پانچ ہزار برس کا آدمی


پچھلے سال معلوم ہوا کہ جناب آصف فرخی صاحب کی عمر انسٹھ برس ہے۔ مجھے یہ بات گیارہ برس کے لڑکے نے بتائی جو آصف فرخی صاحب کا دوست تھا ۔مجھے بتاتے ہوئے وہ پرجوش تھا،

“انہوں نے کہا تھا ان کی عمر پانچ ہزار سال ہے مگر گوگل نے بتایا وہ انسٹھ برس کے ہیں۔”

“ادا ، یہ بات تم ان سے خود پوچھنا ،مجھے اس کا نہیں پتہ ۔” میں نے اپنی جان چھڑائی ۔پھر آرٹس کاؤنسل کے احاطے میں آصف صاحب سے ملتے وقت لڑکے نے بے تکلفی سے انہیں کہہ دیا ،

“آپ نے کہا تھا آپ کی عمر پانچ ہزار سال ہے مگر گوگل سے میں نے سب معلوم کر لیا ہے ،آپ سکسٹی نائن ییئرز کے ہیں ۔مجھے سب پتا ہے ،آپ نے ایسے ہی کہا تھا؟” بچہ ملتے وقت ہی شروع ہوگیا ۔

“ارے نہیں بھائی ۔میری عمر پانچ ہزار برس ہے، میں نے تمہیں بتایا تھا ناں میں موئن جو دڑو کی کھدائی میں نکلا ہوں۔ گوگل تو ایسے ہی کہتا ہے ،گوگل کو کیا پتا۔” آصف فرخی صاحب اپنے دوست کو مطمئن کرنے لگے۔ وہ اس گیارہ برس والے بچے سے ایسی گفتگو کر رہے تھے کہ جیسے ہم عمر ہوں۔ میں خاموش کھڑا رہا۔

ہمت نہ ہوئی کہ ان دو دوستوں کے درمیان کچھ بول سکوں۔ کیوں کہ پچھلی بار میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی تو ڈاکٹر آصف صاحب نے کہا تھا ،

“بھئی تم تکلفات کے بندے ہو ،ہم دوستوں کے درمیاں مت آؤ۔” میں چپ کا چپ رہ گیا تھا۔ یہ جنوری دو ہزار انیس کا ایک دن تھا جب حیدرآباد سے کراچی تک کے سفر میں وہ پچھلی سیٹ پر دو بچوں کے ساتھ بیٹھے ایسی دوستانہ گفتگو کر رہے تھے۔ وہ دونوں بچوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی عمر پانچ ہزار برس ہے اور موئن جو دڑو سے کھدائی کے وقت برآمد ہوئے تھے۔ بچے ان کی اس بات پر ہنستے ہوئے دوہرے ہو جاتے اور پھر جب ہنسی میں وقفہ آتا تو پھر ان کی عمر کے بارے سوال پوچھنے لگتے۔ پھر وہی جواب آتا اور پھر ان تینوں کی مشترکہ ہنسی کی آواز۔ دوران سفر آصف صاحب نے بچے کو اپنی پسند کے سانگز میں سے ایک کا بتایا۔ وہ مل کر یوٹیوب پر جان ڈینور کا گانا کنٹری روڈس، ٹیک می ہومز (country road by john denver)  چلانے لگے۔

میں ان کے رویہ پر محو حیرت تھا۔ اتنی عالم فاضل بڑی شخصیت کا یہ روپ میرے لئے ایک نئی دریافت تھا۔ میں ان کی گفتگو سنتا بچوں سے اپنے رویہ کا اندازہ کرتا شرمسار ہو رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا بچوں سے تعلق پیدا کرنے کے “الف” سے بھی میں جاہل و بےخبر ہوں۔ گاڑی چلتی رہی اور پچھلی سیٹ پر لڑکا آصف صاحب کو اپنا کمپیوٹر تیار کرنے کا منصوبہ بتا رہا تھا۔ آصف صاحب اس کی اس بات کو اتنی اہمیت دے رہے تھے اور اس کی ایسی ہمت افزائی کر رہے تھے کہ مجھے بھی لگنے لگا واقعے گیارہ برس کا یہ لڑکا اپنا پرسنل گیمنگ کمپیوٹر خود بنا لے گا۔

اس گیارہ برس والے بچے کا دوست اچانک دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے شاید آصف صاحب کی رخصتی کا سب سے زیادہ دکھ اسے ہو۔ ممکن ہے نہ ہو لیکن ایک بات کا یقین ہے ان کی دوستی ہمیشہ باقی رہے گی۔ مجھے بچے پر رشک آتا ہے اس نے قسمت سے کیسی عمدہ صحبت حاصل کی۔ یہ ایک سفری صحبت بچے کو تا زندگی ہمت دلاتی رہے گی اور اسے یہ بتاتی رہے گی کہ وہ چاہے تو ہر مشکل حل کر سکتا ہے اور کامیابی کا ہر بند دروازہ کھول سکتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments