لاہور کی مسجد شب بھر (مسجد شہید)۔


لاہور کی یہ مشہور و معروف مسجد شاہ عالمی چوک میں واقع ہے۔
اس مسجد کی وجہ شہرت اس کی تعمیر کے ساتھ جڑا ایک دلچسپ قصہ ہے، جس میں اہالیان لاہور نے مصالحے کچھ تیز ہی رکھے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ جس جگہ مسجد ہے، اس زمین کے مدعی ہندو بھی تھے اور مسلم بھی۔ مسلمانوں نے یہاں ایک تھڑا بنا رکھا تھا جس پر وہ نماز ادا کرتے، آہستہ آہستہ یہاں اذان بھی شروع ہو گئی۔ یہ دیکھ کر ہندو بپھر گے اور اس جگہ کا تقاضا شروع کر دیا کہ وہ یہاں بھگوان کا گھر بنائیں گے۔ اس بات پر دونوں کے درمیاں تصادم ہوا اور معاملہ جا پہنچا انگریز منصف کے پاس۔

مسلمانوں کے وکیل جن کا نام بیشتر نے قائداعظم محمد علی جناح بتلایا ہے، یہ سب جان مسلمانان ہند کو مشورہ دیا کہ بھائیو جب صاحب بہادر یہاں قدم رنجہ فرمائیں تو اگر تو اس جگہ مسجد کے آثار ہوئے تو رسم اذاں قائم رہے گی ورنہ مندر کی گھنٹی بجے گی۔ کیونکہ انگریز کے قانون میں سبھی مذاہب کی عبادت گاہیں محترم ہیں یعنی منہدم کرنے کی اجازت کسی کو نہیں۔ یہ سن فرزندان توحید معرکہ حق و باطل کے لیے تیار ہو گئے، ریل کے اسٹیشن تا شاہ عالمی اور شاہ عالمی تا باغبان پورہ اینٹیں قطار کی صورت ہاتھوں ہاتھ ترسیل کی گئیں۔

استاد گاما پہلوان نے ان سب کا پہرہ دیا۔ یوں یہاں رام رام ست ہے کی بجائے، اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔ اس ایمان افروز واقعے کا سن زیادہ تر نے 1917 جبکہ بعض نے 1922 درج کیا ہے۔ کچھ نے حضرت اقبال کو بھی معماران مسجد میں شمار کیا ہے جبکہ دیگر کا کہنا ہے علامہ صاحب کو جب تیسرے روز اطلاع ملی تو وہ بھی جذبہ ایمانی کی داد دیے بنا نہ رہ سکے اور اپنا درج ذیل شہر آفاق شعر کہا:

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

درج بالا کتھا تو اس روایت پر مبنی ہے جو سینہ بہ سینہ چلتی آ رہی ہے اور زباں زد عام ہے۔ یعنی ہر ایک نے زیب داستاں کے لیے حسب ضرورت اس میں اضافہ کیا ہے۔

اصل معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ نقوش لاہور نمبر میں اس مسجد کی تعمیر کا احوال یوں درج ہے ”ابتدا میں یہاں ایک کچا سا چبوترہ تھا جس پر لوگ نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس کے قریب ہی ہندوؤں کا ایک مندر تعمیر ہوا۔ مسلمانوں کو مسجد پختہ کرنے کا خیال آیا تو حکومت نے ہندو مسلم فساد کے پیش نظر اس کی اجازت نہ دی۔ مئی 1922 میں ایک روز پرجوش نوجوانوں نے آپس میں مشورہ کر کے رات رات میں یہاں مسجد کھڑی کردی۔ وہ عشا کی نماز کے بعد کام پر لگے اور فجر کی نماز کے بعد فارغ ہو گئے۔ چونکہ مسجد میونسپل کمیٹی کی اجازت کے بغیر زبردستی کھڑی کی گئی تھی۔ اس لیے حکومت نے پولیس کی مدد سے زبردستی گرا دی۔ 1353 ہجری میں اس جگہ منظوری کے ساتھ مسلمانوں کے چندے سے انجمن اسلامیہ نے یہ عمارت تعمیر کی جو آج بھی موجود ہے۔“

اس وقوعہ کی مزید وضاحت مولانا غلام رسول مہر کے اس بیان سے ہوجاتی ہے ”لاہور کے مسلمانوں نے اچانک جمع ہو کر ایک رات میں شاہ عالمی دروازہ کے باہر مسجد بنا کر کھڑی کردی۔ اس مسجد کے لیے مدت سے درخواست دے رکھی تھی اور وہ درخواست منظور نہ ہوتی تھی۔ انہوں نے چپکے چپکے سارا مسالہ فراہم کر لیا۔ شام کے بعد بنانے لگے اور صبح سے پہلے پہلے مسجد مکمل کرلی۔ کچھ مدت بعد حکومت نے فوج کھڑی کر کے اس مسجد کو گرا دیا۔ پھر باقاعدہ منظوری حاصل کر کے یہ از سر نو تعمیر ہوئی۔“ مولانا صاحب چونکہ اخبار نویس بھی تھے اس لیے ان کا بیان قابل توجہ ہے۔

منیر احمد منیر کی کتاب ”مٹتا ہوا لاہور“ میں حافظ معراج دین صاحب کا ایک انٹرویو شامل ہے، جس میں انہوں نے اس واقعہ کا یوں تذکرہ کیا ہے ”وہ مسجد ہے نا، مسجد تو بنا دی شب بھر میں۔ یہ میرے باپ کی سجدہ گاہ ہے۔ پچھلی طرف میوہ منڈی تھی، اس کے اوپر لم سلمی چھت ہوتی تھی۔ نیچے دکانیں ہوتی تھیں۔ ان میں میرا دادا کرائے دار تھا۔ دکانیں تھیں چھوٹی، ایک منزلہ۔ ایک ملا صدر الدین تھا۔ ساتھ والی دکان اس کی تھی۔ مولوی صدرالدین نمازی پرہیزگار آدمی تھا۔ میرے والد صاحب بھی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تھڑا سا بنا دیں۔ تھڑا بنایا تو اس پر کتے پھریں، پیشاب کریں۔ پھر اینٹیں لگانی شروع کردیں۔ کسی مخیر آدمی نے نلکا لگوا دیا۔ اس طرح مسجد بن گئی۔ اس کے ساتھ ہندوؤں نے مندر بنانا شروع کر دیا۔ ایک رات فوج نے آ کے قبضہ کر لیا۔ ایک میاں خیر دین ہوتا تھا ہمارے ساتھ مسلم لیگ میں اس نے حصہ لیا۔ ایک ساجی ہوتا تھا اس نے حصہ لیا۔ بڑا کچھ ہوا۔“

مسجد شب بھر کی تعمیر کا ذکر پروفیسر مسعود الحسن و ڈاکٹر ایس ایم ناز نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو معروف روایت ہی درج کی ہے جبکہ پروفیسر صاحب کا بیان مولانا مہر سے ملتا جلتا ہے۔ اب اصل معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ یہاں ایک چبوترہ ہوتا تھا جہاں دکاندار یا مسافر حضرات نماز ادا کر لیا کرتے تھے۔ ہندوؤں نے جب قریب ہی مندر کی تعمیر شروع کی تو مسلمان حساس ہو گئے۔ نیز دونوں کے درمیان کچھ بحث و تکرار بھی ہوئی۔ اس کے رد عمل میں چند نوجوانوں نے رات بھر میں یہاں باقاعدہ ایک مسجد کا ڈھانچہ بنا دیا۔

چونکہ یہ بلدیہ کی منظوری کے بغیر بنا تھا اس لیے اس کو منہدم کر دیا گیا۔ بعد ازاں انجمن اسلامیہ پنجاب نے اسی مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کردی۔ اب یہ جج صاحب کی آمد، قائد کی تجویز اور گاما پہلوان کی نگہبانی اضافی چیزیں ہیں۔ نیز یہ بھی درست نہیں ہے کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا اور موجودہ مسجد کی عمارت وہی ہے جو رات بھر میں تعمیر ہوئی۔

اس مسجد کے متعلق عوام میں بہت سے قصے مشہور ہیں۔ یہاں موجود امام صاحب بھی غلط فہمیوں کی ترویج و ترقی کا باعث ہیں۔ پاکستان ٹوڈے میں تانیا قریشی صاحبہ کا اور روزنامہ دنیا میں بھی ایک مضمون دیکھا۔ دونوں نے ہی ذرا سی جستجو تک کرنے کی زحمت نہیں کی اور بس زبان زد خلائق افسانہ لکھ دیا۔ اس مسجد کے متعلق میں نے کوئی دو درجن سے زائد ویڈیو بھی دیکھیں، سبھی کا کہنا تھا یہ کہ یہ عمارت 1917 میں بنی۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے مسجد کی بھرپور عکاسی بھی کی لیکن انہیں مسجد پر درج سن تعمیر نظر نہ آیا۔

مسجد پر واضح درج ہے کہ ”مسجد شہید تعمیر کردہ انجمن اسلامیہ پنجاب رمضان المبارک 1353 ہجری ( 1934 ) میر عمارت منشی چغتائی۔“ اس مسجد کا نام بھی مسجد شہید ہے۔ علامہ اقبال کے شعر کے باعث اس کو مسجد شب بھر یا مسجد یک شب بھی کہا جاتا ہے۔ اس شعر کے متعلق بھی شارحین اقبال کی مختلف آرا ہیں۔ یعنی اختلاف ہے کہ اس شعر میں طنز کیا گیا ہے یا خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

ویسے یہ شعر بانگ درا کے آخر میں ظریفانہ کے عنوان تحت درج اشعار میں شامل ہے۔ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے طنز کیا ہے کہ مسجد تو رات بھر میں بنا لی لیکن نمازی کب بنو گے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے تو اس شعر کی شرح میں بتایا ہے کہ ہند بھر میں کئی مساجد ہیں جو ایک رات میں تعمیر ہوئیں بطور مثال انہوں نے بجنور کی نگینہ مسجد کا ذکر کیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس مسجد کے بنانے کا قصہ وہی ہے جو لاہور میں واقع اس مسجد کے متعلق عوام میں مشہور ہے۔ پشاور کی ایک مسجد کے متعلق بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک روز میں تعمیر ہوئی تھی۔

بہرکیف یہ مسجد اپنے ساتھ جڑی کہانی کے باعث عوام میں بے حد مقبول ہے۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے ہیں۔ ویسے مسجد ہے تو مختصر لیکن تعمیراتی لحاظ سے حسن و خوبی سے خالی نہیں۔ مہتمم عمارت نے سرخ و سفید پتھر استعمال کر کے مسجد کو قابل توجہ بنا دیا ہے۔ جب مسجد تعمیر ہونا تھی تب بھی یہاں دکانیں تھیں۔ اس لیے ان کو شاید مسجد کے مستقل بندوبست و انتظام کے لے لیے قائم رکھا گیا۔ احباب سے گزارش ہے کہ اندرون لاہور کبھی جانا ہو تو اس چھوٹی مسجد کی زیارت ضرور کریں۔

مسجد غالباً محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے تو ان سے التجا ہے کہ یہاں کم از کم ایک معلوماتی تختی ہی لگا دیں۔ تاکہ یہاں آنے والے اس کی درست تاریخ کو جان سکیں۔ انہی کوتاہیوں کی وجہ سے غلط و غیر مصدقہ روایات رواج پا جاتی ہیں اور پھر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحیح تاریخ سے واقف کروانے کا اہتمام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments