خان صاحب کو اچھی قوم نہیں ملی


اسکرپٹ لکھتے لکھتے میں یہ بھول ہی گئی کہ مجھے تو کالم بھی لکھنے ہیں۔ خیر، تحریر لکھاری کے ارادے کی محتاج نہیں ہوتی۔ اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ جس تحریر کو دنیا میں آنا ہوتا ہے اسے کون روک سکتا ہے۔ آپ بھی کہہ رہے ہوں گے تحریر نہ ہوئی پہلوٹھی کی اولاد ہو گئی۔ جی، صاحب ایسا ہی ہے۔ سب تخلیق کے ہی مختلف پہلو ہیں۔ قریب ڈیڑھ مہینہ پہلے یو ٹیوب چینل کا آغاز کیا ہے۔ اس سے فارغ ہوں تو گھرداری دبوچنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے۔ کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟

وہ تو خدا بھلا کرے امیر المومنین، ریاست مدینہ ثانی کے فرمانروا جناب عمران خان صاحب کا جنہوں نے کل میرے کان کھینچے کہ نالائقی کی بھی حد ہوتی ہے۔ چلو، اٹھو اور لکھتی بنو۔ حضور قوم سے خطاب کے خاصے شوقین ہیں۔ مجھ نالائق کی طرح انہیں کوئی بھی بات کہنے سے پہلے زیادہ سوچنا سمجھنا نہیں پڑھتا، اسکرپٹ لکھنا نہیں پڑتا، زمین پر ٹرائی پوڈ اسٹینڈ ٹکا کر ویڈیو شوٹ نہیں کرنی پڑتی اس لیے ان کے لیے یہ کام آسان ہے۔ خان صاحب کی طبیعت یوں بھی موٹیویشنل اسپیکر موافق ہے اس لیے انہیں کوئی بات بیان کرتے ہوئے اسے گوگل یا کتابوں سے کنفرم بھی نہیں کرنا پڑتا۔

بس آتے ہیں اور چھا چھو جاتے ہیں۔

ان کے چاہنے والوں کی تعداد آسمان میں ستاروں کی مانند ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کرونا وائرس کی آمد نے اس آسمان پر بادلوں کا بسیرا کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ تارے کچھ صحیح طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔

خان صاحب کے خطاب کا اعلان ہوتا ہے اور کئی لوگوں کے دل ڈوب جاتے ہیں کہ خدا جانے اب کیا قیامت ٹوٹے۔ خان صاحب کی پرسنالٹی ہی ایسی ہے کہ اس کی چمک صرف اہل نظر ہی جانچ سکتے ہیں۔ عام انسانوں کی نگاہیں تو خیرہ ہوئے رہتی ہیں۔ لہذا یہ خاکی بس جی مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ اہل نظر نہ صرف ان کے خطاب میں چھپے ہیرے پرکھ لیتے ہیں بلکہ اس کی تفسیر بھی شگفتہ زبان میں بیان کرتے ہیں۔

میں اہل نظر تو نہیں ہوں لیکن خدا کے فضل سے ان کی عظمت کو کچھ کچھ بھانپ چکی ہوں۔ میرا دل کہتا ہے کہ خان صاحب کا خطاب آج کل کے سنجیدہ اور گمبھیر حالات میں انسانیت کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا باعث ہے۔ اس سے بڑھ کر بھی نوع انسان کی کیا خدمت ہو گی جس میں یہ مرد حر اپنے مصاحبین کے ساتھ مشغول ہے؟

کل کے خطاب میں خان صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ کرونا وائرس لوگوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ یعنی اگر آپ مر رہے ہیں تو خود کو دوش دیجئے۔ حکومت نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کر رکھا۔ اس میں ان سے شکایت نہ کی جائے۔

جیسا لاک ڈاؤن وہ چاہتے تھے ویسا تو ہوا ہی نہیں۔ ’معاشیت‘ بیٹھ رہی یے۔ اس وائرس کے ساتھ ’کامیابی‘ سے گزارہ کرنا ہو گا۔ یعنی اس وائرس کے گھر سے اب عام آدمی کا جنازہ ہی نکلے۔ جیسے بھی ہو وہیں نباہ کرنا لازم و ملزوم ہے۔ خاندان والے کیا کہیں گے؟

اقوام عالم کے لیے خوش خبری بھی سنا دی کہ پاکستان سیاحت کے مقامات کھول رہا ہے۔ آئیے، اور دل کھول کر کرونا بٹوریے۔ ویلکم ٹو کرونا لینڈ!

میں ایک کانٹینٹ کری ایٹر ہوں اور ہمیں یہی بات باور کرائی جاتی ہے کہ ہر دفعہ پہلے سے نئی بات کرنی ہے۔ کوئی بات دہرائی نہ جائے۔ خان صاحب بھی اس اصول پر مکمل عمل کرتے ہیں اور ہر بار پچھلے خطاب سے مکر جاتے ہیں۔ باقی تھوڑی بہت اونچ نیچ تو چلتی پی رہتی ہے۔ ہاں، شاید ان کی یادداشت اس معاملے میں ذرا کمزور پڑ گئی کہ اب ان کی حکومت بنے دو سال ہونے کو ہیں۔

یوں تو جب انسان کا کوئی سپنا پورا ہو تو شروع میں یقین نہیں آتا کہ ایسا ہو گیا ہے۔ ان کی جگہ میں ہوتی تو خود کو چٹکیاں کاٹتی۔ لیکن اب تو دو برس ہونے والے ہیں نا؟ خان صاحب کو یہ یقین کیوں نہیں آ رہا کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی حکومت کی نہیں ہے؟ ہائے، اللہ نہ کرے کہیں خان صاحب کو بھولنے کا مرض تو نہیں؟

پہلے خان صاحب کو سیاسی مخالف اچھے نہیں ملے اور اب قوم۔ آپ سب لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ ایسا ویژنری لیڈر ملتا۔ بائی دی وے، مبارک ہو آپ کا عہدہ بڑھ چکا ہے۔ پہلے ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالا جاتا تھا اب کی بار یہ اعزاز آپ کو ملا ہے۔ اپنا آپ نواز شریف اور زرداری لگ رہا ہے نا؟

کبھی کبھی خان صاحب پر ترس آتا ہے کہ انہیں آپ جیسی نالائق نکمی قوم ملی۔ اسی لئے اب آپ مریں یا جئیں کسی کو گھنٹہ پروا نہیں۔
پتہ نہیں کہاں سے اٹھ کر آ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments