مستنصر حسین تارڑ۔۔۔ تمھارا قرض کس طرح چکائیں


سوشل میڈیا پر ایک کلپ نظروں سے گزرا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا منعقدہ لٹریری فیسٹیول 2014 ہے، سٹیج پر گلگت بلتستان کے رائٹر اور شاعر براجمان ہیں جبکہ آمنہ سید جو کہ ڈائریکٹر ہیں آکسفورڈ پریس کی وہ بھی ساتھ ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ نیچے سامعین میں پچھلی بینچوں سے ایک شخص جس کے برف کے گالوں کی طرح سفید بال ہیں، بڑی بڑی غلافی آنکھیں جن کے ارد گرد اب جھریوں نے مکڑی کے جالے بنائے ہیں اور کلین شیو، مائک تھامے گلگت بلتستان کی خوبصورتی پر رطب اللسان ہے۔ کہہ رہا تھا کہ ”گلگت بلتستان میرے اندر بستا ہے“، ”وہاں کی ٹھنڈی ہوائیں میری سانسیں اکھڑنے نہیں دیتی“، ”یہ میرے لوگ ہیں“ یہ کہنے والا کوئی اور نہی۔۔۔ ہمارا مستنصر حسین تارڑ ہے۔ تارڑ کے ایک ایک جملے کے پیچھے ایک پوری دنیا ہے، ایک لمبی داستان، محض محفل میں کہے جانے والے روایتی جملے نہیں۔

سفری داستان لکھنے کا ہنر پرانا ہے سکندر اعظم نے جب مقدونیہ سے نکل کر ہمارے ٹیکسلا تک فتح کیا اور راجہ پورس کو بھی شکست دی تو اس ساری مہم اور اس خطے کے احوال ٹالمی، پلوٹارک، ایرین اور ہیروڈوٹس نے لکھے۔ البیرونی جب محمود غزنوی کے ساتھ آیا تو مشہور داستان ہند لکھ ڈالی، ابن بطوطہ نے جب صحرائے گوبی کی ریت پھانکیں تو روداد سفر ضبط تحریر کیا۔ مارکو پولو وینس اٹلی سے نکل کر چنگیز خان کے پایہ تخت قراقرم تک چلا آیا اور قبلائی خان کے دربار کی کہانیاں بیان کی۔ غرض ہر سفر ایک جہان حیرت ہے۔ ادھر مشرق سے چوتھی صدی عیسوی سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک بدھ مت تعلیمات کے حصول کے لئے اور مقدس کتابوں کے متلاشی فاہیان، چومی، اوکانگ اور ہیون سانگ چین سے نکل کر گلگت بلتستان کی تنگ اور مشکل گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے ٹیکسلا، گندھارا اور کشمیر گئے تو اپنے پیچھے شاندار سفری داستانیں لکھ چھوڑیں۔

یہ سب پرانے قصے ہیں، ہمارے دور میں پاکستان کی مٹی سے مستنصر حسین تارڑ نے جنم لیا اور دماغ کا خلل کہیے یا کچھ اور تقریباً پوری دنیا کی خاک چھان ڈالی۔ ”نکلے تیری تلاش میں“ سے سفر شروع کیا اور ابھی تک ختم ہی نہی ہورہا ہے۔ ان کی تحریروں میں بلا کی جاذبیت اور حسن ہے۔ ڈرامے لکھے، ٹی وی پروگرامز کیے، کالم نگاری کی اور پھر ان کے ناول ”پیار کا پہلا شہر“ ، ”قربت مرگ میں محبت“، ”راکھ“ اور ”بہاؤ“ ایک نئے اسلوب اور فنی محاسن کے شہکار۔

تارڑ صاحب نے گلگت بلتستان پر تقریباً بارہ کتابیں لکھی جو تمام کی تمام سفرناموں پر مشتمل ہیں اور سفر بھی کہاں کے؟ پہاڑی بلندیوں کے، گلیشیئرز کے، اونچے پہاڑوں پر ٹکے ہوئے برفانی جھیلوں کے اور مشہور پہاڑوں کے بیس کیمپ کے۔

اس سے پہلے گلگت بلتستان کے بارے میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران آئے مستشرقین کی کئی کتابیں موجود تھیں جن کی اکثریت گریٹ گیم کے دوران اس خطے کی صورتحال اور اہمیت کو دیکھنے آئے تاکہ تاج برطانیہ کا دبدبہ برقرار رہے۔ ان کتابوں میں بھی تاریخ، جغرافیہ، کلچر، ٹورازم، انتھروپالوجی غرض بہت کچھ ہے لیکن ان تک عام قاری کی رسائی بہت کم ہے اور اکثریت پرنٹ حالت میں بھی نہی ملتیں۔ ملکی سطح پر کچھ بڑے رائیٹرز نے سفرنامے لکھے مگر وہ سب کے سب یورپ و امریکہ اور وہاں کی مہ وشوں کے حسن کی حشر سامانیوں سے متعلق ہیں۔

اپنے ملک اور خاص طور پر گلگت بلتستان کی خوبصورتی کو کسی آنکھ نے اس طرح نہیں دیکھا اور نہ ہی اس طرح بیان ہوا جس طرح مستنصر تارڑ نے بیان کیا ان کے سفرناموں میں تنقید بھی ہوئی کہ کچھ زیادہ لفاظی ہوئی ہے، منظر نگاری کچھ زیادہ ہی ہے لیکن ان سب کا جواب ان کے ہی ایک جملہ میں موجود ہے کہ ”کوئی منظر ہر کسی پہ پوری طرح کہاں کھلتا ہے“ اور واقعتاً گلگت بلتستان کی حسین وادیوں کا خاص رخ تو کس کسی پہ کھلتا ہے اور وہ لمحہ جذب و مستی کا لمحہ ہوتا ہے۔

تارڑ صاحب کے یورپ اور دیگر ملکوں کے سفرناموں کو ایک طرف رکھتے ہیں اور صرف گلگت بلتستان کی وادیوں اور پہاڑوں کی خاک پیمائی کی جو رودادیں چھپیں ہیں اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان سفرناموں پر تجزیہ و تحلیل میری بساط کہاں، ہاں ان سفرناموں کے کچھ ذیلی عنوانات درج کرتا ہوں دیکھیے کیا لطف دیتے ہیں۔ یہ تمام سفر نامے میرے عزیزم بشارت ساقی کی ذاتی لائبریری سکردو حاجی گام میں موجود ہیں اور وہیں سے میں نے پڑھا ہے۔ ”کے ٹو کہانی“ یہ کے ٹو بیس کیمپ تک کا سفر ہے اور کتاب کے ذیلی موضوعات ہیں۔ پچھلی شب میں نے شاہ گوری کو خواب میں دیکھا اس کے لیے میں نے کیا کشٹ اٹھائے۔ جہاں پہاڑوں کے دیوتاؤں کے تخت بچھے ہیں اور ان پہ رتھ اترتے ہیں۔

” یاک سرائے“ یہ سفر نامہ اشکومن، درکوت کرومبر جھیل اور بروغل پاس کا ہے اور عنوانات دیکھیے۔۔۔ درکوت سفید گونجتی ندیاں اور ڈھلتی شام، لمبی دموں والے پرندے میرے خیمے میں دستک دیتے ہیں اور بروغل ہم ایسے کہ یاک ہو گے۔

” سنو لیک“ یہ نہایت پرخطر سفر ہے اور پولر ریجن سے باہر بڑے گلیشیئر بیافو ہسپر اور سنو لیک کا قصہ ہے۔ اور ابواب دیکھئے۔ برف کی جھیل، دودھیا بدن اور میں تنہا، ویران تھنگل میں اشنان اور میرا لٹا شہر بھنبھور، سنو لیک برف پری سے ملاقات اور جدائی۔

” ننگا پربت“ اس کتاب میں ننگا پربت کے دونوں اطراف کے بیس کیمپ تک کا تذکرہ ہے اور عنوانات پر نظر ڈالیں۔۔۔ فیری میڈو کا جنگل، مارخور اور برفانی انسان۔ روپل گلیشیئر کے ہاتھی اور شو کور پر اک زرد خیمہ۔ روپل دیکھنے والے آوارہ گرد کی مسکراہٹ میں فرق ہوتا ہے۔ ”دیوسائی“ اس سفر میں بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی کی جادوئی حسن کے تذکرے ہیں اور پھر کچھ موضوعات دیکھیں۔۔۔ اور دیوسائی کی برف پگھل رہی ہے، ان گنت ہیروں پہ قدم رکھتے ہیں، تارڑ ریچھ، سلجوق ریچھ اور سمیرا ریچھ۔

” ہنزہ داستان“ اس سفر میں وادی ہنزہ کی خوبصورتی کا لفظ لفظ تذکرہ ہے مثلاً پھسو کی رات اور ہوا وحشی ہوتی جا رہی ہے، روم کی تریوی فوارے کا پانی دریائے ہنزہ کا پانی اور سکے کس نے ڈالے۔ ہنزہ داستان تب وہ کھڑکی کھلی۔

” راکا پوشی نگر“ کتاب کے عنوانات پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔ سفید معبد، راکا پوشی کی جانب پہلا قدم طیور نغمے تتلیاں گلاب اور پھول، دیران کی چوٹی پر اٹکا چاند کا سنہری تھال۔

اس کے علاوہ ”شمشال بے مثال“ ، ”سفر شمال کے“ اور دیگر کتابیں قاری کو حیرت میں جھکڑ لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ تارڑ کے ساتھ ساتھ قاری بھی عازم سفر ہے اور منظروں کی جادوئی لڑیاں کھلتی جا رہی ہیں۔ غالباً ان کی آخری کتاب ”حراموش ناقابل فراموش“ ہے جو 2017 ء میں چھپی ہے کٹول جھیل اور وادی حراموش کی ٹریکنگ پر ہے اور یہ خاص اس لئے ہے کہ اس سفر میں تارڑ کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے، اعضاء رئیسہ لرز رہے ہیں مگر عزم و ہمت اور جذبہ آوارہ گردی جواں ہے۔ موضوعات دیکھتے ہیں۔ پانی کے تتلیاں اور بلند قراقرمی چراگاہ، کٹول گاؤں برف آئینوں میں کھلا پھول۔

غرض تارڑ کا ہر سفر انوکھا اور داستان سے پر ہے۔ ان کے سفر ناموں نے یہاں کی ٹورازم بڑھانے میں بے انتہا مدد کی ہے اور ہم ہیں کہ کبھی ان کو گلگت بلتستان بلاتے ہی نہی صرف ایک شکریہ کہنے کے لئے بھی نہی جس کا وہ تمنائی بھی نہی کیونکہ گلگت بلتستان اس کے اندر بستا ہے اور وہ اس کا مکین ہے۔ شکریہ مستنصر حسین تارڑ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments