کالم لکھتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟


لکھتے وقت یہ طے کریں کہ آپ کس طبقے کے لیے تحریر لکھ رہے ہیں۔ کیا یہ سکالرز کے لیے ہے یا عام لوگوں کے لیے؟ عام لوگوں کے لیے ہے تو عام فہم الفاظ استعمال کریں۔ مختصر ترین الفاظ میں موقف دیا جائے اور جس موضوع پر تحریر لکھ رہے ہیں اس پر فوکس کریں، درمیان میں غیر متعلقہ موضوعات کو چھیڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔

چند برس پہلے تک اردو کے اخباری کالم کی طوالت سولہ سو الفاظ کی ہوتی تھی۔ پھر چودہ سو تک بات آئی اور اب ہزار لفظوں میں بات کہنے کا حکم ملتا ہے۔ اب نوے فیصد سے زیادہ افراد موبائل کی چھوٹی سکرین پر تحریر پڑھتے ہیں۔ ان کی توجہ کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے عالمی میڈیا پر رجحان پہلے 800 الفاظ کی تحریر کا ہوا تھا، اب پانچ چھے سو الفاظ تک بات آ رہی ہے۔ جملے چھوٹے لکھنے چاہئیں۔ طویل جملے لکھے جائیں تو پڑھنے والا تو ایک طرف، لکھنے والا خود بھی بھول جاتا ہے کہ وہ کیا بات کہہ رہا تھا۔

ڈیوائس کے تناظر میں ہی یہ بات اہم ہے کہ تحریر میں اردو اور انگریزی رسم الخط کو ملانا نہیں چاہیے، اس سے بعض ڈیوائسوں، حتی کہ فیس بک کے شیئر پر بھی جملہ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔ کسی شخص یا جگہ کا نام لازماً اردو رسم الخط میں لکھنا چاہیے۔ بعض تکنیکی اصطلاحات کی مجبوری ٹھہرتی ہے لیکن انہیں بھی حتی الامکان اردو رسم الخط میں لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اردو جملے میں انگریزی کا کوئی لفظ لوگ عام بولتے ہیں، سوری یا تھینک یو وغیرہ، تو اسے اردو کا لفظ ہی سمجھیں۔ اسے انگریزی میں لکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جو بات لکھ رہے ہیں، اسے گوگل پر سرچ کر کے کسی اچھے سورس سے کنفرم کر لیں اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں۔ سوشل میڈیا کی پوسٹ یا تصویر کو ثبوت مت سمجھیں۔ سوشل میڈیا پر صرف معتبر شخصیات کے مصدقہ اکاؤنٹ کی پوسٹ کو ان کے حوالے سے استعمال کرنا چاہیے۔ یہاں جھوٹ بولنے والے بھی بہت ہیں اور جھوٹ کو سچ سمجھ کر پھیلانے والے بھی۔

اپنی یادداشت پر بھروسا مت کریں، وہ دھوکہ دے جاتی ہے۔ وجاہت مسعود کی یادداشت غیر معمولی ہے، ہزاروں اشعار کے وہ حافظ ہیں لیکن وہ اپنے کالم میں کوئی بھی شعر لکھتے ہیں تو کتاب سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ تحریر شائع ہونے کے بعد اس میں کوئی فاش غلطی پکڑی جائے تو لکھنے والے کی ریپوٹیشن خراب ہوتی ہے۔

تحریر کے پہلے ڈرافٹ میں، ذہن میں جو آتا ہے لکھتے جائیں۔ خیالات کی روانی کو توڑنے سے گریز کریں۔ عموماً اسے نظرثانی کرتے وقت باقاعدہ شکل دی جاتی ہے۔

یا پھر ایک دوسرا طریقہ آؤٹ لائن کا ہوتا ہے۔ پہلے تحریر کے اہم نکات لکھیں۔ تحریر کا پورا ڈھانچہ چند جملوں میں بنا لیں۔ اس کے بعد ایک ایک جملے کو پیراگراف کی شکل دیتے جائیں۔ مضمون آسانی سے تیار ہو جائے گا۔

تحریر لکھنے کے بعد اس پر نظرثانی کریں۔ جن الفاظ کی املا پر شبہ ہے، انہیں لغت سے چیک کریں۔ کم از کم ایک مرتبہ تحریر کو لفظ بہ لفظ پڑھنا چاہیے اور پورا جملہ ایک وقت میں پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے ٹائپو اور املا کی غلطیاں آسانی سے پکڑی جاتی ہیں۔ تحریر کو نسخ فونٹ میں لکھنے سے غلطیاں پکڑنا آسان ہو جاتا ہے، نستعلیق فونٹ غلطیاں چھپاتی ہے۔ اگر کوئی اردو کی نسخ فونٹ آپ کے کمپیوٹر پر موجود نہیں تو ونڈوز کی تاہوما یا ایریل وغیرہ بھی کام دے جاتی ہیں۔

نظرثانی کرتے ہوئے دیکھیں کہ کیا بیان کیے گئے تمام فیکٹس کی آپ اچھے مواخذ سے تصدیق کر چکے ہیں؟ کہیں درمیان میں تحریر کے مقرر کردہ موضوع سے ہٹ کر آپ نے کسی غیر متعلقہ موضوع پر تو لکھنا شروع نہیں کر دیا؟ ایسا ہے تو اسے تحریر سے نکال دیں۔ اس غیر متعلقہ موضوع کو مرکزی موضوع بنا کر اس پر کسی اگلی تحریر میں مفصل بات کر لیں۔ اب اس نظرثانی کے بعد آپ کی تحریر ایک باقاعدہ اور من چاہی شکل میں آ چکی ہے۔

تحریر کا پہلا ریویو مکمل ہو جائے تو دوسرا ریویو کریں۔ اس مرتبہ تحریر کو قاری کے نقطہ نظر سے پڑھیں۔ دیکھیں کہ کیا آپ روانی سے پڑھ رہے ہیں؟ کسی جگہ بوریت کا سامان تو نہیں ہے؟ کس بات میں غیر ضروری طوالت تو نہیں ہے؟ تحریر کسی بندھی ہے یا کسی جگہ ڈھیلی پڑ رہی ہے؟ کیا تمام مشکوک الفاظ کو آپ دیکھ چکے ہیں؟ کوئی فیکٹ صرف یادداشت کے سہارے تو نہیں لکھا گیا؟ میں طوالت اور فیکٹ چیک کے نکات کو بار بار ان کی اہمیت کے پیش نظر دہرا رہا ہوں۔

اگر آپ تیسری مرتبہ بھی تحریر پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی تحریر سے خود ہی بیزار نہیں ہو گئے تو غالب امکان ہے کہ تحریر اچھی لکھی گئی ہے۔ اگر آپ لکھنے کے بعد ایک مرتبہ بھی تحریر پڑھنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پاتے، تو مصنف کا اپنی تحریر پر یہ تبصرہ سب سے زیادہ صائب ہے۔ یاد رکھیں کہ ماں کو اپنا بچہ اور مصنف کو اپنی تحریر سب سے زیادہ خوبصورت لگتے ہیں۔ اگر ماں اپنے بچے پر اور مصنف اپنی تحریر پر دوسری نگاہ ڈالنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتے تو معاملہ گڑبڑ ہے۔ بچے کے معاملے میں تو ہماری ثقافت ہے کہ بہت خوبصورت ہو تو لوگ ماشا اللہ کہتے ہیں، اتنا دلکش نا ہو تو لوگ یہ کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ ”اللہ نے بنایا ہے“ ۔ تحریر کے معاملے میں لوگ چپ نہیں رہتے، موقعے پر انصاف کر دیتے ہیں۔

اگر مصنف خود اپنی تحریر کو اہمیت نہیں دیتا، اسے لکھنے کے بعد دوبارہ نہیں پڑھتا، جن الفاظ میں کنفیوژن ہے انہیں لغت سے چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، بار بار ایک ہی بات دہراتا ہے، فیکٹ غلط لکھتا ہے اور انہیں چیک کرنے کا سوچتا بھی نہیں، اور کمپوزنگ تک مدیران سے کروانے کا خواہش مند ہوتا، تو پھر خواہ وہ چاہے جتنا بھی حساس رائٹر ہو، اس کی تحریر مسترد کیے جانے کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

کوئی مصنف اپنی تحریر کو اہم سمجھ کر اس پر محنت نہیں کرتا، تو پھر دوسرے بھی اس کی تحریر کو اہم نہیں سمجھیں گے۔ نا وہ مدیروں کے لیے اہم ٹھہرے گی اور نا پڑھنے والوں میں محبوب قرار پائے گی۔

نوٹ: مختصر الفاظ میں موقف دینے کی ایک مثال مندرجہ بالا جملے میں ہے۔ ریویو کے بعد غیر ضروری الفاظ نکال کر اس کی بہتر شکل یہ ہو گی:۔
کوئی مصنف اپنی تحریر کو اہم سمجھ کر اس پر محنت نہیں کرتا تو نا وہ مدیروں کے لیے اہم ٹھہرے گی اور نا پڑھنے والوں میں محبوب قرار پائے گی۔

میری رائے میں کالم لکھنے کے اہم اصول یہی ہیں۔ ادب اور صحافت کے بہت بڑے بڑے اساتذہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ میرے ان نکات میں بھی فاش غلطیاں نکال سکتے ہیں اور زیادہ بہتر مشورے دے سکتے ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر بھی سیکھیں اور اگر رسائی ہے تو ان سے راہنمائی بھی لینی چاہیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments