے ڈاکٹروں کی تنخواہ کا موازنہ سترہ گریڈ کے ایک سی ایس پی آفیسر سے کیا جائے تو بھی یہ اس سے کوئی پندرہ بیس ہزار زیادہ لے رہے ہوتے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ لوگ ڈاکٹر کیوں بننا چاہتےہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایف سی پی ایس یعنی سپیشلسٹ ڈاکٹر کو اگر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پوسٹ کیا جاتا ہے تو اسے اس کی تنخواہ کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ کا الگ الاؤنس ملتا ہے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں پوسٹ ہونے والے ڈاکٹر کے لئے یہ وظیفہ ایک لاکھ روپے ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان لوگوں کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیسے ہوا اوران کو اتنی زیادہ مراعات کیوں دی جارہی ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ ہےکہ یہ لوگ اپنے پیشے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔ احتجاج، بائیکاٹ اور دھرنوں کی مدد سے انہوں نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کرائے۔ انٹر کے بعد ماسٹرز کرنے اور ایم بی بی ایس کرنے میں ایک جنتا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ لیکن ہاؤس جاب ملتے ہی ایک ڈاکٹر کو 50 ہزار ماہانہ تنخواہ اور دیگر الاؤنسسز ملنے لگ جاتےہیں۔ میری تنخواہ صحافت کے پانچ سال کے عملی تجربے کہ بعد بھی 50 ہزار سے کم ہے۔ پہلی جاب 15 ہزار کی ملی۔ جس میں کوئی الاؤنس شامل نہیں تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ ایک صحافی لوگوں کی جان سے نہیں کھیلتا۔ ان کی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے مطالبات نہیں منواتا۔ صحافی سچ بولنے پرمختلف گروہوں کی طرف سے زدوکوب کیا جاتاہے، اور انتہائی صورت میں جان سے ماردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عدم تشدد کے فلسفے کے تحت اپنے قلم اور کیمرے کی مدد سے لوگوں تک بات پہنچاتا رہتا ہے۔

\"young-doctors-strike-2\"

دوسری طرف یہ ڈاکٹروں کی بے حسی اور درندگی ہے کہ اپنی تنخواہوں میں اضافہ، اپنے کرپٹ پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے انسانی زندگی کو ڈھال کے طور استعمال کرتےہیں۔ مجھے ان میں اور داعش کے دہشت گردوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس وقت لاہور میں ہونے والی ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال میں مطالبہ یہ ہے کہ ان کے دو معزولکیے گئے ساتھیوں کو بحال کیا جائے اوراس کے علاوہ ان کو تحفظ دیا جائے۔ کیونکہ کام کے دوران ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ان کے اس مطالبے میں کتنی سچائی ہے اس کا ذرا جائزہ لے لیتےہیں۔ دہشت گردی میں مارے جانے والے لوگوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے والے بین الاقوامی ادارے SATP کے مطابق سن 2003 سے 2016 تک پاکستان میں 22 ہزار عام لوگ جان سے گئے۔ لیکن لوگوں نے اپنے روزمرہ فرائض سرانجام دینے سے انکار نہیں کیا۔ 7 ہزار کے قریب سکیورٹی ایجنسیز کے لوگ جان سے گئے۔ لیکن ایک بھی سپاہی نے یہ نہیں کہا کہ ڈیوٹی نہیں دوں گا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں سن 2005 سے اب تک 102 صحافیوں کو اپنے کام کے دوران قتل کیا گیا۔ لیکن ایک بھی صحافی ایسا نہیں کہ جس نے ملکی مسائل یا حکومت کی کوریج کا بائیکاٹ کیا ہو۔ دوسری طرف ہمارے قصائی نما ڈاکٹر ہیں کہ جن کی غفلت کی وجہ سے اس ملک میں ہر سال سینکڑوں لوگوں کی جان جاتی ہے۔ آج تک اس ملک میں اپنے فرائض کے انجام دہی کے دوران ایک بھی ڈاکٹر جان سے نہیں گیا۔ لیکن شور یہ ہے کہ ہمیں سکیورٹی دی جائے۔

\"young-doctors-association-yda-inp-640x480\"

اس ملک میں لوگوں کی خدمت کرنے والے ڈاکٹروں کی گنتی کے لئے آپ کے ایک ہاتھ کی انگلیاں زیادہ پڑ جائیں گی۔ لیکن یہ لوگ جب ڈاکٹر بن رہے ہوتے ہیں تو پوچھنے پر بتاتےہیں کہ ہم عوام کی خدمت کریں گے۔ بعد میں لوگوں کی خدمت تو کرتےہیں لیکن یہ خدمت پولیس والی ”خدمت ” ہوتی ہے جو گاہے بگاہے مجرموں کی ہوتی ہے۔ میں اس سلسلے میں آپ کو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ میں نے کوئی دو سال پہلے اسلام آباد کے ایک مشہور اور مہنگے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے ڈاکٹروں کی کوئی سماجی خدمت کی ذمہ داری نہیں بنتی۔ جس پر وہ کافی سیخ پا ہوئے اور کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ ایک ڈاکٹر کا نہیں۔ ویسے محتاط اندازے کے مطابق یہ موصوف پندرہ سے بیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہےتھے۔ ایسے میں چار مریض کو دیکھتےہوئے ان جیسے ڈاکٹروں کو ہول آتے ہیں۔ اس ملک کے پیسے پر ڈاکٹر بنے لیکن جب سماجی ذمہ داری پوری کرنے کی بات آتی ہے تو یہ ڈاکٹر فرماتےہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ بجا ہے بھئی۔ چو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

میرا خیال ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ ایک انسان کی زندگی ڈاکٹروں کے حرص سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے۔ جو والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ڈاکٹر بنے انہیں چاہیے کہ پہلے انہیں انسان بنائیں۔ پیسوں کے لئے مرے جانے والے خواتین و حضرات سے گذار ش ہے کہ ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے کے بجائے کسی بزنس میں اپنا وقت اور صلاحیت لگائیں۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکٹری کی نسبت وہاں آپ زیادہ پیسہ بہت کم وقت میں کمالیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments