جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس: ’ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے‘


سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ساکھ پر بغیر شواہد کے کیسے سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا اور ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا۔

ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے 10 رکنی بینچ میں شامل جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟

یہ بھی پڑھیے

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس میں پیشی، فروغ نسیم ایک بار پھر مستعفی

فائز عیسیٰ کیس: اٹارنی جنرل کی حکومتی نمائندگی سے معذرت

’شہزاد اکبر کی شہریت کیا ہے، کیا وہ پاکستانی ہیں یا غیر ملکی‘

بیرسٹر فروغ نسیم پر وفاق کی نمائندگی کرنے پر اعتراض

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران درخواست گزار (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) نے سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم پر وفاق کی نمائندگی کرنے پر اعتراض اُٹھایا اور کہا کہ وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل ان کے بارے میں تعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔

فروغ نسیم نے جواباً کہا کہ سپریم کورٹ اس طرح کے معاملے کو رشید احمد کے مقدمے میں نمٹا چکی ہے اور اس مقدمے میں بھی وکیل پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار سے اس اعتراض کو واپس لینے کا کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ عدالت اس ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کو موسم سرما کی تعطیلات سے پہلے ختم کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ ان کی نظر میں فروغ نسیم کا بڑا احترام ہے لیکن قواعد وفاقی حکومت کو انھیں بطور وکیل تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اُنھوں نے کہا کہ فروغ نسیم کو پیش ہونے کے لیے اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل آفس سے کوئی سرکاری وکیل پیش ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اٹارنی جنرل کو سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ تمام اعتراضات آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے قوائد کے مطابق ہیں۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اس لیے عدالت خود اعتراضات دیکھ لے۔

اُنھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی نمائندگی اور دفاع کا حق حاصل ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد فروغ نسیم عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’منیر اے ملک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑیں۔‘ جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اپنے اعتراضات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کر دیا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ اعتراضات واپس لے لیں ورنہ پھر عدالت اس سے متعلق فیصلہ سنائے گی۔

فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل نے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اس سرٹیفکیٹ کو عدالتی ریکارڈ پر لے کر آئیں جس کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

سابق وفاقی وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست میں لکھی گئی زبان پر اعتراض اُٹھایا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے فروع نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس درخواست میں کیا کہا گیا ہے اس کو چھوڑیں اور مقدمے کے میرٹ پر بات کریں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ وہ اس مقدمے میں وفاق اور احتساب سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار کی طرف سے لگائے گئے اعتراض کو مسترد کر دیا اور فروغ نسیم کو دلائل جاری رکھنے کی اجازت دی۔

’عدالت کے سامنے سپریم کورٹ کے جج کے مس کنڈکٹ کا معاملہ ہے‘

اُنھوں نے کہا کہ لندن میں تین جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کے نام پر ہیں جس کی تصدیق وہ خود بھی کر چکے ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ان جائیدادوں کے ذرائع آمدن کیا ہیں اور ان جائیدادوں کو خریدنے کے لیے پیسہ پاکستان سے باہر کیسے گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے جج ’منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔‘

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ساکھ پر بغیر شواہد اور شکایت کے کیسے سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے فروع نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کے نام پر ہیں تو وہ منی ٹریل کیسے دیں، جس پر سابق وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ ثابت کرنا سپریم کوررٹ کے جج کا کام ہے کہ بیرون ممالک جائیدادیں ان کے بچوں کی ہیں۔

فروغ نسیم

فروغ نسیم ماضی میں بھی عہدہ چھوڑ کر سپریم کورٹ میں وفاق کی نمائندگی کر چکے ہیں

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر ’میرا بیٹا کوئی جائیداد خریدتا ہے تو میں کیسے اس کا جواب دہ ہو سکتا ہوں۔‘

بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جب سپریم جوڈیشل کونسل سے نوٹس جاری کیا گیا تو اُنھوں نے اس شوکاز کا جواب دینے کی بجائے درخواست دائر کر دی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معزز جج کہتے ہیں منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کر کے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل سے جو کیس بتا رہے ہیں وہ ریفرنس سے مختلف ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ انکم ٹیکس قانون کی بنیاد پر کیس بتا رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا آئینی درخواست میں ریفرنس پر بحث علمی حیثیت کی ہوگی جبکہ جوڈیشل کونسل ریفرنس کا جائزہ لے کر اسے مسترد کرسکتی ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا، ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا کیونکہ پہلے مرحلے میں اس مسئلے پر دلائل دینا مناسب ہوگا۔

سپریم کورٹ نے وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل سے کہا ہے کہ وہ تین نکات پر دلائل دیں۔

نمبر ایک یہ کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے اور الزام یہ ہے کہ جج کے خلاف مواد غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔

نمبر دو یہ کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات کو کیسے ججز کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 209 کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔

اور نمبر تین یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئیں۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت اب تین جون تک ملتوی کر دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp