شکریہ عظمیٰ خان، آمنہ عثمان، عثمان ملک، صدف کنول اور شہروز سبزواری


جس وقت اکتیس دسمبر 2019 اختتام پذیر ہوا اس وقت زیادہ تر لوگوں نے ایسا کبھی بھی نہیں سوچا ہو گا کے یہ سال اس قدر خوفناک ہو جائے گا۔ عوام کی خواہش تھی کہ تیسری جنگ چھڑ جائے گی اور وہ جنگ عظیم سوئم کہلائے گی، اس سے زیادہ ہم جیسے عام لوگوں نے نہیں سوچا تھا۔ بیماری اور ایک ایسی بیماری جو آئے گی اور چھا جائے گی۔ اس کا خیال بھی نہ آیا تھا۔

آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے آپ زبردستی خبریں دیکھتے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی۔ کوئی نا کوئی کچھ نہ کچھ بھیج رہا ہے۔

جب سے وبا آئی ہے، رات کو سونے سے پہلے کی دعا روز بروز طویل ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ اب خوف نے اپنی جڑیں گہری کر دی ہیں۔ قریب قریب کے لوگوں کے انفیکشن کی خبر آ رہی ہے۔ فیس بک پہ الگ روز مرنے والوں کی تصاویر لگی ہوتی ہیں۔

عید سے ایک روز قبل جہاز کے حادثے سے عید بھی اداس گزری، آج صبح سے شام تک کے دوران دو مشہور افراد پروفیسر انور احمد زئی دوسرے آصف فرخی کے انتقال کی خبر نے اور بھی دل پریشاں کر دیا۔

اب ایسے سوگوار ماحول میں خوش کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔

پہلے ہم دل کی گہرائیوں سے عید کو تھوڑا سا خوش کن بنانے کے لیے آمنہ عثمان کے مشکور ہیں۔ مجھے میرے ایک جاننے والے نے وڈیو کا لنک بھجا تو دیکھ کہ عجیب سی کیفیت کے یہ کیا بکواس ہے۔ گندی گالیاں پٹائی، شراب کی بوتل، شیشے کے ٹکڑے، لیکن آخری لائن نے دل خوش کر دیا، ”آنٹی معاف کر دیں، لاسٹ ٹائم آنٹی“ اب یہ سمجھ نہیں آیا لاسٹ ٹائم سے کیا مراد ہے، لیکن جواب اور بھی اعلیٰ تھا ”اؤ یہ آنٹی آنٹی کیا کر رہی ہو میں ابھی چالیس سال کی بھی نہیں“ ۔

یہاں جو بات سب سے مزے کی تھی وہ یہ کی پٹائی کے وقت بھی عظمیٰ خان اور ان کی بہن کو بچہ بننا یاد رہا اور آنٹی کو شدید غصے میں بھی بزرگی ملنے پہ اعتراض کرنا یاد رہا۔

پھر وڈیو وائرل ہوئی تو سب عظمیٰ کے ساتھی بنے ہم نے بھی دو روٹیاں سینک لیں ظالم آمنہ عثمان کے خلاف اور پھر ایسے میں اچانک دوسری بہن کے بوائے فرینڈ مسٹر نیازی نے اصلی ہیرو کا کردار ادا کیا، سننے میں آیا ہے کہ بیس کروڑ روپے، ایک گھر اور دبئی میں سیر پہ مک مکا ہوا۔ دروغ بر گردن راوی۔

دوسرے شکریہ کے حقدار ہیں نیا شادی شدہ جوڑا صدف کنول اور شہروز سبزواری، ماشاءاللہ لاک ڈاؤن کے دور میں مفت میں شادی کر کے آپ نے ہم جیسوں کی بھی ہمت بڑھائی۔ زیادہ شکریہ شہروز کا کیونکہ اگر وہ اپنی اور اپنی بیگم کے الگ ہونے پہ ویڈیو بیان نہ دیتے جس میں انہوں نے کہا کہ ایک معصوم سی لڑکی کو بدنام کیا جا رہا ہے کہ ہماری شادی توڑنے میں صدف کنول کا ہاتھ ہے۔ پھر ایسا تو ہونا ہی تھا یہاں تو بات ہاتھ سے کہیں آگے کی تھی۔ میں واقعی ان دونوں جوڑوں کی شکر گزار ہوں، یہ نارمل زندگی کی باتیں اور جھگڑے ہیں، جو تین ماہ کے لاک ڈاؤن میں پہلی بار سننے کو ملی ہیں۔

زندگی جیسے رک گئی ہے مستقبل کا خوف ہے، عالمی کساد بازاری، ہر شخص پریشان ہے، کاروبار خاتمے کی جانب ہیں۔ چھوٹے کاروباری، اسکول کے اساتذہ، شاپنگ مال کے ملازمین، ہوٹل کے ویٹر، اور نا جانے کتنے لوگ کرونا سے تو محفوظ ہیں لیکن کچھ اور دن یوں ہی رہا تو فکروں سے مر جائیں گے۔

ایسے میں روایتی جھگڑے خوشگوار ہوا کے جھونکوں کی طرح ہیں آئیں، ان جھونکوں کا مزہ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments