ہومی کے بھابھا اور مابعد نوآبادیاتی اصطلاحات


مابعد نوآبادیاتی مطالعہ، ثقافتی مطالعات کا حصہ ہے۔ باقاعدہ نظریہ سازی کے بعد اس رحجان نے الگ شکل اختیار کر لی ہے۔ مابعد نوآبادیاتی تنقید میں استعمار کار اور استعمار زدہ کے درمیان ہر قسم کے معاشی، ثقافتی، بشریاتی، نفسیاتی،

سیاسی، تہذیبی، مذہبی اور تعلیمی رشتے کا مطالعہ ادبی متن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ادبی متن کا یہ جائزہ مزاحمت، مفاہمت، معاونت اور دو جذبیت کی صورتوں میں لیا جاتا ہے۔ اس مطالعہ میں استعمار کار اور استعمار زدہ کا رشتہ کن صورتوں اور کن نوعیتوں میں ظاہر ہوتا ہے یا سمجھا جاتا ہے کی وضاحت مختلف ناقدین نے کی، ان ناقدین میں ہومی کے بھابھا وہ نقاد ہے جنھوں نے اس رشتے کو سمجھنے کے لیے اصطلاحات وضع کیں۔

بھابھا یکم نومبر 1949 ء کو ممبئی (انڈیا) کے معاشی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مرے سکول ممبئی سے حاصل کی۔ بی اے کی ڈگری انفنسٹون کالج ممبئی سے حاصل کی، جو اس وقت ممبئی یونی ورسٹی سے ملحق تھا۔ انگریزی میں ایم اے کی ڈگری کرسچیئن چرچ اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے حاصل کے بعد ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری وہیں سے حاصل کی۔ بھابھا نے عملی زندگی آغاز شعبہ انگریزی یونی ورسٹی آف سوسیکس Sussex سے بطور استاد کیا۔ وہ پرنسٹن، پنسلوانیا اور ہارورڈ یونی ورسٹیوں میں بھی بطور پروفیسر پڑھاتے رہے ہی۔ 1997 ء سے 2001 ء تک شکاگو یونی ورسٹی میں رہے۔ ایک سال کے لئے 2002 ء تک یونی ورسٹی کالج لندن میں بطور مہمان پروفیسر آف انگریزی ادب کے خدمات انجام دیں۔ 2012 ء میں انڈین حکومت کی طرف سے بھابھا کو پدما بھوشاں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بھابھا نے جن مفکرین سے اثرات قبول کیے ان میں ژاک لاکاں، ژاک دریدا، مثل فوکو اور بطور خاص ایڈورڈ سعید شامل ہیں۔

بھابھا کی اہم تصنیف ”The Location of Culture“ ( 1990 ) ہے۔ ثقافتی مطالعات میں اس کتاب کو بیسیویں صدی کی اہم ترین کتاب کی حیثیت حاصل ہے کہ یہ نظریہ ساز کتاب ہے۔ جس میں بھابھا نے چند اہم مابعد نوآبادیاتی اصطلاحات وضع کر کے آن کی وضاحت کی ہے۔ استعمار شکر اور استعمار زدہ کے رشتے کا تجزیہ کیا تو اسے جن نفسیاتی معاملات سے آگاہی ہوئی، بھابھا نے آن کے لیے باقاعدہ اصطلاحات وضع کیں اور پھر ان کی مابعد نوآبادیاتی تشریح کی۔ ذیل میں بھابھا کے حوالے سے تین اصطلاحات کی وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

* 1 :۔ Mimicry (نقل) *

کسی چیز جیسا بننے یا بنانے کی کوشش کرنا ”نقل“ ہے۔ مشابہت اختیار کرنے کے لیے نقل کی جاتی ہے۔ نقل کرنے کی یہ صلاحیت فطری ہوتی ہے۔ اگر کسی کو کوئی چیز اچھی لگی، کسی کا لباس اچھا لگا، طرز گفتار اچھا لگا، نشت و برخاست کا طریقہ اچھا لگا یا اسے کے رہن سہن کا سلیقہ بھا گیا تو وہ اس جیسے بننے کی کوشش کرے گا۔ یہ ایک فطری چیز ہے کہ انسان نقل کرتا ہے۔ ہم اسے دیگر معاشرتی حوالوں سے بھی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہ چیز بچوں سے لے کر بڑوں تک شامل ہے۔ نقل کوئی منفی رویہ نہیں بلکہ اسی کے ذریعے آئندہ نسل میں زبان، تہذیب و ثقافت اور آداب کے جملہ طریقے سلیقے شامل ہوتے ہیں۔ نقل صرف انسانوں تک نہیں بلکہ یہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے جس کی واضح مثال بندر ہیں۔ نقل کے ذریعے ہی چیزیں آئندہ نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔

مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں Mimicry باقاعدہ اصطلاح ہے۔ اس کو اصطلاح کا درجہ اگرچہ بھابھا نے دیا، لیکن اس کے ابتدائی نقوش ہمیں فرانتز فینن کے ہاں ملتے ہیں۔ استعمار کار اور استعمار زدہ کے رشتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے فینن نے کہا تھا کہ مقامی باشندہ، استعماری حکمرانوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ رشک کی نظر مقامی باشندے کو نقل تک لے جاتی ہے۔ فرانتز فینن خود ماہر نفسیات تھا جس نے استعمار کار اور استعمار زدہ کی الگ الگ نفسیات کا مطالعہ کیا اور، ان دونوں کی آپسی نفسیات کے مطالعہ کیا نیز استعمار کار کے استعمار زدہ پر اثرات کا تجزیہ نفسیاتی اصولوں سے کیا۔ فینن سے قبل آکٹو مانونی Octave Mannoni نے نوآبادیات اور مقامی باشندے کی نفسیات پر روشنی ڈالی تھی۔ لیکن وہ کام سرسری نوعیت کا تھا۔ جس کو فینن نے اسے عملی شکل دی۔ اس کے بعد بھابھا نے Of Mimicry Man مضمون لکھ کر ”نقل“ کی باقاعدہ اصطلاح وضع کی۔ نقل کے لیے چند ابتدائی اہم نکات ہیں۔

* نقل اسی کی ہو گئی جسے اچھا، معیاری اور قابل تقلید سمجھا جائے گا۔
* نقل کا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب نقل کرنے والے میں احساس پیدا ہو کہ وہ کم تر ہے۔
* نقل اسی کی ہو گئی جو طاقت میں ہو گا۔
* نقل ہمیشہ بڑے کی ہو گئی۔ یعنی نقل کرنے والا چھوٹا ہوگا۔

اب متوجہ ہوں، استعمار کار نے جہاں استعماری یلغار کی وہاں کے باشندوں کو یہ باور کرایا کہ استعمار ہر لحاظ سے اعلی اور افضل ہے۔ یورپ نے جس ملک کو Colony بنایا وہاں کے باشندوں کے سامنے ”یورپ کو بطور مرکز“ پیش کیا۔ جس کے مطابق یورپی تہذیب، کلچر، لباس، زبان، ادب، تعلیم، مذہب، قانون، انداز فکر اور اس کی اقدار اور جملہ یورپی مظاہر اعلی اور برتر ہے اور جو غیر یورپ ہے (خصوصاً مقامی باشندے ) وہ سست، کاہل، جاہل اور ارزل ہیں۔

لہذا غیر یورپین/مقامی باشندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یورپ/ استعمار کی تقلید کریں اگر وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ استعمار کے قانون، ان کے طرز حیات اور ان کی تعلیم کو دیکھ کر مقامی باشندے نے ان کے دیے ہوئے تصور کو قبول کر لیا، جس کی بنیاد پر اس میں نقل کرنے کی ڈگری صلاحیت نے زور پکڑا۔ مقامی باشندہ استعمار کی ثقافت Adopt کرنے کوشش کرتا ہے، وہ دراصل استعمار کی نقل ہی ہے۔ استعماری ثقافت کو مقامی باشندہ اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ان کے قریب ہو رہا ہے۔

نقل میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ استعمار کے برابر ہو جائے گا۔ استعمار کہنے کو تو کہتا ہے وہ مقامی کی نجات استعمار کی تقلید میں ہے مگر حقیقت میں استعمار کبھی نہیں چاہتا کہ مقامی باشندہ مکمل طور پر اس سے برابری کرے یا کبھی حاصل کر لے۔ استعمار کی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ مقامی سے ایک خاص فاصلہ رکھتا ہے۔ سوال یہ کہ مقامی استعمار کی نقل کیوں کرتا ہے۔ اس کے چند پہلو ہیں۔

* استعمار کے قریب ہونے کے لیے
* عہدہ حاصل کرنے کے لیے
* دیگر مقامیوں میں مقام حاصل کرنے کے لیے کہ ان پہ رعب ڈالا جا سکے
* مہذب ہونے کے لیے

اور جملہ وجوہات جو اسی سے ملتی جلتی ہیں۔ نقل کی کئی شکلیں ہیں جس میں مقامی باشندہ استعمار کی نقل کرتا ہے، اس میں رہن سہن، لباس، طرز رہائش، نشت و برخاست، چلنا، اٹھنا بیٹھنا، انداز گفتگو اور کھانے پینے سے لے کر علوم، زبان، تصورات، نظریات اور زبان، تعلیم، قانون اس سے بڑھ کر مقامیوں میں سے استعمار کا مذہب اختیار کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ لہذا بھی دیکھتے ہیں کہ نقل کا یہ تصور محدود نہیں بلکہ اس کی وسعت کا انداہ اس کے دائرہ کار سے لگایا جا سکتا ہے۔

نقل کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مقامی باشندے اس میں توازن رکھنے کے بجائے انتہا پسندی کا شکار ہو کر اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتا جاتا ہے۔ نا صرف دور بلکہ مقامی باشندہ اپنی اقدار، زبان، لباس، تعلیم اور ثقافتی مظاہر کو استعمار کے مقابلے میں کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ یہاں پہنچ کر Mimicry ایک منفی رویہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اپنی ثقافت سے دوری اور استعمار کی ثقافت سے قربت، دونوں کسی صورت مکمل نہیں ہو پاتیں۔ نتیجتاً وہ ایک ایسے مقام پہ آ کھڑا ہوتا ہے کہ نا تو وہ مکمل ”غیر ثقافت“ میں جا سکتا ہے اور نا ہی وہ ”ذاتی ثقافت“ میں رہ سکتا ہے، اس مقام پر پہنچ کے مقامی باشندہ ”بیگانگی“ Alienation کا شکار ہو جاتا ہے۔ سو اس کی شناخت مسخ ہو جاتی ہے۔

نقل کا فائدہ یہ ہوتا ہے اسی نقل کے ذریعے اگر وہ استعمار کے علوم اور اس کے نظریات و تصورات سے آگاہی حاصل کر لے، تو وہ انھیں بنیادوں پہ استعمار کو چیلنج کر سکتا ہے، اور دیکھنے میں آیا کہ مقامی باشندوں نے استعماری علوم کے حصول کے بعد انھیں چلنج کیا، جس سے ”ردنوآبادیات“ نے جنم لیا۔ لیکن اس بات سے انکار مشکل ہے نقل کے اس رویے سے مقامی باشندے /استعمار زدہ میں ایک مخلوط شناخت ابھر کر سامنے آئی، جس نے مقامی شناخت کو متاثر کیا۔ اور مقامی باشندہ ”مخلوط شناخت“ کا شکار ہو گیا۔ بھابھا نے اس کو بھی اصطلاح کا درجہ دے کر پیش کیا۔

* 2 *:۔ Hybrity (دو غلا پن، مخلوط شناخت) *

بنیادی طور پر یہ اصطلاح بائیولوجی کی ہے۔ جس میں دو مختلف چیزوں (جینز) کو مل کر نئی جینیاتی ساخت تیار کی جاتی ہے، اس عمل کو ”دوغلا“ کہتے ہیں۔ یہ عمل سراسر شعوری ہوتا ہے۔ ثقافتی مطالعات میں اس کی اہمیت مابعد نوآبادیاتی تھیوری کے حوالے سے اہم ہے۔ بھابھا نے یہ اصطلاح اپنی کتاب The Location of Culture میں بیان کی۔ مقامی باشندے نے جو نقل استعمار کی کی اس سے مخلوطیت پیدا ہوئی۔ استعمار نے جب بھی کسی ملک کو اپنی نوآبادی Colony بنایا تو وہاں اپنا کلچر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی۔

مسلط کیے گئے استعماری کلچر سے مقامی باشندے کی شناخت مسخ ہونی شروع ہوئی جو مزید بڑھتی گئی۔ مسلط کرنے اور قبول کرنے کا رجحان دونوں جانب ہوتا ہے۔ قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ استعماری کلچر کو اعلی اور ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے مقامی تسلیم کر لیتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی ملحوظ رہے کہ صرف مقامی ہی استعماری کلچر سے مرعوب ہوتا اور قبول کرتا نہیں بلکہ استعمار کار بھی مقامی کلچر سے متاثر ہوتا ہے، فرق یہ ہے وہ اس طرح سے نہیں اپنایا جس طرح سے مقامی استعمار کا کلچر اپنایا ہے۔

مقامی کی غلطی یہ ہے وہ غیر کلچر اس لیے اپناتا ہے وہ اعلی ہے اور دوسرا وہ اپنے کلچر کو کم تر سمجھتا ہے۔ مقامی باشندے کو اپنی زندگی میں دو ثقافتوں سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ یہی دو ثقافتوں کی گڈمڈ جس کا سامنا استعمار زدہ کو شعوری یا لاشعوری کرنا پڑتا ہے، سے پیدا ہونے والی مخلوطیت کو بھابھا نے ”Hybrity“ کا نام دیا ہے۔

مخلوط شناخت کی حامل نسل تیار کرنے میں لارڈ میکالے کی وہ تعلیمی پولیسی ہم سب جانتے ہیں جس کے مطابق ہندستانیوں کی ایسی نسل کی شعوری تیاری بذریعہ تعلیم تھی، جو نسل کے اعتبار سے ہندوستانی جبکہ مزاج اور سوچنے کے زاویے یورپی رکھتی ہو۔ یہ نئی کلاس جس کا طرز حیات یورپی تھا مخلوط شناخت کی حامل بنی۔ اس میں مفاہمت، معاونت اور دو جذبیت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ مخلوط شناخت نسل تہذیب و ثقافت، زبان، ادب اور علم ہر زاویے سے دو شناختوں میں بٹی ہوئی نبر آتی ہے۔ جو نا تو کامل یورپی ہے اور نا ہی مقامی شناخت کی حامل ہے۔ اس نسل کا کردار دیکھا جا سکتا ہے۔

* 3 * *:۔ Ambivalence (دو جذبیت) *

مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں بھابھا کی یہ اصطلاح کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اس کا ترجمہ ”دو جذبیت“ ، فرخ ندیم نے ”دو گونیت“ اور ڈاکٹر اشرف کمال نے ”ابہام“ کیا ہے۔ سادہ لفظوں میں دو جذبوں کا ایک وقت پایا جانا، دو جذبیت ہے۔ روزمرہ زندگی میں ہمیں کئی چیزوں کے بارے میں انفرادی سطح پر اچھے برے جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کسی شخص، جگہ یا چیز کے بارے میں انفرادی سے اجتماعی سطح تک دو مختلف اور متضاد جذبات کا پایا جانا/پیدا ہونا/محسوس کرنا یا ہونا ”دوجزبیت“ کہلاتا ہے۔ ہم ایک چیز کے بارے میں پسند/اچھے /مثبت یا ناپسند/برے /منفی دونوں جذبات ایک ہی وقت میں اپنی ذات میں محسوس کرتے ہیں، یہ شعوری بھی ہوتے ہیں اور لاشعوری بھی، ایسی کیفیت ”دوجذبی“ کہلاتی ہے۔ اس کی دو چند صورتیں یہ ہیں۔

* جس چیز کے بارے میں اچھے برے جذبات ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے ہیں، اس کے بارے میں تسلی ہو کہ مثبت اس لیے اور منفی اس وجہ سے ہیں۔

* جس چیز کے بارے میں اچھے برے جذبات ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے ہیں، اس کے بارے میں میں تسلی نا ہو کہ مثبت کیوں ہیں اور منفی کیوں ہیں۔

* کسی چیز کے بارے میں خود بخود اچھے برے جذبات کا پیدا ہونا جانا، یہ صورت شدید تذبذب کی ہوتی ہے، کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

* کسی چیز کے مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اس کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کر دینا۔
* کسی چیز کے منفی پہلوؤں کو مدنظر کر اس کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کر دینا۔

مذکورہ تمام صورتوں میں دو جذبیت ہے۔ میں نے اوپر کہا کہ یہ دوجزبیت انفرادی اور اجتماعی دونوں شکلوں میں ہو سکتی کے۔

یعنی کسی گروہ کا گروہ کے بارے میں دو جذبی ہونا یا کسی قوم کا کسی دوسرے قوم کے بارے میں دو جذبی ہونا ہے۔

بھابھا کی تعلیمات کے مطابق نوآبادیاتی عہد اور مابعد نوآبادیاتی عہد دونوں کے ادب میں نوآبادیاتی تمدن/استعماری ثقافت کے بارے میں رد و قبول کے دو متضاد جذبات کا استعمار زدہ میں پایا جانا ”دو جذبیت“ کہلاتا ہے۔ مقامیوں میں غیر کے بارے میں دو متضاد جذبات کا پایا جانا فطری ہے۔ اس لیے کہ ہر چیز اپنے مثبت اور منفی پہلو لیے ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں رد کی جاتی ہے کچھ چیزیں قبول کی جاتی ہے۔ ”دو جذبیت“ اس وقت اپنے کمزور پہلوؤں کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے جب مقامی باشندہ استعمار کی جملہ چیزوں کو یا رد کر دے یا قبول کر لے۔ لیکن یاد رہے یہ ایک ہی وقت میں دو جذبات کا پایا جانا ”دو جذبیت“ ہے۔ مقامی باشندے کی یہ نفسیاتی کشمکش کو بیان کرنے، سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھابھا Ambivalence کی اصطلاح پیش کی ہے۔ یہ دراصل Mixed Feelings ہوتی ہیں۔ اس اصطلاح کی مدد سے مابعد نوآبادیاتی عملی مطالعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔

بھابھا کی مذکورہ بیان کردہ تین اصطلاحات کو اردو ادب پر اطلاق کر کے وہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جو دیگر کسی ذریعے سے اس طرح ممکن نہیں۔ ہومی کے بھابھا کی یہ عطا عالمی تنقیدی تھیوری میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم بھابھا کو مابعد نوآبادیاتی تنقیدی تھیوری کے بنیاد گزاروں میں شامل کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments