جیو فینسنگ: مجرموں کا سراغ لگانے والا نظام کورونا متاثرین کی نگرانی کیسے کرتا ہے


پاکستان

یہ 2009 کی بات ہے۔ ڈکیتوں کے ایک گروہ نے کراچی پولیس کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ پولیس کو شک تھا کہ ان ڈاکوؤں کو بنک کے اندر سے معلومات ملتی تھیں جس کی بنیاد پر وہ اپنا ہدف طے کرتے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ سٹیٹ بینک کی تجوریوں میں رکھا سونا لوگ تمام تر احتیاط کے ساتھ لے کر جیسے ہی بینک سے نکلتے تھے لُوٹ لیے جاتے تھے۔

کراچی پولیس کے خصوصی محکمے سی آئی ڈی حکام کے مطابق ان وارداتوں کے پیچھے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم شدت پسند تنظیمیں تھیں جو اپنی کارروائیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی غرض سے ڈکیتیاں کرنا شروع کیں۔ شناخت نہ ہونے کے باعث ایسی بینک ڈکیتیوں میں ملوث 2009 سے 2012 کے دوران دو ارب تک کی رقم لوٹی گئی۔

جب ان وارداتوں کا کوئی سُراغ نہ مل سکا تو کراچی پولیس کے سپیشل انوسٹیگیٹو یونٹ کے سربراہ فاروق اعوان اور ان کے ساتھیوں نے جیو فینسنگ کے ذریعے بینک ڈکیتی اور بینک کے باہر سے چوری کرنے والے ملزمان تک پہنچنے کی کوشش کی۔

ان کے مطابق ایک واردات کی تفتیش کے دوران ‘ہم نے موبائل نیٹ ورک کے ذریعے واردات سے آدھا گھنٹہ پہلے اور بعد کی تمام تفصیلات نکالیں۔’

اسی دوران موبائل ٹاور کے ذریعے پتا چلا کہ بینک کے اندر سے ایک بجے کے دوران ایک نمبر سے فون کیا گیا تھا۔ یہ نمبر فی الفور ٹریس کیا گیا اور تقریباً ایک دن بعد ایس آئی یو نے پنجابی طالبان کے کارکن سعید بنگالی کو کورنگی کے علاقے سے گرفتار کر لیا۔

یہ گرفتاری جیو فنسنگ کے ذریعے ہونے والی غالباً پہلی اہم ترین گرفتاری تھی اور جیو فینسنگ کا یہی طریقۂ کار اب پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

لائن

کورونا: آئی ایس آئی متاثرین کو ڈھونڈنے میں حکومت پاکستان کی مدد کیسے کر رہی ہے

اسرائیل: وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنے ہی شہریوں پر جاسوسی کے آلات کا استعمال

امریکہ کا چین پر وائرس پھیلانے کا الزام اور چینی میڈیا کا جواب

تانیہ آئدروس: پاکستان ایک اور بڑا لاک ڈاؤن نہیں سہہ سکے گا

کورونا سے مقابلہ: اب برطانوی خفیہ ایجنسی کا کردار کیا ہے؟

’آپ ہسپتال نہیں چلیں گی تو ہم فوج کو بلا لیں گے‘


جیو فینسنگ کیا ہے؟

کسی بھی مخصوص مقام یا علاقے کے گرِد ورچوئل باؤنڈری بنانے کے عمل کو جیو فینسنگ کہتے ہیں۔ اس باؤنڈری میں داخل ہونے والے کا موبائل ڈیٹا اس تک پہنچنے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے اور معلومات کے ذریعے گھر آنے یا گھر سے نکلنے تک کی معلومات نکالی جاتی ہے۔

یہی طریقہ کار سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کئی بار سابق فاٹا اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران بھی عمل میں لایا گیا۔

دوسری جانب، عدالتیں ایسے کسی بھی فرد کی خبر گیری کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے جیو فینسنگ وارنٹ جاری کرتی ہیں۔

لیکن یہ وارنٹ کسی فرد کے پبلک میڈیا جیسے کہ یوٹیوب، ٹوئٹر اور فیس بُک کا ڈیٹا نکالنے کے لیے ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

اس بارے میں پاکستان کے انٹیلیجنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شعیب سڈّل نے بتایا کہ عام طور پر دہشت گردوں کا پتہ جیو فینسنگ کے ذریعے ہی لگایا جاتا ہے۔ یہ کام عام طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاصی مدد بھی ملی ہے۔

’اس کے بعد یو ٹیوب یا دیگر ایپ کے استعمال سے بھی جگہ ڈھونڈنے میں مدد ملتی ہے۔ جیو فینسنگ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ کس سیل ٹاور کے نزدیکی علاقے میں یہ فون نمبر استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی مدد سے آپ مشتبہ فرد یا دہشت گرد کے کافی نزدیک پہنچ جاتے ہیں۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات آپ فون نمبر کا استعمال کرنے والے شخص کے گھر کے سو یا ڈیڑھ سو ریڈئیس تک پہنچ جاتے ہیں، جبکہ اب تو ایسے آلات بھی ہیں جو ڈیڑھ سو سے بھی کم فاصلے کی نشاندہی کر لیتے ہیں۔

پاکستان

دو طرح کے لوگوں کی معلومات اکٹھا کی جارہی ہیں، ایک وہ جو پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں اور دوسرے وہ جو حالیہ دنوں میں بیرونِ ملک سفر کرکے ملک واپس لوٹے ہیں

کورونا مریضوں کے لیے جیو فینسنگ کا استعمال

ایک ماہ پہلے وزیرِ اعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر فیصل سلطان نے بی بی سی کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان کی حکومت خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی معاونت سے کورونا وائرس کے مریضوں تک رسائی حاصل کررہی ہے۔

جب شعیب سڈّل سے پوچھا کہ کیا کورونا وائرس کے مریضوں کی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے کوئی وارنٹ یا اجازت لی گئی ہے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’کووڈ-19 ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے لیے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

لیکن یہ کیسے ممکن ہورہا ہے اس بارے میں مزید معلومات نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے ایک حالیہ اجلاس میں پروگرام کے پائلٹ کے ذریعے دی گئی۔ جس میں حکمرانوں اور وزرا سمیت پاکستان کی عسکری قیادت بھی موجود تھی۔

پروگرام کے مطابق جیو فینسنگ کے ذریعے نا صرف کورونا وائرس سے متاثرہ شخص بلکہ اس کے اردگرد موجود افراد کی معلومات بھی ایس ایم ایس الرٹ کے ذریعے حساس اداروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جو پھر محکمہ صحت کے اداروں کو اطلاع دیتے ہیں۔

اور اگر ایک علاقے میں متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہے تو انھیں پہلے سیلف آئسولیشن اور پھر خود کو قرنطینہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔

pakistan

مریضوں کے اردگرد موجود خاندان کے افراد اور اُن کے ملنے والوں کو فون نمبر اور پتہ بھی اس ڈیٹا بیس میں شامل ہوتا ہے

کن لوگوں کی معلومات اکٹھا کی جارہی ہیں؟

اس وقت آئی ایس آئی کے ذریعے دو طرح کے لوگوں کی معلومات اکٹھا کی جارہی ہیں۔ ایک وہ جو پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ اور دوسرے وہ جو حالیہ دنوں میں بیرونِ ملک سفر کرکے ملک واپس لوٹے ہیں۔

جن کے ذریعے حکام ایک طرف کورونا وائرس کے مقامی منتقلی کے کیسز جبکہ دوسری جانب باہر سے آنے والوں کے ذریعے یا امپورٹڈ کیسز کی معلومات اکٹھا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

سول ایوی ایشن کے مطابق مارچ میں پروازوں پر پابندی عائد ہونے کے باوجود بیرونِ ملک سے واپس آنے والوں کی ایک دن کی تعداد 38000 رہی، جن کی ٹیسٹنگ کے لیے وسائل محدود ہیں۔

ملک واپس آنے والے تمام لوگوں کی معلومات یا ڈیٹا ائیرپورٹ پر موجود ایجنٹ کے ذریعے نوٹ کرلیا جاتا ہے۔

جس کے بعد مسافر کے فون نمبر کے ذریعے جیو فینسنگ کی جاتی ہے۔

یعنی فون نمبر کے ذریعے نزدیکی سیل ٹاور اور اس کے ذریعے فرد کا پتہ نکالا جاتا ہے۔ بارہ گھنٹے کے اندر مختلف شہروں میں موجود حساس ادارے پتہ لاک کرکے قرنطینہ کیے گئے شخص کے پتے پر پہنچ جاتے ہیں۔

اگر تو مذکورہ شخص حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کررہے ہوں تو مقامی ادارہ صحت اور حکام کو اطلاع دی جاتی ہے۔

اس عمل میں پتے سمیت مذکورہ شخص کی آن لائن ہونے کے اوقات بھی پتا لگ جاتے ہیں۔

pakistan

جیو فینسنگ کے ذریعے نا صرف کورونا وائرس سے متاثرہ شخص بلکہ اس کے اردگرد موجود افراد کی معلومات بھی ایس ایم ایس الرٹ کے ذریعے حساس اداروں تک پہنچ جاتی ہیں

دوسری جانب، ملک میں مقیم افراد کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ذریعے ایس ایم ایس بھیجا جاتا ہے جس میں تمام تر حفاظتی تدابیر بتائی جاتی ہیں۔

جس کے بعد فون کال کے ذریعے علامات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ جس کے بعد ہائی رِسک اور لو رِسک مریضوں اور ان کے علاقوں کو مارک کیا جاتا ہے۔

اس مارک کرنے کے عمل میں خفیہ اداروں کی مدد لی جاتی ہے۔

اس دوران پی ٹی اے کے ذریعے متعلقہ علاقے میں موجود متاثرہ افراد اور اُن کا موبائل فون ڈیٹا بمع پتہ صوبائی محکمہ صحت کے ادارے کو بتا دیا جاتا ہے۔ لیکن حکام کے مطابق مریضوں کے اردگرد موجود خاندان کے افراد اور اُن کے ملنے والوں کو فون نمبر اور پتہ بھی اس ڈیٹا بیس میں شامل ہوتا ہے جس کے بعد حکام کے لیے ان افراد کے گھروں تک پہنچنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔

یہ تمام تر معلومات جیو فینسنگ کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔

تاحال اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا یہ عمل درست ہے یا غلط۔ لیکن واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں کا سُراغ لگانے کے لیے یہی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp