! تاریخی حقانیت اور ہے ؛ مروجہ حقانیت اور
کوئی مانے یا نہ مانے، تاریخی حقانیت اپنی جگہ یہی ہے کہ پاکستان ’مسلم قومی ریاست‘ ہے۔
تاہم مروجہ حقانیت چیزے دیگر است۔ مروجہ حقانیت مقبولیت عامہ کا درجہ پا جائے اور کلاماً و دستوراً اسے حق بحق ہونے کا درجہ بھی دے دیا جائے تو اس کے طے کردہ معنی جھٹلانے کا نتیجہ قدماء میں سے سقراط یا گلیلیو وغیرہ کی مثالوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے یا موخر میں سے ’عبرت کا نمونہ‘ بھٹو کی پھانسی سے لیا جا سکتا ہے جنہیں ’تحریک نظام مصطفی ﷺ‘ کے مذہبی کلمہ حق کا دعویٰ گرما کر معزول کیا گیا اور پاکستان میں امریکی سفیر کو ان کی حکومت کی طرف سے ’بھٹو کو پھانسی دلوانے‘ کے حکم پر عمل کروانے سے پورا کر دکھایا گیا جس کی نشاندہی بریگیڈئیر ترمذی کی کتاب ’پروفائلز آف انٹیلیجنس‘ کے صفحہ 33 اور 38 پر درج ہے۔
یا پھر قادیانی جنرل اختر ملک کو عین اس وقت ہٹا کر یحییٰ خان کو کمانڈ سونپ دینے سے ملتا ہے، جب وہ مقبوضہ کشمیر کے علاقہ اکھنور پر قبضے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ تاکہ یحیی خان اسے ناکام مہم بازی کے نتیجے تک لا کر جنرل اختر کی ہیروشپ کا تاثر نہ لگنے دیں اور وہ اگلے کمانڈر انچیف بننے کے حقدار بھی نہ بن سکیں (شہاب نامہ صفحہ نمبر 672 ) ۔ اس سب کچھ کے باوجود اگر کسی چھوٹے منہ کو بڑی بات بولنے کی لت سے پالا آ بھی پڑے تو اس کی حالت دیدنی ہوتی جاتی ہے۔
کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ ’جب بولوں گا تو بولو گے کہ بولتا ہے‘ ۔ اس قسم کی کسی ناگہانی گرفت سے بچنے کے لیے اس نے ایسے دو چار شعر کہیں سے چرا کر محفوظ کر رکھے ہوتے ہیں کہ جنہیں وہ اپنی تنگ دامنی پہ پردہ ڈالنے کے لیے آگے کر دیتا ہے تاکہ بڑے لوگ اس کے بولوں کو محض شاعرانہ بے کسی پر محمول کر کے ٹال دیں۔ شاعرانہ بے کسی تو اپنا ماتم ہی آپ یوں کرتی دکھائی دیتی رہتی ہے کہ
ارے بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی کیسے میں بھر لاؤں مدھوا کی مٹکی
یا یہ کہ
دوپہر تک بک گیا تھا سارا جھوٹ شام تک بیٹھا رہا ہوں میں سچ لیے بازار میں
منہ جب کھول ہی لیا گیا ہو تو پھر لگے ہاتھوں پاکستان کی مروجہ حقانیت اور اس کی معنویت کا وہ ابہام بھی زبان پر لا دینا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کیوں کر تاریخی حقانیت اور اس کی معنویت کے منافی کوئی اختراع یا افتراء ہے۔ مروجہ حقانیت کے معنوں میں پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، دستور میں جسے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا درجہ حاصل ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ لائی جاتی ہے کہ اسے چونکہ مسلم حق رائے دہی کے فیصلے پر علیحدہ مسلم وطن کے طور پر حاصل کیا گیا، نیز مسلمان کی جداگانہ شناخت چونکہ اس کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اس لیے پاکستان کی اساس اس لحاظ سے خودبخود اسلامی ہوجاتی ہے۔
اس بارے میں ابہام یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید تقسیم ہند سے صرف مسلمان آپس میں تقسیم ہو کر بھارتی اور پاکستانی قرار نہیں پائے بلکہ ان کا اسلام بھی منقسم ہو کر ادھر ادھر کا ہوگیا جبکہ اصلاً اور حقیقتاً ایسا نہیں ہوا باعث اس کے کہ اسلام ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک ہی ہے ایک ہی رہے گا اور ناقابل تقسیم بھی۔ اسلام اپنی جگہ نظریہ ہے نہ اپنے اپنے نظریوں کا پیمانہ ہے۔ اسلام اللہ کا طے کردہ ہے جو نظریوں یا فرقوں کی توجیہات کا منبع نہیں بلکہ مطلق اور حتمی حق ہے۔
اسی بات کو تمام مسلم ممالک پر منطبق کیا جائے تو ان میں سے کوئی بھی اسلامی ریاست شمار نہیں ہو سکتا۔ سب کی سب مسلم ریاستیں کہلائیں گی۔ اسلامی ریاست یا تو خلافت ارضی کی صورت میں قائم ہو سکتی ہے، یا پھر مدنی ریاست کی تقلید اپنا کر واحد اسلامی ریاست کے جھنڈے تلے سب مسلم ریاستیں ایک ہو جائیں، اس کے بغیر کوئی اکیلا دکیلا مسلم ملک اسلامی ریاست کی تعریف پر پورا نہیں اتر سکتا۔ قیام پاکستان کو نظریہ اسلام کی مروجہ حقانیت سے جوڑنے کی خاطر رمضان کی ستائیسویں رات کا اسلامی اثر بھی سمو لیا جاتا ہے کیونکہ کہ چودہ اور پندرہ اگست ( 1947 ) کی درمیانی رات کو یہی رات تھی۔
رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کا امکان ضرور ہوتا ہے لیکن ستائیسویں رات اس کے لئے مختص نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ لیلۃ القدر اگر ساری زمین پر صرف یکبارگی واقع ہوتی ہے، تو اس دوران سعودی عرب ہی کی نہیں ہمارے اپنے پشاور کی قاسم مسجد وغیرہ کی ستائیسویں بھی باقی پاکستان سے الگ ہو تو کیا وہاں لیلۃ القدر بھی الگ ہوگی؟
پاکستان کے بارے میں ایک بحث کا حوالہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کی 15 نومبر 2016 کی اشاعت میں بھی آیا تھا جس میں پہلے بھارتی کمشنر نے یہاں قائداعظم سے اسلامی اور مسلم ریاست ہونے کا سوال کیا تھا تو ”قائد اعظم نے پرزور تردید کی تھی کہ انہوں نے پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا تھا“ ۔ برطانوی شاہ جارج پنجم نے 18 جولائی 1947 کو جس ’قانون آزادی ہند‘ پر دستخط کیے تھے اس میں بھی ”دو خودمختار اور آزاد قومی ریاستوں کے قیام کا اعلان تھا“ (وجاہت مسعود) ۔
تحریک کے دوران کانگریس متحدہ قومیت کی داعی تھی اور لیگ مسلم۔ غیر مسلم دو قومی ہند کی طلب گار تھی۔ اس لحاظ سے بھی پاکستان کا قانونی قیام ’مسلم قومی ریاست‘ ہونے سے موسوم ہے۔ اگر پاکستان نہ بنتا اور اس کی بجائے قائداعظم کے مطالبے کا دستوری حق طے ہونا کانگریس مان جاتی تو اس صورت میں یقیناً دو قومی ہند برقرار رہ گیا ہوتا جہاں پر سیکولر نظام حکومت کی عمل داری ہی قابل قبول ٹھہرتی۔ پاکستان جب مسلم قومی ریاست بن کر قائم ہو گیا تو اب یہاں عمل داری مسلم قوم اور اس کی تہذیب و ثقافت سے ازخود مشروط ہو گئی، جو سیکولر نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کی ریاستی قومیت خالصتاً مسلم قوت فیصلہ سے طے ہوئی۔
ریاستی قومیت کا درجہ دستوری و آئینی ہے۔ شہری قومیت میں یہاں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں لیکن ریاستی قومیت میں غیر مسلم اقلیت ہیں۔ وہ لیگ کا میثاقی حصہ بن کر اس میں شامل ہوئے تھے۔ شہری قومیت کا درجہ میثاقی و قانونی ہے، آئینی نہیں ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح میثاق مدینہ کی ایک دفعہ کے مطابق ”مسلمانوں کے لئے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں کے لیے ان کا دین“ ہونا طے کیا گیا تھا (ڈاکٹر حمیداللہ ’خطبات بہاولپور‘ صفحہ نمبر 204 ) ۔
اس کے بعد یہودی جب معاہدے سے پھر گئے اور بغاوت پر اتر آئے تو ان کا فساد کچل کر خالصتاً ”مسلمانوں کے دین“ کا فیصلہ برقرار رہ گیا جس کی رو سے اب مدینہ واحد اسلامی ریاست کے قالب میں ڈھل کر آگے خلافت راشدہ جا بنی جو خلافت ارضی کے معنوں میں ساری دنیا کے لیے فقط ایک اسلامی ریاست کا نمونہ تھی۔ حضرت امیر معاویہ کے بعد اسلامی ریاست کی اسلامی سیاست ختم ہو گئی۔ مسلم مطلق العنانیت کے ادوار لگنے شروع ہو گئے تو اسلامی سیاست کی جگہ سیاسی اسلام کا روپ نمودار کر لیا گیا۔
- جھوٹے سچ پر استوار سچے جھوٹ کی تماشا گاہ کے زور پر عقلی سوچ سے حصول آزادی کا مارچ - 23/11/2022
- …. رباء کا سُود سے ہائبرڈ اختلاط - 11/07/2022
- حق آزادی رائے توہین مذہب کا استناد نہیں، فساد ہے - 01/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).