آصف فرخی بھی رخصت ہوئے


سنہ 1980 کے عشرے کا کوئی ابتدائی سال تھا۔ میں روزنامہ امن میں کام کرتی تھی۔ چھوٹا سا دفتر تھا۔ ایڈیٹر افضل صدیقی کے کمرے میں ایک کونے میں میری میز ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کمرا تھا لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک روز ایک نوجوان آیا اور افضل صدیقی صاحب کو ایک کتاب دے کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی افضل صاحب نے وہ کتاب مجھے تھما دی کہ کتابوں پر تبصرہ میری ذمہ داری تھی۔ ا س روز تو میرا اس سے تعارف بھی نہیں ہوا تھا مگر پہلی کتاب بھی پہلی محبت کی طرح انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آصف فرخی کی پہلی کتاب پر پہلا تبصرہ میرا تھا۔ اس نے ہمیشہ اس بات کو یاد رکھا اور بارہا دہرایا۔ برسوں بعد جب یونیسیف کے دفتر میں میری بیٹی کی اس سے ملاقات ہوئی تو اسے بھی اس نے یہی کہا ”آپ کی امی نے میری پہلی کتاب پر تبصرہ کیا تھا۔“

تعلیم کے لحاظ سے تو وہ ڈاکٹر تھا لیکن ادب اور شاعری کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا۔ اپنی ذات میں ایک ادارہ۔ اس نے اتنے کام کیے جو کئی ادارے بھی مل کر نہ کر پاتے۔ آتش فشاں پر کھلے گلاب سمیت افسانوں کے چھ مجموعے، تنقیدی مضامین اور کتابیں، انتہائی خوبصورت تراجم اور ’دنیا زاد‘ جیسا شاندار کتابی سلسلہ۔ وہ ادبی میلوں کا روح رواں تھا۔ وہ کراچی لٹریچر فیسٹول اور ادب میلہ کے بانیوں میں سے تھا۔ ڈان اور دیگر اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے لکھتا تھا۔ وہ کراچی کا بیٹا تھا لیکن صرف کراچی نہیں پورے پاکستان کے لئے باعث فخر تھا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ سرکار نے بھی اس کے کام کو تسلیم کیا اور اس کی زندگی میں ہی تمغہ ادب اور تمغہ امتیاز کے ذریعے اس کی محنت کا اعتراف کیا۔

ہم سب میں میرا مضمون ”احفاظ الرحمن کے آخری نو دن۔ محبت اور صحافت کا آخری پڑاؤ“ پڑھنے کے بعد اس نے مجھے فون کیا اور بہت دیر تک احفاظ کی باتیں اور مضمون کی تعریف کرتا رہا۔ ”آپ نے یہ تو لکھا نہیں کہ آپ کی شادی کیسے ہوئی تھی۔“ اس نے شرارتی انداز میں شکوہ کیا تھا۔ جب میں نے اسے احفاظ کی نظموں کے بارے میں بتایا جو انہوں نے آخری دنوں میں لکھی تھیں تو اس نے کہا ”مجھے بھجوا دیجئے، میں اپنے پرچے میں شائع کروں گا“ ۔ رمیز نے نظموں کا فولڈر بنا کے اسے ای میل کر دیا تھا۔ اس نے نظمیں پڑھ کر تعریف بھی کی تھی۔ اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ نظمیں شائع کرنے کی بجائے نظمیں لکھنے والے کی طرح دنیا چھوڑ کر یوں اچانک جانے والا ہے۔

دس مئی کو اس نے ڈان میں A TIME FOR DEATH کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ وہ کرونا کی وجہ سے مرنے والوں کے لئے سوگوار تھا۔ مقبول اداکار عرفان خان کی موت پر غم زدہ تھا۔ اس نے لکھا تھا، ہر موت اسے تھوڑا سا مار دیتی ہے، محروم کر دیتی ہے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ رشی کپور جیسا ہیرو بھی مر سکتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ دکھ اسے آئرش شاعرہ ایوان بلینڈ کے مرنے کا تھا۔ انگریزی کی نفیس شاعرہ اور اتنا ہی دکھ اسے فلسطینی نژاد چوبیس سالہ ڈینش شاعر یحییٰ حسن کی موت کا تھا۔

مئی تک وہ دوسروں کے جانے کا دکھ منا رہا تھا اور یکم جون کو مغرب کی اذان ہو رہی تھی کہ شین فرخ کا فون آیا، ’خبر سنی؟‘ اس نے پوچھا۔ ’کون سی خبر؟‘ میرا دل ڈوبنے لگا۔ ظاہر ہے وہ کوئی بری خبر سنانے جا رہی تھی۔ ’آصف فرخی کا انتقال ہو گیا‘ ۔ اوہ میرے خدا۔ اوہ میرے خدا۔ میرے منہ سے اس کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔ آخری مرتبہ فون پر بات کرتے ہوئے اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھ سے ملنے آئے گا۔ ہم مل کر احفاظ کی باتیں کریں گے۔ میں اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ اکیلا ہی احفاظ سے ملنے نکل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments